اس واقعے کو پندرہ برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن جیسے ہی دسمبر آتا ہے‘ جیسے ہی میں صبح شدید ٹھنڈ میں گرم لحاف ہٹاتا ہوں اور سردی کی لہر جسم کو چیرتی ہے اور میں فوراً لحاف میں دوبار ہ دبک جاتا ہوں تو میرے سامنے یہ واقعہ‘ اس کے کردار اور دسمبر کی یخ بستہ ہواؤں میں اس شخص کی عزم و ہمت کی وہ کہانی آ کھڑی ہوتی ہے جس کو یاد کرکے آج بھی رشک آتا ہے۔
یہ بھی دسمبر کی ایسی ہی ایک سرد شام تھی۔ اس وقت سموگ اور دیگر ماحولیاتی مسائل اتنے پیچیدہ نہ تھے اس لیے موسم سرما کا آغاز اکتوبر سے ہی ہو جاتا تھا اور سردی کی شدت آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی تھی۔ آج کی طرح نہیں کہ دو دن شدید ٹھنڈ پڑتی ہے اور اگلے چار دن موسم مارچ اپریل کی طرح معتدل ہو جاتا ہے۔ یہ شام کا وقت تھا اور حسبِ معمول میں دفتر میں موجود تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ فون کان سے لگایا توکھنک دار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی: ''جنٹل مین! بڑے دن سے غائب ہو۔ آج ضرور چکر لگانا۔ میں انتظار کروں گا‘‘۔ دراصل میں ان کی زندگی کے اس باب سے واقف تو تھا لیکن میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ عمر کے اس حصے میں وہ کیسے شدید سردی اور گرمی میں اپنے مشن کو بروئے کار لاتے ہیں‘ وہ کون سے انعامات ہیں جن کی امید لے کر وہ یہ کارِ خیر انجام دیتے ہیں۔ اس فون کے دو گھنٹے بعد میں اُن کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ ایک نوجوان باہر آیا اور مجھے اندر لے گیا۔ آفس نما اس کمرے میں لکڑی کی ایک خوبصورت میز رکھی تھی جس پر مختلف کاغذات‘ فائلیں اور چند کتابیں ترتیب سے پڑی تھیں۔ میں کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک گرجدار آواز نے سکوت توڑ دیا ''آئو جنٹل مین آئو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ میرے سامنے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے: '' ہاں بھئی۔ کیا کھائو پیو گے‘‘۔ میں نے کہا: ''آپ سے ملاقات ہو گئی اتنا ہی کافی ہے‘‘۔ وہ اٹھ کر کچن میں چلے گئے۔ واپس آئے تو ہاتھ میں چائے کے دو کپ تھے۔ ایک کپ میرے سامنے رکھا اور بولے: ''یہ امتیاز پتہ نہیں کدھر رہ گیا۔ خیر۔ یہ چائے میں نے خود بنائی ہے‘ پیو گے تو یاد کرو گے‘‘۔ پھر انہوں نے سگریٹ کا لمباکش لیا‘ دھوئیں کا ایک بگولا نکلا اور ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ چائے ختم ہوئی تو وہ مجھے لے کر باہر آ گئے۔ گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی ایک میز رکھی تھی۔ میز پر گیس کا چولہا‘ چینی‘ دودھ‘ گھی وغیرہ کے ڈبے پڑے تھے۔ کہنے لگے: ''میں نے تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو ہم یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں۔ ڈھائی سو لوگوں کیلئے کھانا تیار کرنا اور روزانہ صبح سویرے پہنچانا ایک مشکل ایکسرسائز ہے لیکن مجھے یہ کام اب ذرا بھی مشکل نہیں لگتا‘‘۔ پھر وہ مجھے تفصیلات بتانے لگے اور میں حیرت بھری نگاہوں سے کبھی اُن کے تھری پیس سوٹ پر نظر ڈالتا تو کبھی انہیں پراجیکٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے دیکھتا۔ کبھی پورچ میں کھڑی قیمتی گاڑی کو دیکھتا تو کبھی انہیں پتیلے میں چمچ ہلاتے دیکھتا۔ کبھی پوش علاقے اور لبِ نہر واقع عمارت کا جائزہ لیتا تو کبھی انہیں ملازموں کے ساتھ مدد کرواتے ہوئے دیکھتا۔
یہ مرحوم میجر (ر) رشید وڑائچ تھے جو انتہائی دردِ دل رکھنے والے انسان تھے اور شہر کے سنجیدہ طبقات میں زندہ دلی اور فراخدلی کے حوالے سے مانے اور جانے جاتے تھے۔ روزانہ صبح وہ یہ تازہ ناشتہ تیار کرکے چوبرجی چوک اور آس پاس کے علاقوں میں سڑکوں پر سوئے مزدوروں کو پہنچاتے۔ جب تک آخری شخص ناشتہ نہ کر لیتا‘ اس کا پیٹ نہ بھر جاتا وہ وہاں سے واپس نہ لوٹتے۔یقینا سورۃ السجدہ میں اللہ نے ایسے لوگوں کیلئے انعام کا وعدہ کیا ہے جو راتوں کو عبادت کرتے اور دن کو اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ میں یہاں واضح کر دوں وہ بہت امیر یا جاگیردار نہیں تھے بلکہ اصل میں وہ انتہائی فراخ دل‘ مہمان نواز اور دردمند انسان تھے۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں اُن جیسے لاکھوں دولتمند ہوں گے لیکن انہوں نے اپنی دولت پر ایسے سانپ بٹھا رکھے ہیں جو سائل کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ ہم خود کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر سچ سچ بتلائیے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو فاقہ کشوں کے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں‘ جو راتوں کو اٹھ کر ربّ اکبر کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں‘ جو اپنی اہلیہ کے زیورات کسی بیوہ کو دے دیتے ہیں‘ جو زندگی میں اور مرنے کے بعد اپنی جائیداد غریبوں کے نام کر دیتے ہیں‘ جو سائل کو دھتکارتے نہیں‘ جو ملازموں کو بیٹوں سے بڑھ کر پالتے ہیں‘ جو بستر مرگ پر بھی امانتیں لوٹانے کیلئے بے چین رہتے ہیں اور جن کا دروازہ ضرورت مندوں کیلئے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ شاید ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں‘ وہ کسی اور دنیا کے انسان تھے‘ وہ کسی اور مٹی کے بنے تھے اور ہمیں آئینہ دکھلانے کیلئے اس دنیا میں آئے تھے۔ اس ملک کے امراکو چاہیے اس آئینے میں اپنا چہرہ بھی دیکھ لیں اور اگر تھوڑا سا بھی خوف اور احساس ہو تو اپنا قبلہ درست کر لیں۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا ہم سب کا فر ض ہے اور قرآن میں کئی جگہ ایسے احکامات صاف دیکھے جا سکتے ہیں جن میں کھانا کھلانے کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا‘ کسی بیوہ کی مدد کرنا‘ کسی سائل کی جھولی بھرنا‘ کسی طالبعلم کی تعلیمی معاونت کرنا‘ کسی بے گناہ کو قید سے چھڑانا‘ کسی گمشدہ بچے کو ڈھونڈ کر اس کی ماں کا کلیجہ ٹھنڈا کرنا اور کسی خالی پیٹ کو بھرنا‘ ہر صاحبِ استطاعت کی ذمہ داری ہے اور ہمارے تمام اعمال کا جواب ہم نے خود دینا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ اس ملک کے دس بڑے امیروں‘ جاگیر داروں یا حکومت کے دس بڑے عہدیداروں کے سینے میں ایسا ہی درد مند دل لگا دیتا تو اس ملک میں کوئی شخص غربت کے باعث پھانسی کے پھندے کو نہ چومتا‘ کوئی یتیم‘ کوئی مسکین کسی در سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا‘ کوئی بیوہ بیٹی کو بیاہنے کیلئے در بدر ٹھوکریں نہ کھاتی‘ بھوک سے ستایا کوئی بچہ اُبلتی ہوئی دیگ میں نہ گرتا اور کوئی ماں اپنے نونہالوں کو بیچنے کی خاطر سڑکوں پر نہ لے آتی۔ مجھے یاد ہے جس روز ان کا سانحہ ارتحال ہوا تھا تو جنازے میں امرا تو شریک تھے ہی لیکن میں نے بہت بڑی تعداد مزدوروں‘ بیوائوں اور دکھیاروں کی دیکھی تھی جو یوں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے جیسے ان کے سر سے باپ کا سایہ چھن گیا ہو۔جب میں نے اُن کا آخری دیدار کیا تو یوں محسوس ہوا گویا سارے جہاں کا نور اُن کے چہرے میں سمٹ آیا ہو۔ ہم آئے روز مہنگے ہوٹلوں میں ہزاروں روپے کا کھانا کھا جاتے ہیں‘ ہمارے بچے آدھی آدھی رات کو ہزاروں روپے کے پیزے اور برگر آن لائن منگوا کر کھاتے ہیں لیکن غربا کا پیٹ بھرنے کی بات آئے تو ہماری جیبیں اور دل تنگ پڑ جاتے ہیں۔ یقین کریں اگر ہم مہینے میں ایک آدھ مرتبہ دس‘ بارہ ہزار روپے کی دیگ پکوا کر غریبوں کو کھلا دیں تو ہم کنگال نہیں ہو جائیں گے بلکہ کھانا کھلانا بہترین صدقہ ہے جو نہ صرف ہمارے مالوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ ہماری مشکلات اور پریشانیوں کو بھی دور کرتا ہے۔ ہمارے اجر و ثواب کو بڑھاتا ہے اور ہمارے دلوں کو کینہ‘ بغض اور ہمیں تنگ دستی سے پاک کر دیتا ہے۔
نئے سال کے موقع پر ہم نئے نئے پلان اور خواب دیکھتے ہیں۔ آپ نئے سال میں جہاں اور کام کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں‘ وہاں اس لسٹ میں ایک اور بہترین کام بھی شامل کر سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم عہد کر لیں کہ اگلے سال کے آغاز سے ہی ہم مہینے میں کم از کم ایک یا دو مرتبہ غربا و مساکین کو کھانا کھلانے کا باقاعدگی سے اہتمام کریں گے تو نئے سال کیلئے جو ہم اتنی امیدیں اور خواب بُنتے ہیں تو وہ بھی خدا کے فضل و کرم سے ضرور پورے ہو جائیں گے۔