آکٹو پس

حال ہی میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق نے سرکولر ڈیٹ کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں انہوں نے اُس حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جس کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں وہ نوکری کرتے رہے ہیں۔کیا وہ اپنے آئندہ آنے والے باس کو یہ باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ وہ خود تو بڑے اچھے ہیں لیکن سارا قصور اس وقت کی حکومت کا تھا؟لوڈ شیڈنگ یکم جنوری 2008ء میںمشرف و شوکت عزیز کی حکومت کے دوران شروع ہوئی تھی اور ابھی تک جاری ہے۔ جناب ندیم الحق،یوسف رضا گیلانی اور راجہ صاحب کے دورِ حکومت میں کیوں کچھ نہیں بولے؟ انہوں نے چپ کیوں سادھ رکھی تھی؟اخباری رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹر ندیم الحق پانی و بجلی کی وزارت کو قصور وار سمجھتے ہیں کیونکہ اس شعبے میں پالیسی سازی کی ذمہ داری اسی وزارت کی ہے لیکن اپنے لیے کوئی راستہ اس نے ابھی تک متعین نہیں کیا اور پاور سیکٹر کی اصلاحات کے بارے میں وزارت کا رویہ پرو ایکٹو ہونے کے بجائے ری ایکٹو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس نظام میں بہتری کے لیے سیاسی عزم بھی مفقود ہے۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر ندیم الحق کی رپورٹ یو ایس ایڈ کے زیرِ اہتمام آزادانہ تجزیات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔اس رپورٹ کے مطالعے کے دوران ہمیں محسوس ہوا کہ جیسے ہم سب یہی کچھ پہلے بھی سن چکے ہیں۔ چند سال پیشتر ہم نے اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے کے ایک اہم رکن کا انٹرویو لیا تھا۔وہ اقتصادی اور ترقیاتی شعبے میں پاکستان کی امداد کے لئے کافی جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے ۔ توانائی کے شعبے میںپاکستان کو درپیش مسائل کے پس منظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بھی کچھ ایسی ہی باتیں کی تھیں۔یہ ہستی ، جو ابھی تک اسلام آباد ہی میں تعینات ہے،متعلقہ شعبے میں پاکستان کی امداد کے وعدے کے ساتھ ساتھ بڑی بے باکی سے یہ بات کہی تھی کہ زرداری حکومت اس حوالے سے کچھ کرنے کے لئے سیاسی عزم اور فعالیت قطعاً نہیں رکھتی ۔ جب پی پی پی کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو ڈاکٹر ندیم الحق کو امریکہ سے بلوا کر پلاننگ کمیشن کی سربراہی سونپی گئی تھی۔اب اگر وہ حکومت پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ حکومتی رویہ آمرانہ تھا تو یہ بالکل ایسا ہے کہ سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر کو پیٹا جائے۔کچھ اسی قسم کے جذبات کا اظہار پلاننگ کمیشن کے ایک اور سابق سربراہ آصف احمد علی نے بھی چند ہفتے قبل اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا تھا۔انہوں نے پی پی پی اس وقت چھوڑ دی تھی جب انہیں کابینہ سے نکالا گیا تھا۔اس کے بعد وہ عمران خان کی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے لیکن ٹکٹوں کے مسئلے پر شاید اب انہیں بھی چھوڑ جائیں۔گزشتہ برس نیب کے چیئرمین فصیح بخاری صاحب کو شکایت تھی کی سپریم کورٹ ان کے کام میں روڑے اٹکا رہی ہے اور اس ضمن میں انہوں نے صدر زرداری کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ان پر توہینِ عدالت کا الزام بھی لگا لیکن فی الحال جج صاحبان کے عتاب سے محفوظ رہنے میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ تاہم اب جبکہ بطورِ صدر مملکت زرداری صاحب کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے تو فصیح بخاری بھی نئے راگ الاپنے لگے ہیں۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئر مین کے طور پر توقیر صادق کی تقرری کے معاملے میںبھی وہ الزام گیلانی صاحب اور پرویز اشرف پر دھرتے ہیں حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک ان دونوں کی حیثیت ان کی نظر میں مقدس گائے جیسی تھی۔ پی پی پی کی حکومت کا چھاتہ سر سے ہٹتے ہی نیب میں کچھ ہمت آ گئی ہے۔ اب یہ ادارہ کوئی آکٹو پس نہیں بلکہ ایک واچ ڈاگ بن چکا ہے۔اکیس سو نادہندگان کے خلاف پہلے کارروائی کرنے میں اسے تامل تھا لیکن اب یہ ادارہ ان کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہو چکا ہے۔اس سے قبل جب نیب والے حکمران جماعت کی کرپشن اور تقرریوں کے معاملے میں قواعد سے صرف نظر پر پردے ڈال رہی تھی تو عدلیہ اور پریس کی جانب سے ایڈمرل فصیح بخاری کی جانبداری پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے ؛تاہم اب ان کی کایا کلی طور پر پلٹ چکی ہے اور وہ الیکشن کمیشن سے مکمل تعاون کے لئے ہامی بھر چکے ہیں۔ایک انگریزی روزنامے کو اپنے انٹرویو میں انہوں یہ تک کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے وہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور کاروباری لوگوں کی ملی بھگت کر رکھ دیں گے۔فصیح بخاری اب بھی نیب کو ایک معتبر ادارہ بنا سکتے ہیں اورہو سکتا ہے کہ اس طرح وہ پاکستانیوں بلکہ اگلے وزیر اعظم کابھی دل جیت لیں! کالم نگاروں، ٹی وی مبصرین اورلکھاریوں کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ پورا سچ عموماًپیش نہیں کرتے ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ خود کو بڑا شفاف ظاہر کریں لیکن عموماً ہم پورا سچ نہیں بولتے، اپنے بار ے میں بھی اور ان کے بارے میں بھی جو ہماری تحریروں اورگفتگو کا موضوع ہوتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک کالم ہم پڑھ رہے تھے جس میں انہوں نے جنرل مشرف کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا ، اس پر ہمیں کافی حیرت ہوئی۔’’بابائے بم‘‘نے اس کالم میں ایس ایم ظفر صاحب کی کافی تعریف کی اور انہیں اپنا نجات دہندہ تک قرار دیا ۔جنرل مشرف کے بارے میں انہوں نے جو لکھا ہے وہ یا تو انہوں نے ہوسکتا ہے ایس ایم ظفر صاحب کی کتاب سے لیا ہو یا پھر براہِ راست خود ہی سنا ہو ۔ کہتے ہیں کہ ستمبر 2007ء میں ایس ایم ظفر صاحب کو جنرل مشرف سے ملاقات کے لئے بلوایا گیا۔جب وہ گئے تو جنرل صاحب منہ میں سگار لئے ایک صوفے پر دراز تھے۔اپنے مہمان کے خیر مقدم کے لئے وہ نہیں اٹھے بلکہ وہاں پڑی ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ظفر صاحب، آپ کو اعتراض تو نہیں ہو گا اگر میں سگار پیتا رہوں ؟ ڈاکٹر قدیر صاحب پوچھتے ہیں کہ آخر یہ کس قسم کی تمیز تھی؟ ہمار ے خیال میں ڈاکٹر صاحب کو اپنی تحریر میں توازن لانے کے لئے اپنے قارئین کو یہ بھی بتا دینا چاہئے تھا کہ ق لیگ کے سینیٹر کے طور پر ایس ایم ظفر جنرل مشرف کے ایک حلیف تھے اوردوسرے سیاستدانوں کی طرح ایس ایم ظفر صاحب بھی اپنی لاہور کی رہائش گاہ میں جنرل صاحب کی مہمان نوازی کر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں