فروغ نوید کے پاس اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نام ہی میں بہت کچھ رکھا ہے۔ موصوف سابق ایڈیشنل سیکرٹری ہیں اور میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں میں اہم عہدوں پرفائز رہے ہیں۔ان سے اگر پوچھیں کہ نام میں کیسے بہت کچھ رکھا ہے تو ناموں کی اہمیت‘ خاص طور پر دُنیا سے رخصت ہو جانے والوں کے ناموں کی اہمیت کے بارے میں ان کے پاس ایک داستان موجود ہے ۔اس کی ایک مثال ’’ایمر سن‘‘ ہے لیکن اس طرف ذرا بعد میں آئیں گے۔ آج کل ہندوستان میں دشنام طرازیوں کا بازار گرم ہے جس کا ہدف ہمارے وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں۔دہلی سے ہماری ایک رشتہ دار نے بتایا کہ انہیں وہاں کا میڈیا قاتل اور جلاد کہہ رہا ہے۔ بیچارے وزیر اعظم کو اپنے ملک میں راجہ رینٹل اور اب سرحد پار سے اتنا سخت خطاب مل گیا۔ دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر باقاعدہ حاضری دینے والی ہماری رشتہ دار نگار نے بتایا کہ ہندوستانی اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا الزام راجہ صاحب کے سر دھر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں اس شدید ردعمل کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بر صغیر کے لوگ کرپٹ لیڈروں کے نام رکھنے میں ماہر ہیں جو عوام میں مقبول ہو کر پھر ان کے ساتھ چپک کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں آج کل بھٹو کے نام کا پھر چرچا کیا جا رہا ہے۔ ان کے خود ساختہ ورثا ’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ کے نام پر پانچ سالہ بدنظمی کا دور مکمل کرچکے ہیں۔ ہر شے اس نام سے بپتسمائی جا رہی ہے۔ سینٹ میں پی پی پی کے اراکین نے وہ بل منظور کروا لیا ہے جس میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال کو شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ زرداری حکومت کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا کے کیم جونگ کے نام کی طرح بھٹو کے نام سے بھی ایک سلسلہ شروع ہو جائے۔ تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس قسم کی کوتاہ بینی پر مبنی حرکتیں نئی حکومتیں بننے کے بعد بھٹو کے نام کو خاک میں ملادیں گی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ کس طرح بے نظیر بھٹو کو خو ش کرنے کے لئے سلمان فاروقی نے اسلام آباد کے عوامی مرکز پر بھٹو ہاؤس لکھوایا تھا لیکن بی بی کی اقتدار سے برطرفی کے فوراً بعد ان کا نام بڑا بے آبرو ہو کراس کوچے سے نکلا۔ جناح ایونیو سے ڈرائیو کرتے ہوئے ہم آغا شاہی روڈ پہنچے تو وہاںٹریفک کے ہجوم کے باعث طویل انتظار کرنا پڑا۔ یہ سڑک سابق خارجہ سیکرٹری کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نفیس صادق بھی گاڑی میں ہمارے ہمراہ تھیں۔ڈاکٹر صاحبہ اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو اقوامِ متحدہ میں عورتوں کے کیرئیر کی ترقی کی راہ میں حائل دشواریوں کو کامیابی سے دُور کر کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچیں۔ انہوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ایک سڑک ان کے والد مرحوم سابق وزیر خزانہ محمد شعیب کے نام سے بھی منسوب کی جائے گی۔ لیکن ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی لیڈر اپنی مرضی سے چیزوں کے نام رکھنے اور بدلنے کے شوقین ہیں۔ سابق صدر ایوب خان دارالخلافہ کراچی سے راولپنڈی کے نواح میں اُٹھا لائے۔ اربوں خرچ کر انہوں نے نئے دارالحکومت کا نام ’’اسلام آباد‘‘ رکھا۔ کہتے ہیں وہ پنڈی میں جی ایچ کیو اور ایبٹ آباد کے نزدیک اپنے گاؤںریحانہ سے قریب رہنا چاہتے تھے۔ اسی طرح لائل پور کا نام بدل کر فیصل آباد رکھ دیا گیا کیونکہ ہمارے اس وقت کے حکمران اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کو خوش کرنا چاہتے تھے۔لاہور کرکٹ سٹیڈیم قذافی سٹیڈیم کہلایا جانے لگا کیونکہ اس نام کے لیبیائی لیڈر معمر قذافی نے ذوالفقار علی بھٹو کو خوش کیا تھا۔ قذافی لیبیائی عوام کے ہاتھوں بھیانک انجام کو پہنچ چکے ہیں لیکن ہمارا کرکٹ سٹیڈیم اب بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔لائل پور کا نام پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز لائل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ان کے بھائی کے لکڑ پوتے مارک لائل گرانٹ مشرف دور میں پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کے طور پر تعینات تھے۔بے نظیر اور مشرف کے درمیان طے پانے والے بد نام زمانہ این آر اوکے سلسلے میں مرکزی ثالث کا کردار انہوں نے ہی ادا کیا تھا۔اس پر کسی نے مزاحاً یہ تبصرہ بھی کیا تھا کہ اپنی خدمات کے صلے میں وہ جنرل مشرف سے درخواست کر سکتے ہیں کہ فیصل آباد کانام دوبارہ لائل پور رکھ دیا جائے۔ کچھ عرصہ پہلے کنیئرڈ کالج کی صد سالہ تقریبات منعقد ہوئیں جن میں یہ بھی بتایا گیا کہ کون کون لوگ نسل درنسل اس ادارے سے تعلیم پاتے رہے۔ لاہور کی جیل رو ڈ پر گزشتہ سو برسوں سے واقع یہ کالج لیڈی میری کنیئرڈ کے نام سے موسوم ہے۔ ان کی دو لکڑ پوتیاںکیرولین اور میری ان تقریبات میںخصوصی مہمانوں کے طور پر شریک ہونے کے لئے برطانیہ سے آئی تھیں۔ لیڈی کنیئرڈ کا نام تو ایک صدی سے برقرار ہے لیکن اس سلسلے میںسر ہربرٹ ولیم ایمرسن کی قسمت ان جیسی اچھی نہیں۔سر ایمرسن پنجاب کے گورنر تھے اور انہی کی کوششوں سے ملتان میں لڑکوں کے لئے سب سے بڑا کالج قائم ہوا تھا۔قیام کے تیرہ سال بعد اس کالج کو ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ساٹھ کے عشرے میں اس کالج کا نام بدل دیا گیا اور اس کا نام گورنمنٹ کالج بوسن روڈ رکھ دیا گیا۔ فروغ نوید صاحب جن کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا وہ اُس زمانے میں اس کالج سے فارغ التحصیل ہوئے جب اس کانام ایمرسن کالج ہی تھا۔ انہوں نے اس کالج میں چار سال تعلیم حاصل کی اور پھر یہاں لیکچرر کے طور پر بھی لوٹ آئے۔ انہیں اپنے زمانے میں اس کالج میں رونق افروز ہونے والی دو شخصیات ابھی تک یاد ہیں۔ ایک مشہور مؤرخ آرنلڈ ٹوئن بی اور دوسرے جسٹس ایم آر کیانی۔ فروغ نوید کہتے ہیں کہ جب کالج کے نام سے ایمرسن ہٹایا گیا تھا تو وہ بے حد اداس ہو گئے تھے۔ انہیں ایسا لگا جیسے ان سے ان کی شناخت چھین لی گئی ہو۔سو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی مادرِ علمی کو اس کا اصلی نام واپس دلوا کر رہیں گے اور پھر اپنی یہ بات انہوں نے نبھاکر دکھائی۔اپنے کالج کے نام کی بحالی کا موقع انہیں تب میسر آیا جب وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے انہیںحکومتِ پنجاب میں ایک اہم ٹاسک فورس کی سربراہی سونپی۔وہ کہتے ہیں کہ وزارتِ تعلیم میں متعلقہ افراد کے ساتھ اس کالج کے نام کی بحالی کے حوالے سے انہوں نے سرگرمی کے ساتھ لابنگ کی اور پھر بالآخر ایک صبح ملتان کے ایک پرانے باسی نے انہیں فون کر کے بتایا کہ کالج کے نام کی تختی پر ایمرسن کا لفظ پھر سے لکھ دیا گیا ہے بلکہ بوسن روڈ بھی اب ایمرسن کالج روڈ بنا دی گئی ہے۔ فروغ نوید اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن گزشتہ دسمبر میں وہ ایمرسن کالج کے نام کی بحالی کی تقریبِ افتتاح کے لئے ملتان گئے۔ ان کے مزاج میں انکساری پائی جاتی ہے اور وہ اپنا ذاتی پرچار نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ ’’میں ایک عاجز بندہ ہوں‘‘۔ تاہم ان کے بارے میں ہم یہ ضرور بتانا چاہیں گے نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو ان کی حکومت میںاقتصادی اور مالیاتی امور کے ماہر کے طور پر فروغ نوید صاحب نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ کی تعمیر میں ملکی خزانے کے 1.3بلین روپے بچائے تھے۔ وہ شریف برادران کے زبردست حامی ہیں اور شریف برادران بھی ان پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔نواز شریف کی حکومت کے خاتمے سے ذرا قبل ہی فروغ نوید اس وقت کے پانی و بجلی کے سیکرٹری اور واپڈا کے چیئرمین کے ہمراہ بھارت گئے تھے تاکہ جوایک ہزار میگا واٹ اضافی بجلی پاکستان پیدا کر رہا تھااسے وہاں فروخت کیا جاسکے۔فروغ نوید افسوس کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ’’اب صورتحال بدل چکی ہے۔ آج ہم بھارت کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں کہ وہ اپنی اضافی بجلی ہمیں دے دے‘‘!!!