وزیر اعظم کا امتحان

اگر اہل اور با صلاحیت افراد کو اب بھی اہم عہدوںپر فائز نہیں کیا جائے گا تو پھر اس کی نوبت کب آئے گی؟ملکی حالات اس قدر نازک ہیںکہ صرف ایک غلط قدم نواز شریف کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ اب تک جن لوگوں کے نام پریس میں افشا ہوئے ہیں، اُن سے تو لگتا ہے کہ نئی حکومت کی ٹیم میں وہی پرانے چہرے ہی ہوںگے۔۔۔ وہی تھکے ہوئے پیشہ ور لوگ، وہی ریٹائرڈیا حاضر سروس افسر اور میڈیا میں ٹاپ رینکنگ حاصل کرنے والے خودساختہ ماہر سفارت کار، ماہرین ِمعاشیات، انسانی حقوق کے چمپئن اور آئینی ماہرین۔ خدشہ ہے کہ یہی نام نہاد ماہرین حقیقی باصلاحیت افرادکو آگے نہیں آنے دیںگے۔ اب میاں نواز شریف چودہ سال کے بعد دوبارہ زمامِ اقتدار تھام رہے ہیں۔ لندن کے جریدہ ’’اکانومسٹ‘‘ نے پہلے ہی نواز شریف کی فتح کی پیش گوئی کر تے ہوئے اُنہیںوزیر ِ اعظم قرار دے دیا تھا۔ شویز شیرف نے اپنے کالم میں رائے ونڈ کے شاندار فارم ہائوس کے ذکر کرنے کے علاوہ لکھا تھا: ’’پاکستان کے نامی گرامی افراد جو اعلیٰ عہدوںکے طلب گار ہیں، نواز شریف کی لاہور کی رہائش گاہ کے باہر قطار بنائے کھڑے ہیں جبکہ چند دن پہلے ہر کوئی عمران کو ووٹ دیتے ہوئے انقلابی تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ آج سب کا کہناہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے پکے اور بااصول ووٹر ہیں۔ ‘‘ پانچ سال پہلے اسلام آباد کے بلاول ہائوس کے باہر بھی ایسا ہی منظر تھا اور بہت سے افراد جو اب ماڈل ٹائون لاہور میں دیکھے جارہے ہیں، وہاں بھی موجود تھے اورانتظار کررہے تھے کہ کب صدر آصف زرداری اُن کو بلائیں۔ آج وہی منظر ادھر بھی ہے۔ کچھ نئے چہرے نجی ٹی وی چینلوں پر شریف برادران کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ بہت سے‘ کپتان کی ٹیم کو خیرباد کہتے ہوئے میاں صاحب کی مصاحبت کا شرف حاصل کررہے ہیں۔ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔‘‘ کس طرح دانشوروں کی عقل پینترے بدل رہی ہے، کس طرح سخن وری تاج وروںسے خراج لے رہی ہے، نظریات کی تطہیر کا کیسا سہانا موسم ہے!اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت کا وزیر ِ اطلاعات کون ہو گا۔ اگر کوئی ایسا شخص اس منصب پر فائز ہوجو ’’لفافہ جرنلزم‘‘ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے صحت مندانہ صحافت کو پروان چڑھائے تو بہتر ہے، ورنہ عوام کا روپیہ ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران نواز شریف نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ ڈرونز کا ذکر تو کیا لیکن عمران خان کے برعکس اُن کو گرانے کی بات نہ کی اور نہ ہی ہمسایہ ممالک، جیسے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ غیر ضروری محاذآرائی میں الجھنے کا عندیہ دیا۔ یہ بات نوٹ کی گئی کہ جب اُن کی فتح یقینی دکھائی دے رہی تھی تو اُنھوںنے بہت ہی محتاط اور مدبرانہ لہجہ اختیار کیا اور ایک سمجھ دار سیاست دان نظر آئے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ عالمی رہنمائوں، باراک اوباما، من موہن سنگھ اور حامد کرزئی نے نواز شریف کے لیے نیک خواہشات کا پیغام بھیجا اور اُن سے جلد ملاقات کی خواہش ظاہر کی تاہم امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو جلد بازی سے احتراز کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میمو گیٹ سے شہرت پانے والے اور سپریم کورٹ کو مطلوب شخص نے بھی شریف برادران کو مشورے سے نواز ڈالا ہے۔ بہرحال مسٹر حقانی ’’واں نہیں پر واں سے نکالے ہوئے تو ہیں‘‘۔ بہرحال‘ انہوں نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پہلا پتھر پھینک دیا ہے کہ انہیں دہشت گردی کے حوالے سے نئے وزیر ِ اعظم کے ارادوںپر شبہ ہے۔ یہ امریکہ اور بھارت کے لیے ایک طرح کی وارننگ تھی کہ وہ دہشت گردی کے معاملے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر اعتماد نہ کریں۔ حقانی نے یہ بھی کہا کہ ’’نواز شریف لشکر ِ طیبہ کی تخلیق کے ذمہ دار ہیں؛ تاہم وہ سابق حکمرانوں سے خود کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کریںگے۔‘‘ اس آخری جملے کا کیا مطلب ہے؟ یہ حسین حقانی خود ہی جانتے ہیں، ہمارے تو کچھ پلے نہیں پڑا۔ نواز شریف کے برعکس عمران خان کو پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں مشورے کی سہولت حاصل نہیںہے، چنانچہ اُن کے بیان۔۔۔ ’’ڈرون گرا دوں گا‘‘۔۔۔ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان معاملات کو بہت گہرائی تک نہیں سمجھتے حالانکہ اُن کی ٹیم میں شاہ محمود قریشی، آصف احمد علی اور خورشید قصوری جیسے سابق وزرائے خارجہ شامل ہیں۔ کیا ان تینوںنے کپتان کو نہیں بتایا کہ پاکستان کو امریکہ کی کتنی ضرورت ہے اور کیا پاکستان اپنے وسائل سے درکار رقم کا بندوبست کر سکتا ہے؟ اس وقت دیدہ و نادیدہ قوتیں‘ وہ مقامی ہوں یا بدیسی روایتی طور پر پاکستان کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں این آر او کو فراموش نہیںکیا جانا چاہیے کیونکہ اس معاہدے نے ہی جلاوطن سیاست دانوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںہے کہ امریکہ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، برٹش فارن آفس اور سعودی عرب نے مل کر 2007ء میں پاکستان میں جمہوریت کی ’’بحالی ‘‘ کے اقدامات کیے تھے۔ تاہم ان اقدامات کا مقصد پاکستان کی خدمت نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے مفادات کا تحفظ تھا کیونکہ اُس وقت عالمی طاقتیں دیکھ رہی تھیںکہ مشرف اب اُن کے کام کے نہیں رہے۔ اُس وقت اُن کی جگہ جوش و جذبے سے بھرپور بے نظیر بھٹو کو لانا مقصود تھا۔ اگرچہ صدر بش اپنے پرانے دوست جس کو کیمپ ڈیوڈ میں بھی دعوت دی گئی تھی‘ کو ناپسند کرتے تھے۔ یہ الفاظ دنیا بھر کے میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے جب سینئر بش نے کہا: ’’ہمیں کسی اور کا نمبر ملانے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہی تھا کہ اب وہ صدر مشرف سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اگرچہ مشرف نے واشنگٹن کے ساتھ ڈرون حملوںکا خفیہ معاہدہ کر رکھا تھا ( گزشتہ ماہ مشرف نے سی این این سے بات کرتے ہوئے اس کا اعتراف کیا تھا) لیکن اُس وقت وہ امریکہ کے لیے بے کار ہو چکے تھے۔ تاہم جب بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا تو اُن کے شوہر امریکہ کی نظروںمیں آگئے کیونکہ وہ اور اُن کے وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے چشم براہ نکلے۔ اگست 2008ء میں این پیٹرسن کے نام کیبل پیغام میں وزیر ِ اعظم گیلانی نے کہا تھا: ’’اگر ڈرون حملوں میں دہشت گرد مارے جائیںتو مجھے جغرافیائی حدود کی پامالی کی کوئی فکر نہیں۔ ہم دکھاوے کی خاطر قومی اسمبلی میں احتجاج کریںگے لیکن آپ (امریکی) اس کو نظر انداز کرتے رہیں۔‘‘ اب نواز شریف کو ماضی کی غلطیوںسے سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام نااہل افراد کو اعلیٰ عہدوںسے نوازنے سے احتراز کرنا ہے۔ اس وقت پی ایم ایل (ن) کی قائم ہونے والی حکومت کے سامنے بہت سے مسائل ہیں، جیسے توانائی کا بحران، خارجہ پالیسی اورسرمایہ کاری اور معیشت۔ ان اہم وزارتوں کے لیے وزرا کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی تعلیم اور تجربے کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد اب نواز شریف کے سامنے ’’انتخاب ‘‘ کا یہ مرحلہ باقی ہے اور یہ آسان نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں