آکٹوپس

ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے بریکنگ نیوز یہ ہے کہ معروف خاتون صحافی باربرا والٹرز ریٹائر ہونے والی ہیں۔اس وقت ان کی عمر تریاسی سال ہے۔ وہ انیس سو باسٹھ میں جیکولین کینیڈی کے دورے کی کوریج کرنے والی ٹیم کے ساتھ پاکستان بھی آئی تھیں۔نصف صدی سے زائد عرصے تک باربرا والٹرز دنیا بھر کے صدور، وزرائے اعظم، فوجی قائدین اور ممتاز سیاستدانوں کے انٹرویو زلیتی رہی ہیں۔وہ اپنے سکوپس کے لیے شہرت رکھتی ہیں اور جب کبھی بھی کوئی سکینڈل سامنے آیا تو اپنے ناظرین کو انہوں نے اس کے بارے میں ہمیشہ بڑی تفصیل کے ساتھ باخبر رکھا۔بل کلنٹن کے ساتھ مونیکا لیونسکی کے تعلقات کے چرچے کی بدولت جب وائٹ ہائوس کے درو دیوار لرز اٹھے تھے تو اس وقت بھی مس لیونسکی کو پہلی بار ہم نے باربرا والٹرز کے شو میں ہی دیکھا تھا۔ ایک بریکنگ نیوز پاکستان سے بھی ہم نے سنی اور وہ یہ کہ گیارہ مئی کے انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک اسی سالہ نے دوسرے اسی سالہ کو چن لیا ہے۔ان دونوں اسی سالہ بزرگوں کے درمیان عمر کے علاوہ ایک اور چیز بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں ہی ریٹائرڈ جج ہیں۔فخرالدین جی ابراہیم نے تو عزم کر رکھا ہے کہ وہ اس بار پارلیمان کو ان گندے انڈوں سے صاف کر دیں گے جن کی بدولت یہ ملک ہر قسم کی دھوکہ دہی کا گڑھ بن چکا ہے۔میرہزار خان کھوسو بھی بڑے جوش و خروش سے وہ ذمہ داری نبھانے کی کوششوں میں ہیں جن کے لیے انہیں چنا گیا ہے۔ شاہین صہبائی اور دو سابق وزراء یعنی بابر اعوان اور شیخ رشید ٹی وی کے اینکر صاحبان کے ساتھ مل کر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک ملک ،جو دوراہے پر کھڑا ہے، اسے بچانے کے لیے اسی سالہ بزرگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ٹر مینیٹر اور ریمبو جیسے لازوال کردار ادا کرنے والے ہالی ووڈ اداکاروں یعنی آرنلڈ شوارزنیگر اور سلویسٹر سٹیلون کو بھی حال ہی میں اپنے زندگی کے بد ترین لمحات کا سامنا کرنا پڑاہے۔ فلم بینوں نے ان کی تازہ ترین فلم ’دی لاسٹ سٹینڈ ‘قطعی مسترد کر کے ان کے شخصیاتی طلسم میں کمی پر مہر ثبت کر دی ہے، حالانکہ یہ دونوں اپنی عمر کے صرف چھٹے عشر ے میں ہیں۔ تاہم اگر ہمارے یہ اسی سالہ بزرگان ایک مہینے کے اندر اندر بے کار ریاستی مشینری کے کل پرزے یکجا کر کے اور ان میں نئی توانائی بھر کر انہیں پھر سے کام پر لگا سکتے ہیں تو پاکستانیوں کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہو گی کہ پاکستان ہے ہی بزرگوں کے لیے!!صہبائی صاحب اس ضمن میں بے یقینی کا اظہار کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ کراچی میں جو بک فیئر ہوئی تھی اس میں نجم سیٹھی کی تقریر کے بعد فخرا لدین جی ابراہیم نے کھڑے ہو کر ان سے یہ سوال کیا تھا کہ آیا انتخابات وقت پر ہو پائیں گے؟سیٹھی صاحب بھی حیران تھے کہ یہ سوال ان سے چیف الیکشن کمشنر صاحب کر رہے ہیں۔صہبائی صاحب نے ایک اور انکشاف یہ بھی کیا کہ نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی صاحب اپنی اہلیہ کے ہمرا’’تین بار‘‘نواز شریف صاحب کے پاس گئے تھے تاکہ انہیں انتخابات کے لیے ن لیگ کا ٹکٹ دے دیا جائے۔اب جب سازشی نظریات کا ذکر ہو ہی رہا ہے تو ہم اس ضمن میں کچھ تذکر ہ آکٹوپس جیسی ’’ہشت پا‘‘ ہستیوں کا بھی کرنا چاہیں گے۔انسان اور خاص طورپر ایوان ہائے اقتدار میں براجمان انسان اس مخلوق سے خصوصی مماثلت رکھتے ہیں۔آکٹوپس ہر قسم کے اندرونی و بیرونی ڈھانچے سے عاری ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جو انسان اپنے لیے شہرت اور اہمیت کے حصول کے بھوکے ہوتے ہیں ان میں بھی بنیادی اصولوں کی طاقت نہیں ہوتی۔جو بھی سپریم کمانڈر ہو اس کے آگے وہ جھک جاتے ہیں اور جب اس کی اقتدار سے بے دخلی ہوتی ہے تو اس پر پہلا پتھر بھی ہمارے یہ آکٹوپس خود ہی دے مارتے ہیں۔ آکٹوپس کے بارے میں یہ سبھی جانتے ہیں کہ جب کسی خطرے کا سامنا ہو تو انتہائی تنگ جگہوں سے بھی یہ مخلوق سکٹر کر نکل جاتی ہے۔یہ خاصیت ہمارے لیے کتنی مانوس ہے نا؟ہمارے آکٹوپس بھی خود کو عین وقت پر اسی طرح بچا لیتے ہیں۔ ویکی پیڈیا کے مطابق شکاریوں سے خود کو بچانے کے لیے آکٹوپس کئی قسم کے طریقے اپناتے ہیں جن میں بھیس، ہیئت ،رنگ وغیرہ بدلنا بھی شامل ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مدمقابل کو خوفزدہ کر دیا جائے۔ہمارے آکٹوپس جب مشکل کا شکار ہوتے ہیں تواپنے دفاع کے لیے مذہب، پارسائی، اخلاقیات اور دیانت جیسے بھیسوں کاسہارا لینے لگتے ہیں۔جو بھی انہیں للکارے تو انہیں خاموش کرانے کے لیے یہ دھونس اور دھمکی کا استعمال کرتے ہیں۔ویکی پیڈیا کہتی ہے کہ غیر فقری یعنی بے مہرہ مخلوقات میں سے آکٹوپس سب سے زیادہ ذہین ہے اور رویّے کے لحاظ سے بھی اس میں نہایت لچک پائی جاتی ہے۔ہم سبھی یہ جانتے ہیں کہ انسانوں میں جو آکٹوپس ہیں ان کی کامیابی(دائمی دولت اورطاقت) کا راز یہی ہے کہ یہ لوگ چالاکی کی انتہا تک ذہین ہوتے ہیں اور ان کی رویّے میں لچک بھی شرمناک حد تک موجود ہوتی ہے۔یہ لوگ اپنے ناقدین کو اپنی معصومیت کا قائل کرنے کے لیے اپنے ہاتھ تک کاٹ سکتے ہیں۔ آکٹوپس زہریلے ہوتے ہیں۔ انسان بھی زہریلے ہو سکتے ہیں۔اپنی غلطی تسلیم کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگر ان کی زبان ہوتی تو ہماری طرح آکٹوپس بھی اپنی غلطی کا الزام دوسروں کے سر ڈالتے۔خود سوچیے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنی غلطی کا اعتراف کر سکتے ہیں؟ہمارے علم میں تو ہمارے سمیت کوئی بھی ایسا نہیںجوہمیشہ سچ کا دامن تھامے رکھنے کو ترجیح دے گا۔جب ہماری چکن بریانی خراب ہوتی ہے تو ہم الزام چاولوں کی کوالٹی کو دے دیتے ہیں۔یہ اعتراف ہم سے نہیں ہوتا کہ ہمیں اچھا کھانا بنانا نہیں آتا اور نہ ہمیں یہ علم ہے کہ کب آنچ بند کر کے چاولوں کو خراب ہونے سے بچایا جا سکتاہے۔اس کی بجائے ہم الزام چاولوں پر دھر دیتے ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں