میدان خالی نہ چھوڑیں!

پریشان‘ متذبذب‘ معذرت خواہ‘ گریزاں۔ یہ چار الفاظ عالمی امور اور پالیسیوں پر پاکستان کی نمائندگی کے حوالے سے وزیراعظم کی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیرِ خارجہ بھی ملک میں آنیوالے سیلاب کی تباہی بیان کرتے ہوئے مزید امداد کے خواست گار ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج ایک ایسے ملک کا بن چکا ہے جو مسائل کی آماجگاہ اور اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ہر گفتگو‘ اجلاس اور انٹرویومیں زیادہ تر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی بات کرتے ہوئے پاکستان کیلئے مزید مالی امداد کی درخواست کی جاتی ہے۔ علاقائی تعلقات کے حوالے سے تزویراتی جائزے ہماری خارجہ پالیسی کیلئے اجنبی الفاظ ہیں۔
یہ ایک بہت بڑی کوتاہی‘ سنگین خلا اور مخالفین کیلئے میدانِ جنگ کو خالی چھوڑنے کے مترادف ہے۔ انڈیا ایک طویل عرصے سے اپنی مخصوص اور فعال خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا کے ہر سٹیج پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کوشاں ہے۔ یورپی یونین ڈس انفارمیشن لیب کے چشم کشا انکشافات ذہن کو ماؤف کردینے والے تھے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اس آپریشن کا دورانیہ اور گہرائی حیران کن تھی۔ پتا چلا کہ وہ 15سالوں سے پاکستان کے بارے میں جعلی ڈیٹا شائع کر رہے ہیں جو کہ متروک شدہ ویب سائٹس‘ ہارورڈ کے آنجہانی پروفیسرز وغیرہ اور اسی طرح کی انسانی حقوق کی این جی اوز کا نام استعمال کرکے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرنے والا جعلی بیانیہ تیار کر رہے تھے۔ مودی کی فسطائیت کو بین الاقوامی میڈیا کبھی بھی اتنے پُرزور طریقے سے سامنے نہیں لایا۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے مودی کو بے نقاب کرنے کی جاندار حکمت عملی وضع کی جسے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ اس حکمت عملی سے پی ڈی ایم حکومت نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب خدا نے ایک موقع دیا ہے۔ بی بی سی نے مودی پر ایک دستاویزی فلم ''انڈیا: دی مودی کوئسچن‘‘ ریلیز کی ہے۔ اس فلم میں 2002ء میں گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران مودی کے کردار کا بطور گجرات کے وزیراعلیٰ جائزہ لیا گیا ہے۔ ان فسادات میں 790مسلمانوں سمیت ایک ہزار سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس فلم نے دنیا میں کھلبلی مچا دی ہے۔ بھارتی حکومت اس پر پابندی لگانے کی کوشش میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مودی کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنا ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کی حکمت عملی رہی ہے تو موجودہ حکومت اس پر کچھ کیوں نہیں کر رہی؟ دفتر خارجہ کو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ تزویراتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:
1: یہ دستاویزی فلم کوئی افسانہ نہیں‘ حقیقت ہے: یورپی یونین ڈس انفارمیشن لیب نے سوشل میڈیا کے ذریعے 15سال کے جعلی پروپیگنڈے کا پردہ فاش کیا۔ یہ پروپیگنڈا اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ کسی نے اسے چیلنج نہیں کیا تھا۔ جس لمحے ڈس انفارمیشن لیب نے اس کا پردہ فاش کیا‘ یہ سب بکھر گیا۔ اس نے 2019ء میں شائع ہونے والی ''انڈین کرانیکلز‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ کے ذریعے بھارت کا پورا چہرہ عیاں کر دیا۔ اس نے 750سے زیادہ جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس کا پردہ فاش کیا‘ جس میں 119ممالک اور اس ایجنڈے کیلئے رجسٹرڈ 550سے زیادہ ڈومین نام شامل تھے۔ سینیٹرز‘ این جی اوز وغیرہ کی طرف سے دیے گئے بیانات کا الجھا کر ایک پُرفریب ماڈل تشکیل دیا گیا تھا لیکن بی بی سی کی موجودہ فلم ''انڈیا: دی مودی کوئسچن‘‘ کوئی فرضی دستاویزی فلم نہیں ہے جو کہ خیالی واقعات اور بیانات پر مبنی ہو۔ گجرات کا قتل عام ایک حقیقت ہے۔ دستاویزی فلم میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے ''برطانوی وزارتِ خارجہ کی سابقہ درجہ بند رپورٹ‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مودی نے سینئر پولیس افسران سے ملاقات کی اور انہیں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ اعلیٰ ترین سطح پر تصدیق شدہ مستند ذرائع ہیں۔ اس دستاویزی فلم کو انڈیا کی بالادستی اور انتہا پسندانہ عزائم کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مؤقف کی حمایت کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت وہی انتہا پسند قیادت بھارت کی وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہے۔ یہ پاکستان کے مؤ قف کا اتنا توانا ثبوت ہے کہ اسے ضائع کرنے کا مطلب عشروں پر محیط ان کوششوں پر پانی پھیرنا ہے جو انڈیا کے جدید امیج کو بے نقاب کر سکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس موضوع پر تمام متعلقہ وزرا کو جمع کرکے بلاتاخیر کوششوں کا آغاز کیا جائے۔
2: پاکستانی حمایت یافتہ پروپیگنڈا کی کمی: دسمبر میں بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کی کانفرنس میں بہت توانا لہجے میں کہا تھا کہ ''اسامہ بن لادن تو مر چکا لیکن گجرات کا قصاب نہ صرف زندہ ہے بلکہ انڈیا کا وزیراعظم بھی بن چکا ہے۔ ان پر وزیراعظم بننے تک اس ملک میں داخلے پر پابندی تھی۔ وہ آر ایس ایس کے وزیراعظم اور آر ایس ایس کے وزیر خارجہ ہیں۔ یہ آر ایس ایس کیا ہے؟ آر ایس ایس ہٹلر کی ایس ایس سے فکری تحریک لیتی ہے‘‘۔ اس پر انڈیا کی طرف سے سخت ردِعمل آیا لیکن بلاول کے اس بیان نے‘ کہ انڈیا ان کے سرکی قیمت کیوں مقرر کررہا ہے جبکہ انہوں نے تو صرف ایک طے شدہ حقیقت بیان کی ہے‘ ان کے جاندار دکھائی دینے والے بیان کو دفاعی قدموں پر لاکھڑا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ دستاویزی فلم ''دی مودی کوئسچن‘‘ بی بی سی کی تیار کردہ اور ایک کلاسیفائیڈ رپورٹ پر مبنی ہے‘ یہ ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے: ''2002ء میں گجرات میں ہونے والا تشدد جبکہ وہاں پر مودی کی حکومت تھی‘ سیاسی محرکات رکھتا تھا اور اس کا مقصد ہندو علاقوں سے مسلمانوں کا صفایا کرنا تھا‘‘۔ اس فلم کے آخرمیں کہا گیا ہے کہ ''ریاستی حکومت کی چشم پوشی کے بغیر فسادات کا ہونا ناممکن تھا اور یہ کہ نریندر مودی ہی ان کے براہِ راست ذمہ دار ہیں‘‘۔ یہ خوفناک حقائق ہیں۔ یہ بلاول کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے بھارتی حکومت پر کاری ضرب لگاتے لیکن عجیب بات ہے کہ اس طرف سے ایسا کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
3: تزویراتی ابلاغ کا منصوبہ: 2021ء کے دوران دفتر خارجہ میں طویل عرصے سے زیر التوا خلا کو پر کیا گیا جب تحریک انصاف حکومت نے اعلان کیا کہ دفتر خارجہ کے پاس اسٹریٹجک کمیونیکیشن ڈویژن ہوگا۔ یہ ڈویژن ہارڈ پاور سے سافٹ پاور کی طرف منتقلی کے خطوط پر استوار ہونا تھا۔ اپنے بین الاقوامی بیانیے کو عوامی سفارت کاری کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے کیلئے نئے ٹولز استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے نرم تصور کو پھیلانے اور پیغام رسانی کے ذریعے بھارتی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نیا ڈھانچہ بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اس سہولت کو استعمال کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ رپورٹ کے اہم نتائج کو اجاگر کرنے کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کیلئے دفتر خارجہ کیساتھ اس خطے میں تجربہ کار سابق غیرملکی سفیروں پر مشتمل ایک سٹریٹجک کمیٹی ہونی چاہیے۔ ان نکات کو میڈیا پر چھیڑنا چاہیے۔ اس موضوع کی گونج پیدا کرنے کیلئے اندرونی اور بین الاقوامی رائے ساز مضامین لکھیں۔ سفارت خانوں کو یہ ٹاسک دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ٹارگٹ کمیونیکیشن چینلز کوتیار کریں تاکہ دستاویزی پیغام کی اصل روح کو پھیلایا جا سکے۔ اس موضوع پر سیمینار منعقد کرنے کیلئے تھنک ٹینکس کواستعمال کیا جائے جو دستاویزی فلم کے ٹکڑوں کو دکھاتے ہیں اور اہم شعبوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ابھی تک اس ذیل میں کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس پر ابھی تک کوئی کام کیوں نہیں ہو رہا ہے‘ یہ تشویشناک ہے کیونکہ اس بار کسی دوسرے ملک کے میڈیا کے ذریعے انڈیا کو بے نقاب کرنے کا نادر موقع ملا ہے۔
4: مسئلہ کشمیرکو مزید اجاگر کیا جائے: اس برطانوی دستاویزی فلم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر کو مزید اجاگر کر سکتی ہے۔ مودی جس طرح اس دستاویزی فلم پر پابندی لگانے اور اسے میڈیا سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ کشمیر میں میڈیا کو بند کرنے کی یاد دلاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بی بی سی جیسے معروف مغربی میڈیا ہاؤس کے ساتھ ایسا کر رہا ہے۔ اس سے ترقی یافتہ دنیا کے لاتعلق حلقے کشمیر کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔ آزادیٔ صحافت کے بین الاقوامی ادارے ان پابندیوں کی مذمت کر رہے ہیں جس نے کشمیر میں مظالم کیساتھ دستاویزی فلم کو بند کر دیا ہے۔ اس موقع پر ایسی تنظیموں تک رسائی کی ضرورت ہے تاکہ کشمیر پر لگائی گئی پابندیوں کو مودی کے خوفناک آزادیٔ صحافت اور معلومات کے ریکارڈ کے ساتھ جوڑا جا سکے۔
یہ بہت عجیب دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی حکومت اس پر خاموش ہے۔ تعجب ہے اسے مقامی سطح پر بھی نہیں اچھالا گیا۔ گریز اور تذبذب کی فضا گہری دکھائی دیتی ہے۔ وزیر خارجہ نے پہلے مودی کو گجرات کا قصائی قرار دیا لیکن بعد میں کہہ دیا کہ یہ صرف ان کے الفاظ نہیں بلکہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے۔ جب آپ وضاحتیں دینا شروع کر دیتے ہیں تو آپ کے پیغام کا اثر تحلیل ہو جاتا ہے۔ اس کی کیا ضرورت تھی؟ وزیر خارجہ کے بیان کے ثبوت کے طور پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کا حوالہ دیا جائے۔ اس سے گریز ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس سے بھارت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس سے کشمیریوں کو مایوسی ہوگی۔ اس سے ہم غیریقینی کی کیفیت سے دوچار نظر آئیں گے۔ خارجہ پالیسی پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت کیلئے اتنی اہم ہے کہ اسے نوآموز افراد کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ دفتر خارجہ کے سابق افسران اور تجزیہ کاروں کیلئے وقت آگیا ہے کہ وہ آواز اٹھائیں اور بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کی عالمی مسابقت کا میدان خالی نہ چھوڑیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں