"ACH" (space) message & send to 7575

کوئی باز نہیں آ رہا!

گئے وقتوں کی بات ہے جب پٹرول تھوڑا بہت بڑھتا تھا یا کبھی بجلی چند پیسے بڑھائی جاتی تھی‘ اب تو بجلی‘ ڈالر اور پٹرول تینوں ایک ساتھ حملہ آور ہو چکے ہیں اور چند پیسے نہیں بلکہ پندرہ پندرہ‘ بیس بیس روپے پٹرول کی مد میں اکٹھے بڑھا دیے جاتے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں درجن بھر ٹیکس شامل ہیں اور مہینے میں چار مرتبہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ملک میں گیس پہلے ہی نایاب ہو چکی ہے۔ کوئی تیس لاکھ کے لگ بھگ گیس کے کنکشنز التوا کا شکار ہیں اور شاید نئے کنکشن ملیں بھی ناں کیونکہ گیس کے ذخائر ویسے ہی معدوم ہو چکے ہیں۔ اب تو بجلی کی طرح گیس کی لوڈشیڈنگ بھی عام ہو چکی ہے۔ موسم گرما میں تو پھر گیس کھانا پکانے کے چند گھنٹوں کے لیے آ جاتی ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ اس میں مزید کمی آ جائے گی اور اس سال تو سردیوں میں گھروں میں گیس آنے کا امکان بہت کم ہو رہا ہے۔ اگر آئی بھی تو پریشر نہیں ہوگا اور ساتھ میں قیمتیں بھی اتنی بڑھ جائیں گی کہ لوگ بجلی کے بلوں کی طرح گیس کے بل بھی جلانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ صاف پانی نام کی چیز اس ملک میں پہلے ہی نہیں۔ عام استعمال کا بھی نایاب ہو رہا ہے۔ ہر ہاؤسنگ سوسائٹی اپنے تئیں انتظامات کرتی ہے۔ جہاں سوسائٹی مالکان لاپروا ہیں ان ہاؤسنگ سوسائٹیز اور وہاں کے رہائشیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کئی سوسائٹیز ایسی ہیں جہاں بجلی کی ٹرپنگ عام ہو چکی ہے۔ آئے روز گھر کی چیزیں جل جاتی ہیں‘ بارشیں ہو جائیں تو سیوریج کا نظام جواب دے جاتا ہے اور سڑکیں دریاؤں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔ پھر مہنگائی بڑھنے سے جرائم کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ گھروں کے باہر پارک کی گئی گاڑیوں کے چاروں ٹائر اتار لیے جاتے ہیں اور مالک کو گاڑی چند اینٹوں پر کھڑی ملتی ہے تو وہ سر پیٹتا رہ جاتا ہے۔ پولیس اس معاملے میں بھی وہی کچھ کرتی ہے اور مالک کو سی سی ٹی وی کیمرے لگوانے کا کہہ کر چلی جاتی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کئی جگہوں پر گلیوں میں لوہے کے گیٹ لگا لیے جاتے ہیں اور ہر گلی میں الگ چوکیدار رکھ لیا جاتا ہے۔ اس طرح اضافی رقم خرچ کرکے لوگ اپنا دال دلیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن اب چور اُچکے رات کے اندھیرے میں کم ہی نکلتے ہیں اور رش والی جگہوں پر واردات کرتے ہوئے بھی نہیں گھبراتے۔ سوشل میڈیا پر آئے روز ایسی ویڈیوز آتی ہیں جن میں دن دیہاڑے بھرے بازار میں موٹر سائیکل سوار آتے ہیں اور مرد و خواتین سے زیور‘ پرس اور موبائل چھین کر بڑے سکون سے فرار ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ سب کراچی کے بارے میں سنتے تھے لیکن اب یہ وارداتیں ملک بھر میں پھیل چکی ہیں حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہا۔ وہاں آس پاس کی کچی آبادیوں میں کون مقیم ہے‘ کیا ہو رہا ہے‘ اسلام آباد پولیس اور ادارے بے خبر نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد میں تو ویسے ہی سرشام خاموشی چھا جاتی ہے اور رات کے آغاز میں ہی ہُو کا عالم ہوتا ہے لیکن اب تو وہاں شہری دن کے وقت بھی محفوظ نہیں رہے۔ گزشتہ ایک برس میں اسلام آباد میں چوری‘ ڈکیتی اور راہزنی کے ساڑھے دس ہزار مقدمات درج کیے گئے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب لاہور اور کراچی کے مکین سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے اسلام آباد کو محفوظ خیال کرتے تھے۔ ویسے بھی اس شہر کو طاقت کا مرکز خیال کیا جاتا ہے اور یہاں غیرملکی سفارت خانے ہونے کے باعث غیرملکیوں کی بڑی تعداد کی نقل و حرکت رہتی ہے لیکن اب یہ جگہ بھی عام لوگوں کے لیے محفوظ نہیں رہی۔
پٹرول‘ ڈالر اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد حالات مزید خراب ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی جو ملک سیاسی استحکام سے محروم ہو وہاں پر ایسے مسائل کا پنپنا باعثِ تعجب نہیں۔ جس رفتار سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں اس کے بعد عوام کا خون نچوڑنے کیلئے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں عوام بنیادی سہولیات کے حصول کے لئے ایک جنگ کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ایک محدود طبقہ جو شاید پانچ دس فیصد سے بھی کم ہو اسے البتہ ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم گزشتہ تین چار سال میں ہونے والی مہنگائی نے مڈل کلاس کو بھی زندہ درگور کر دیا ہے۔دیکھا جائے تو اس وقت مڈل کلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یا اَپر کلاس ہے یا پھر لوئر کلاس۔ درمیان والی کہانی ختم ہو چکی۔ جو اپر مڈل کلاس میں تھے وہ بھی پٹرول‘ ڈالر کے تازہ اضافوں کے بعد نیچے چلے جائیں گے کیونکہ پٹرول اور ڈالر کے بڑھنے سے ہر چیزمہنگی ہوتی ہے۔ کاروباری طبقے کو بھی فرق پڑا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا نوکری پیشہ افراد کو۔ کاروباری طبقہ مہنگائی کا اضافی بوجھ بڑے سکون کے ساتھ نیچے منتقل کر دیتا ہے۔ اب تو بہت سی مصنوعات پر قیمتیں بھی درج دکھائی نہیں دیتیں کہ جتنی تیزی اور تسلسل سے مہنگائی ہو رہی ہے‘ مصنوعات پر سے بار بار قیمتیں تبدیل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس کے بجائے سیدھا کمپیوٹر سافٹ ویئر میں قیمت تبدیل کر دی جاتی ہے اور صارف کو کیش کائونٹر پر جا کر پتہ چلتا ہے کہ اسے اصل میں چیز کتنے میں پڑی ہے۔ کیش کائونٹر پر وہ اس شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اشیا میں کمی بیشی کرے یا پھر وہ اضافی رقم کے ساتھ چیزیں خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ ہر چیز تو واپس رکھی نہیں جا سکتی۔ پہلے ہی لوگوں کی قوتِ خرید انتہائی کم ہو چکی ہے۔ اس قدر مہنگائی میں گروسری کرتے ہوئے لوگ ویسے ہی محتاط ہو چکے ہیں۔ وہ آٹا‘ چاول‘ چائے کی پتی‘ چینی‘ نمک اور اس جیسی بنیادی اشیا ہی باسکٹ میں ڈالتے ہیں لیکن کیش کائونٹر پر بل دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ساتھ اگر بچے ہوں تو وہ الگ سے فرمائشیں کرتے ہوئے اپنی چیزیں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین کے لیے ایک نئی آزمائش کھڑی ہو جاتی ہے کہ وہ کس چیز کو نکالیں اور کس کو رکھیں۔ حکومت اور کاروباری طبقہ جو کرتا ہے سو کرتا ہے‘ عوام بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ جس کا جہاں اور جتنا بس چلتا ہے وہ ایک دوسرے کوچونا لگا رہا ہے۔ کوئی ایک دوسرے کو ریلیف یا معافی دینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ ایک دوسر ے کی دیکھا دیکھی سب ٹوکے چلانے میں لگے ہیں۔ غریب کے سامنے غریب آ جائے تو وہ اس کی چِھل اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے یہ مجبور ہے اور چیز لیے بغیر اس کا گزارہ نہیں اور ہر قیمت پر خرید کر ہی جائے گا۔ یہاں ہمیں نہ ہمارا دین یاد آتا ہے نہ بڑوں کی سکھائی گئی باتیں۔ سب کے پاس ایک بہانہ ہے کہ اوپر سارے لوٹنے والے بیٹھے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ ریڑھی والا مضر صحت تیل میں اگر سموسے پکوڑے بنا رہا ہے تو اسے علم ہے‘ اس لیے وہ خود نہیں کھائے گا لیکن لوگوں کو کھلا کر پیسے کمانے میں اسے کوئی عار نہیں۔ گندے پانی سے بنے شربت بیچنے سے ہیپاٹائٹس اور جگر کی کی کتنی بیماریاں پھیل رہیں‘ اس سے قطع نظر ایسے ٹھیلے کھلے عام لگے ہیں اور بیچنے والے بیچ رہے ہیں اور پینے والے بھی بے فکر ہو کر پی رہے ہیں۔ جہاں عوام ہی ایک دوسرے کی جیب پر نظر رکھ کر وارداتیں ڈال رہے ہوں‘ چند پیسوں کے لیے لوگوں کی صحتیں اور گھر اجاڑ رہے ہوں وہاں کے حکمرانوں سے کیا گلہ کرنا۔ نہ کوئی گاڑی یا بائیک سڑک پر انسانوں کی طرح چلانے کو تیار ہے‘ نہ سڑکوں اور پبلک مقامات پر کسی کو صفائی کا خیال ہے‘ نہ کوئی ملاوٹ‘ دھوکہ دہی اور دونمبری سے باز آ رہا ہے تو پھر ملک کیسے ٹھیک ہو گا۔ جب عوام خود ہی سدھرنے کو تیار نہیں تو پھر گلہ کیسا؟ جیسے عوام کی اکثریت کا چلن ہوگا‘ ویسے ہی انہیں حکمران ملیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں