پاکستان کی تاریخ میں جو دن زخموں سے چُور چُور ہے وہ ہے سولہ دسمبر کا دن۔ سقوطِ ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول کا سانحہ‘ یہ دونوں ایسے سانحات تھے جن کے اثرات پاکستان کی تاریخ پر بہت گہرے ہیں اور پاکستانی قوم پر یہ صدمات پہاڑ بن کر گرے تھے۔ ان دونوں واقعات میں بھارت کا سیاہ کردار بھی کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔ سانحہ اے پی ایس کو نو سال ہو گئے ہیں لیکن جب بھی اس واقعے کی یاد آتی ہے‘ روح کانپ جاتی ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دشمن اتنا سفاک اور شقی القلب بھی ہو سکتا ہے۔ معصوم بچوں پر ہاتھ اٹھانا دنیا کے ہر مذہب اور ہر قاعدے‘ قانون میں سختی سے ممنوع ہے لیکن یہاں تو خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ چن چن کر ننھے پھولوں کو مسلا گیا۔ یہ دن بھلانے سے بھی بھول نہیں پائے گا۔ جن والدین کے ساتھ یہ روح فرسا سانحہ پیش آیا‘ جن کے بچے اس میں جاں بحق ہوئے‘ ان کے بارے میں سوچ کر آج بھی کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔ حوصلہ‘ ہمت اور صبر کے تمام الفاظ اس سانحے کے سامنے ہیچ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقت بہت بڑا مرہم ہے‘ یہ بڑے بڑے افسوس ناک واقعات کو بھی بھلا دیتا ہے یا ان کی شدت میں کمی لے آتا ہے لیکن 16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس میں جو کچھ ہوا اس کے زخم آج تک بھی مندمل نہیں ہو سکے ہیں اور یہ دن قریب آتے ہی خوف کی ہچکیاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی قیامت سے کم نہ تھا۔ مکتی باہنی کی مدد سے بھارت نے 16 دسمبر 1971ء کے دن پاکستان کو دولخت کر دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کے روپ میں بھارت کو ایک سہولت کار بھی مل گیا تھا۔ کئی قوم پرست عناصر بھارت کے ساتھ مل گئے تھے۔ انہیں بھارت کی جانب سے مالی‘ عسکری اور سفارتی امداد بھی حاصل تھی جس کی مدد سے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھڑی کی گئیں اور پھر ان کے ذریعے ہزاروں‘ لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ سقوطِ ڈھاکہ میں بھارت جس طرح سے ملوث رہا‘ اس گھنائونے کردار کو خود اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے کھلے عام تسلیم کیا تھا۔ بھارتی انٹیلی جنس نے 71ء کی جنگ سے پہلے ہی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ساتھ مکتی باہنی کے نام پر ایک دہشت گرد تنظیم کو تشکیل دیا۔ اُسے بھارتی سرزمین پر پاکستان کے خلاف لڑنے کی تربیت دی گئی اور اسلحہ اور سرمایہ بھی فراہم کیا گیا تاکہ مشرقی پاکستان میں افراتفری پیدا کی جا سکے۔ بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے چیف نے اپنے ذرائع سے پاکستان سے معلومات اکٹھی کیں اور باقاعدہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو خفیہ میٹنگ میں مشرقی و مغربی پاکستان کی اندرونی سیاسی و عسکری صورتِ حال پر ایک بریفنگ دی، اسی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ''را‘‘ چیف ایک ماسٹر پلان تیار کرے گا جس کے تحت مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت کی جائے گی۔ اندرا گاندھی نے باقاعدہ ایک منصوبہ ترتیب دیا کہ کس طرح مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کیا جائے گا۔ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ سے تین سال قبل ہی اس سازش پر عمل درآمد شروع ہو چکا تھا اور یہ سازش آئی ایس آئی کے ایک بنگالی افسر نے بے نقاب بھی کر دی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن بھارت کے سرحدی شہر اگرتلہ‘ جو ڈھاکہ سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہے‘ میں کچھ بھارتی انٹیلی جنس آفیسرز سے ملتا ہوا پایا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ مجیب الرحمن بغیر کسی ویزے کے‘ غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے بھارت گیا تھا جہاں اسے بھارتی انٹیلی جنس اہلکاروں نے ریسو کیا۔ مجیب الرحمن کی گرفتاری پر یہ سازش پوری طرح بے نقاب ہو گئی کہ بھارت میں سرکاری سرپرستی میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے توڑ کر الگ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ''مشن را‘‘ کے مصنف اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کے آفیسر ''کے یادیو‘‘ نے مشرقی پاکستان میں بغاوت برپا کرانے کے فخریہ اعترافات کیے ہیں اور اگرتلہ سازش کی تمام کہانی اس کتاب میں بیان کی گئی ہے۔ خود بنگالیوں نے جو اعترافات کیے‘ وہ بھی اس میں بیان کئے گئے ہیں جیسے 13 سالہ عبداللہ ولد محمد قاسم‘ جو مشرقی پاکستان کے ضلع میڈا ریپور سے تعلق رکھتا تھا‘ اس نے 71ء کی جنگ میں نظریۂ پاکستان کے سبب پاک فوج کا ساتھ دیا۔ اُس موقع پر پاکستان کے حامیوں بالخصوص رضا کاروں کو اُن کے اہلِ خانہ بشمول خواتین کے‘ 20، 25 افراد کی قطاروں میں کھڑا کرکے گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح خورشید عالم ولد خلیل الرحمن‘ جن کا تعلق مشرقی پاکستان کے ضلع برہمن باریا سے تھا‘ اس وقت وہ نویں جماعت میں پڑھتے تھے‘ وہ کہتے ہیں کہ فوج کے ہتھیار ڈالنے اور جنگ بندی کے بعد بنگالیوں کو کس نے قتل کیا؟ یقینا مکتی باہنی نے قتل کیا۔ ان کے بقول: میرے سامنے مکتی باہنیوں‘ بھارتی فوجیوں اور مقامی ہندوؤں نے پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو مارا، مولانا عبدالقیوم خان کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، پھر اُن کے زخمی جسم پر مسالے لگا کر انہیں تڑپایا گیا اور بعد ازاں قتل کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ یہی تشدد دیگر بنگالیوں (خصوصاً بہاریوں) کے ساتھ بھی کیا گیا۔ انہوں نے صاف اور واضح انداز میں بتایا کہ کلکتہ سے مکتی باہنی کی پشت پناہی کی جاتی تھی۔
اے پی ایس کا سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کے ٹھیک 43 سال بعد پیش آیا اور اس میں بھی بھارت کے بالواسطہ اور بلاواسطہ ملوث ہونے کے کئی شواہد سامنے آئے۔ افغانستان کو بھارت نے نائن الیون کے بعد سے‘ اس وقت سے اپنی پناہ گاہ بنا رکھا تھا جب امریکہ اور اتحادی فورسز نے افغانستان کو تختہ مشق بنانا شروع کیا تھا۔ سرحد پار سے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاک افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کیا جاتا۔ بھارت نے پاکستان میں افغانوں کے لیے موجود نرمیوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ''جنت کی حوریں‘‘ دکھا کر خودکش دھماکوں پر مجبور کیا گیا۔ ایسے بہت سے دہشت گرد کیمپ پاک فوج نے بعد ازاں ردالفساد اور دیگر آپریشنز میں تباہ کیے۔ داعش کو پاکستان میں پر پھیلانے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے ایک ایسا محفوظ ٹھکانہ درکار تھا جہاں سے پاکستان پر آئے روز حملہ آور ہوا جا سکے۔ بھارت سے بہتر اسے کوئی بھی ایسی معاونت مہیا نہیں کر سکتا تھا۔ پاکستانی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے ملک بھر میں منصوبہ بندی کے تحت حملے کیے گئے؛ تاہم زیادہ تر حملے فوج کے بروقت ایکشن کے باعث ناکام ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ دہشت گردوں نے بچوں کے سکول کو سافٹ ٹارگٹ کے طور پر چنا۔ خواتین‘ بچوں اور بوڑھوں کو جنگوں میں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے سے گریز کیا جاتا ہے مگر بزدل اور کم ظرف دشمن نے ایک نسبتاً آسان ہدف پر حملہ آور ہونے کی پلاننگ کی۔ اگرچہ وہ وقتی طور پر ایک کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ سانحہ پاکستان کا نائن الیون ثابت ہوا اور پاک فوج اور سیاسی قیادت نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ ضربِ عضب ‘رد الفساد اور آپریشن راہِ راست جیسے یکے بعد دیگرے آپریشنز سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی اور نہ صرف شرپسندوں کو بلکہ انہیں پناہ دینے والوں اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کے خلاف بھی بھرپور اور زبردست کارروائی کی گئی۔ ان کارروائیوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں جوانوں اور افسروں نے جامِ شہادت نوش کیا لیکن بالآخر پاکستانی فوج اپنے وطن عزیز کو دشمن کے ناپاک قدموں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ آج خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے کیونکہ آزادی کی خوشیاں تبھی محسوس کی جا سکتی ہیں جب ملک میں امن و سکون ہو‘ معاشرے کے تمام طبقات سکون و اطمینان سے زندگی گزار رہے ہوں اور اندرونی و بیرونی جارحیت کا زہر ختم کیا جا چکا ہو۔ ہمیں ماضی کی ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے جن کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ ہوا یا پھر سانحہ اے پی ایس پیش آیا۔ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں نے بھی ملک کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ انہی کی وجہ سے یہ جنگ تاخیر سے اختتام کو پہنچی اور نقصان بھی زیادہ ہوا۔ خدا کرے کہ ایسے سانحات دوبارہ کبھی رونما نہ ہوں اور ملک میں امن و سکون یونہی قائم و برقرار رہے۔