سیاست اور سچ

اگر چور کو پکڑنے کے لیے کسی چور کی ضرورت ہو تو رحمان ملک سب سے پہلے میدان میں دکھائی دیں گے۔ برقی لہروں پر سوار، اپنے مخصوص تراشے ہوئے بال سلجھاتے، سلور رنگ کی ریشمی اچکن پہن کر چلاتے ہوئے لپکیں گے۔۔۔’’چور، چور ‘‘۔ آج کل وہ گمنام لوگوںکے لکھے ہوئے حلف نامے ، جن کے مطابق اُنھوںنے انگلینڈ کے بنکوں میں منی لانڈرنگ کرنے میں شریف فیملی کی مدد کی، لہراتے پھر رہے ہیں۔ اپنے اور صدر آصف علی زرداری کے خلاف لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کا تدارک کرتے ہوئے وہ شریف برادران کو بھی اسی دلدل میں گھسیٹ لینا چاہتے ہیں تاکہ عمران خان کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ ملک صاحب بھر پور قہقہہ لگاتے ہوئے ، یا دبی ہنسی (جو بھی موقع کی مناسبت سے بہتر لگے)ہنستے ہوئے، کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ ایک ایسے آدمی کی طرح ہیں جو غلط وقت پر غلط کام کررہا ہو ۔ میاں صاحب کے خلاف دستوںکے دستے کاغذات سیاہ کر دیے گئے ہیں، اور یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ نصیر اﷲ بابر نے جو محترمہ کی دوسری مدت کے دوران وزیرِ داخلہ تھے، مجھے یہی دستاویزات اُس وقت دکھائی تھیں جب اُن کی حکومت ختم ہوئی ۔ میںنے ان کے متن کو ’’Friday Times‘‘ میں شائع کیا تھا۔ لیکن اس سے کوئی پتہ تک نہ ہلا۔ معاشرے کے کسی حلقے کی جانب سے کوئی سرگوشی تک سنائی نہ دی۔ نہ ہی ہماری عدلیہ، نہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی نیب کو ان ’’کہانیوں ‘‘ میں کوئی دلچسپی ہے کیونکہ سب کے کسی نہ کسی سطح پر ذاتی مفادات ہیں۔ اب ایک صورت ِ حال کا تصور کریں کہ بھائی وزیر اعظم ہو اور بہن ملک کی صدر ہو۔ ایسی ’’مثالی ‘‘ صورت ِ حال کا پیش آنا کوئی ناممکنات میںسے نہیںہے ۔ اگر پی پی پی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو آصف زرداری بطور صدر مستفعی ہو کر اے این پی، ایم کیو ایم اور جے یو ایف کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ سنبھال لیںگے ۔ اور اگر اس میں ملکی آئین آڑے آرہا ہو کہ کوئی صدر ایک مخصوص مدت سے پہلے کوئی عوامی عہدہ نہیں سنبھال سکتا تو اس میں بھی ترمیم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح خالی ہونے والا ایوان ِ صدر اپنی ہمشیرہ محترمہ، فریال تالپور، کو سونپا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت اسی طرح خون کے رشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے عہدے سے اختیارات چھین کر اسے محض علامتی بنا دیا ہو لیکن ہم جانتے ہیں کہ زرداری صاحب کا سکہ ہی چلتا تھا۔ روس کے صدر مسٹر پیوٹن کی طرح ہمارے ہاں بھی صدر‘ وزیر اعظم کے اختیارات سنبھال سکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ روس میں پارلیمانی جمہوریت کے باوجود صدر پیوٹن ہی عملاً حکومت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروںکے الفاظ بہت پر جوش ہوتے ہیں۔جب وہ عہدے کے لیے مسابقت میں ہوتے ہیںتو کسی سٹار اداکار سے کم نہیںہوتے۔ میڈیا کے سامنے اور عوامی جلسوںمیں اُن کے جذبات کی روانی اُنہیں آرام سے آسکر دلا سکتی ہے۔ وہ جھوٹ بولتے ہوئے قسمیںکھارہے ہوتے ہیںکہ اُنھوںنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس سلسلے میں بعض تو اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولنے پر قادر ہی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں عمران خان بھی خود کو انتہائی سچے اور کھرے ظاہر کرتے ہیں۔ سچی بات تویہ ہے کہ آج کل پاکستان میں اشتہاری سیاست کا غلبہ ہے تاکہ عوام کے جذبات کو مٹھی میں لے کر ان سے فیصلہ اپنے حق میں کرایا جا سکے۔ اس سلسلے میںپنجاب کے شیر وں کی طرف سے کیے گئے وعدے ہمالیہ کو بھی نیچا دکھارہے ہیں، جبکہ دوسرے منظر میں ایک باپ اور ایک بیٹی کی قربانی کی یاد دلانے والا افسردہ نغمہ چلایا جارہا ہے، اس کے ساتھ ہی لہراتا ہوا بلا ورلڈ کپ کی فتح کے ساتھ یہ بھی باور کراتا ہے کہ اسی کے ساتھ ’’پھینٹی‘‘ بھی لگانی ہے۔ کچھ دن پہلے تین پارٹیوں کے تین بڑوںنے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے خود پر ہونے والے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے قوم کو ثابت قدم رہنے کا یقین دلایا تھا۔ کالم کی اشاعت تک دودن کا کھیل باقی ہوگا اور اس کے بعد تیرہ مئی کی صبح سپریم کورٹ میں بہت سی درخواستیں دی جا چکی ہوں گی کہ وہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس مرتبہ فی الحال شواہد بتاتے ہیں وزارتِ عظمیٰ کا تاج تیسری مدت کے لیے میاں نواز شریف کے سر پر سجنے کی تیاری کررہا ہے ۔ کاروباری طبقہ اور امیر صنعت کار اُن کے ساتھ ہیں کیونکہ اُن کا مفاد میاں صاحب کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ اس وقت بہت سے قرضہ معاف کرانے والے اور ٹیکس نا دہندگان قہقہے لگارہے ہوں گے کیونکہ اُن کو رہ رہ کر چند ہفتے پہلے ہونے والا باسٹھ تریسٹھ کا ڈرامہ یاد آرہا ہو گا۔ ذرا یاد کریںکہ انگلینڈ سے ’’درآمد شدہ ‘‘ بنکار معین قریشی کو کس طرح ایف بی آر کے بدعنوان افسران سے جنگ کرنا پڑی اور جب اُنھوںنے سیلز ٹیکس عائد کیا تو گلبرگ کی لبرٹی مارکیٹ کے دکانداروں کی ہڑتال کچھ لاہوریوںکویاد ہو گی کہ کس طرح اُس وقت ’’جواں سال ‘‘نواز شریف جوشیلے نعروںسے زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھے۔ معین قریشی مرحوم نے ایک مرتبہ مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا۔۔۔’’مجھے حکم ملا کہ سیلز ٹیکس کے حکم کو فوراً واپس لوں۔ ‘‘اس کے بعد آئی بی والوںنے اُس کی سرگرمیوںپر نگاہ رکھنا شروع کر دی۔ اُس کے اپارٹمنٹ کے قریب ایک کار نظر آتی جس میں پراسرار افراد سوار ہوتے ، یہاں تک کہ اُنہیں پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا۔ کچھ دیر بعد وہ فوت ہوگئے۔ اس کے بعد تاریخ پھر خود کو دہراتی ہے۔ اس مرتبہ علی ارشد حکیم کو ٹیکس چور مافیا نے نشانہ بنایا کیونکہ اُن کو اس طرح کا ایف بی آر چیف نہیں چاہیے تھا جو عوام کو زیادہ ٹیکس دینے کی ترغیب دے۔ لندن کے ’’سنڈے ٹیلی گراف ‘‘ نے لکھا۔۔۔ ’’پاکستان میں‘ جہاں اعلیٰ عہدوں پر ہونے والی تقرریاں مشکوک سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں، علی ارشد حکیم بہت کامیابی سے ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہے تھے‘‘۔ موجودہ انتخابا ت میں صدر زرداری، ایک مرتبہ پھر شہدا کے نام پر انتخابی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف ، جنھوںنے 2012ء میںصرف 25 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا (جو کہ ان کی دولت کے تناسب سے بہت کم ہے) ایک مرتبہ پھر وزارتِ عظمیٰ سنبھال کر پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کے لیے بے قرار ہیں۔ تاہم اُ ن کے وعدے پورے نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کی اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک ہے۔ یہ وقت ہے جب عوام دھواں دھار تقریر سننے کی بجائے قائدین سے وعدے لیں کہ وہ اپنے بیرون ملک چھپائی ہوئی دولت پاکستان لائیں تو وزیر ِ اعظم بنیںگے۔اس پر لوگ شاید یہ معاف کردیں کہ وہ دولت کمائی کیسے گئی تھی۔ اب وقت آگیا ہے جب لوگ حکومت سے اس کی اہلیت اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے معیار پر سوال اٹھائیں، ورنہ جمہوریت کا کیا مقصد ہے ؟کیا ہم یہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ امیر سرمایہ داروں کے قرضے یا اُن کو کیے جانے والے بھاری جرمانے کون معاف کرتے ہوئے عوام کو نقصان پہنچاتا ہے ؟ہم سیاست کو جذبات کی شاہراہ سے اتار کر حقائق کی پٹری پر کب ڈالیں گے؟ہم سچائی کا سامنا کرنے سے اتنا کتراتے کیوں ہیں؟تاہم اتنی زیادہ خوش فہمی اچھی نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ چیتا اپنے نشانات تبدیل نہیں کر سکتا؛ چنانچہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی قیادت کے طرزِ عمل میں تبدیلی کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی۔پی ٹی آئی کے چیف ابھی ’’نووارد‘‘ ہیں؛ چنانچہ قوم نے ابھی انہیں نہیں آزمایا، تاہم ان کی ٹیم میں شامل بہت سے مہرے آزمودہ ہیں۔ یہ وہی ہیں جو کبھی پی پی پی، پی ایم ایل (ن) اور ق لیگ میں شامل تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے عمران خان وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ بدعنوانی کو بیک جنبش قلم ختم کر دیں گے۔ آئیے چند دن انتظار کرلیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں