قاہرہ سے ایک پیغام

مصر کے دگرگوں حالات کے بارے میں نیویارک ٹائمز لکھتا ہے۔۔۔’’عوام میںعدم تحفظ ، معاشی بدحالی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کشیدگی کے حوالے سے شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے‘‘۔۔۔ اور شاید اخبار اس جملے میں یہ اضافہ بھی کرنا چاہتا ہو گا۔۔۔’’بند کرو یہ سب کچھ، کیا یہ پاکستان ہے؟‘‘ کیونکہ اس جملے کا ہر لفظ پاکستان کی صورت ِ حال کی غمازی کرتا ہے۔ اسلام آباد اور پنڈی میں بہت سے افراد نے صدر مرسی کا تختہ الٹنے کے لیے کیا جانے والاہنگامہ پرور ملین مارچ دیکھا ہوگا۔ جس اسلامی جماعت، ’’اخوان المسلمون‘‘ نے ایک سال قبل مرسی کو اقتدار میں آنے کے لیے سہارا دیا تھا، اب وہی امن کی سب سے بڑی مخالف بن چکی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ہونے والا احتجاج، فروری 2011ء کے احتجاج ، جب مظاہرین نے حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے لیے اٹھارہ دن تک تحریر چوک پر قبضہ جمائے رکھا، کے بعد شدید ترین تھا۔ مصری فوج نے صدر مرسی اور ان کے مخالفین کو اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ ’’عوامی مطالبات پورے کرنے کے لیے کسی نہ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ مہلت ختم ہونے تک اگر کوئی حل نہ نکلا، تو فوج مداخلت کر سکتی ہے۔ فوج نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ ’’آخری موقع ‘‘ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مصری فوج نے احتجاج کرنے والوں کے رویے کو سراہتے ہوئے اسے ’’شاندار‘‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ مظاہرین نے ’’پُرامن اور مہذب طریقے ‘‘ سے احتجاج کیا، اس لیے ضروری ہے کہ ’’عوامی مطالبے کا مناسب جواب دیا جائے۔‘‘ مصری فوج کے چیف لائق ِ تحسین ہیں کہ اُنھوںنے ملکی صورت ِحال ، جب کہ ملک جل رہا تھا، سے لاتعلق ہوکر بیٹھنے کی پالیسی سے گریز کیا اور واشگاف انداز میں کہا کہ چونکہ ملکی سلامتی کو خطرہ ہے اس لیے فوج اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہے۔ اُن کا کہنا ہے: اگر حالات بہتری کی طرف جاتے نظر نہ آئے تو ’’فوج تمام محب ِ وطن جماعتوں اور تحریکوںکے ساتھ مل کر مستقبل کے لیے کوئی روڈ میپ وضع کرے گی اور اس کے نفاذ کے عمل کی خود نگرانی کرے گی۔‘‘ ہمارے رہنما ضمیر پر ہلکا سا بوجھ لیے بغیر ریاست کے مال کو ہڑپ کر رہے ہیں۔ اگر اُنہیں احساس ہوتا کہ ہر روز کتنے شہری فاقہ کشی کا شکار ہو کر دم توڑ رہے ہیں، کتنے غریب مریض ادویات نہ ملنے سے راہی ِ ملک ِ عدم ہو جاتے ہیں اور اس دھرتی کی زلفیں سنوارنے والے بندہ ِ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں تو شاید ان کے ماتھے پر فکرمندی کی کوئی لکیر ابھرتی اور وہ اپنے عشرت کدوں اور گالف کے سرسبز میدانوںسے باہرحقائق کی اس سنگلاخ دنیا پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کرتے۔ دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں پچاس ہزار کے قریب شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اس کے باوجود شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ مصر کے الٹی میٹم سے مجھے ڈاکٹر طاہر القادری کا الٹی میٹم بھی یاد آتا ہے جب اُنھوںنے اس سال کے شروع میں ملک میں تھرتھلی مچا دی تھی۔ بہرحال پے در پے ڈیڈ لائنوں اور احکامات کے نزول نے اس لانگ مارچ کو طربیہ ڈرامے میں بدل دیا جبکہ کئی حکومتی اہلکار ٹی وی کیمروں کے سامنے ڈاکٹر صاحب کی نقالی کرکے مذاق اُڑاتے رہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے اُن کی پاکستان سے وفاداری پر اس وقت سوالات اٹھائے جب ڈاکٹر صاحب الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں گئے۔ یہ صورت ِ حال بہت مختلف ہوتی اگر عمران خان، جو اُس وقت سونامی کے گھوڑے پر سوار تھے اور ایم کیو ایم‘ بھی اُس وقت قادری صاحب کے ہمقدم ہوتے۔ جس وقت قادری صاحب اسلام آباد کی منجمد کردینے والی سردی میں ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کولے کر ڈی چوک میں بیٹھ گئے تھے تو فوج کے پاس ترپ کا پتا موجود تھا لیکن اس نے استعمال نہ کیا۔ اُس وقت پی پی پی حکومت نہایت پرسکون تھی بلکہ بہت سے تو صورت ِ حال سے لطف اندوز ہو رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فوج حرکت میں نہیں آئے گی۔ اسلام آباد اور قاہرہ کے درمیان شاید یہی فرق ہے۔ مصری فوج مداخلت کے لیے تیار ہے(اس کالم کی اشاعت تک فیصلہ ہو چکا ہوگا)۔ مصنف اور صحافی مسٹر زاہد حسین گرائونڈ زیرو سے تازہ ترین خبر لائے ہیں اور وہ تصدیق کرتے ہیں کہ شمالی وزیرستان پاکستانی طالبان کی اعلیٰ کمان، جیسا کہ حکیم اﷲ محسود ، پنجابی طالبان، ازبک جنگجو، افغان طالبان اور انتہا پسندوں کی پناہ گاہ ہے۔ کیا کوئی ہے جو ان گروہوں کا اس سرزمین سے خاتمہ کردے؟ اگر ہے تو اس سنگلاخ سرزمین پر پہلا پتھر کون پھینکے گا؟اس سوال کا جواب ایک فوجی افسر دیتے ہیں جنھوںنے زاہد حسین سے بات کرتے ہوئے بتایا ۔۔۔’’اس علاقے میں فوجی آپریشن ممکن ہے لیکن اس میں مزید تاخیر صورت ِ حال کو خراب کردے گی۔‘‘پاک فوج کو ماضی میں بھی حکومت سے شکایت رہی ہے کہ وہ ایسے فیصلہ کن مراحل میں قدم پیچھے کھینچ لیتی ہے۔ زاہد حسین لکھتے ہیں۔۔۔’’فوج چاہتی ہے کہ سیاسی قیادت اپریشن کی ذمہ داری اٹھاکر واضح نقطہ نظر کے ساتھ سامنے آئے۔اس سے پہلے پی پی پی حکومت سیاسی جماعتوں کے درمیان آپریشن کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس اپوزیشن کی مرکزی جماعت پی ایم ایل (ن) کو خدشہ تھا کہ انتہاپسند پنجاب میں دہشت گردی کی کاروائیاں کریںگے۔ اُس وقت موقع اچھا تھا لیکن وہ گنوا دیا گیا۔ اس سے جنگجو مزید مضبوط ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان مزید غیر محفوظ ہو گیا ہے۔‘‘ بہت جلدجنرل کیانی ، جن کی مدت ِ ملازمت چار ماہ رہ گئی ہے، عملی طور پر غیر فعال ہو جائیںگے۔ ایک مرتبہ جی ایچ کیو میں خطاب کرتے ہوئے کیانی صاحب نے کہا تھا۔۔۔’’ جو کچھ بھی آ پ نے ماضی میں کیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کون ہیں، لیکن جو کچھ آپ آج کررہے ہیں ، یہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آپ مستقبل میں کیا ہوں گے۔‘‘اُنھوںنے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔’’ ہم سنجیدگی سے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ہم اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔‘‘بہرحا ل یہ بات جنرل صاحب بہتر جانتے ہیں کہ قوم اُن کو کن الفاظ میں یاد رکھے گی۔ اس وقت کیانی صاحب کس بات کا انتظار کررہے ہیں؟کیا وہ نواز شریف صاحب کی طرف سے اشارہ چاہتے ہیں؟ ’’اٹلانٹک میگزین ‘‘ میں امتیاز علی لکھتے ہیں۔۔۔’’اگر نواز شریف کچھ مثبت اقدامات، جو وہ اٹھا چکے ہیں، کے بعد ڈگمگاتے نہیں ہیں تو وہ ملک کی معیشت کو درست سمت پر ڈال دیںگے؛ تاہم اگر ملک دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح پالیسی نہیں بناتا تو معاشی اور سماجی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ‘‘اس کا مطلب ہے کہ اگر وزیر ِ اعظم کا ذہن تبدیل نہ ہوا تو ملک سنگین مضمرات کے لیے تیار رہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے باوجود ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہو جائے گا کیونکہ طالبان بہت جلد حکومت کی عملداری کو چیلنج کررہے ہوںگے ۔ کرنل جاوید ظہور، جو1996-1998 ء میں فرنٹیئر میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر تھے، کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بہتر اور وسیع بنانے کے بجائے اس کے انتظامی کام، جیسا کہ امن کمیٹیاں تشکیل دینا۔ اس سے تمام معاملہ بگڑ گیا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ فرقہ واریت کے ہاتھوں پارہ پارہ ہو چکا ہے۔کیا ہم کبھی ان غلطیوںکی تلافی کر سکیںگے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں