امریکی سفیر کی مداخلت

مرسی حکومت کے آخری لمحات میں جو محترمہ صدارتی محل اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیلی فونک پیغامات کا تبادلہ کرتی رہیں وہ مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن تھیں۔ وہ دبائو کے شکار صدر مرسی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ وہ منصب سے ہٹ جائیں کیونکہ اُن کے گرد مسائل کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں‘ وقت کی طنابیں اُن کے ہاتھ سے سرک رہی ہیں اور ایسی صورت میں وہ امریکی مدد کے بغیر تنہا کھڑے ہوںگے۔ مرسی نے اُ ن کی بات پر یقین نہ کیا۔ اس سے چند ہفتے پہلے پیٹرسن نے ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا ۔۔۔’’میرا خیال ہے کہ یہ حکومت کسی مشکوک طریقے سے منتخب نہیں ہوئی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اُنھوں نے ایک طرح سے مرسی کو ’’اعتماد کا ووٹ‘‘ دیا تھا۔ پھر اُنھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا‘ اُنہیں شک ہے کہ گلیوں میں ہونے والا احتجاج الیکشن کی نسبت بہتر نتائج نہیں نکال سکے گا۔ اس دوران قاہرہ کی گلیوں میں این پیٹرسن کی مخالفت میں پوسٹر بھی دکھائی دیے۔ ایک پوسٹر میں اُن کی تصویر کے اوپر سرخ رنگ سے کراس کا نشان لگا یا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اُن کا ملک چھوڑ دیں۔ تریسٹھ سالہ پیٹرسن کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ مرسی اور اُس کی سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں، اس لیے احتجاج کرنے والوں کے نزدیک وہ حکومتِ وقت کا تحفظ کرتے ہوئے منفی کردار ادا کر رہی تھیں۔ این پیٹرسن نے جون 2007ء سے لے کر اکتوبر 2010ء تک پاکستان میں بھی بطور سفیر خدمات سرانجام دی تھیں۔ وہ یہاں بھی ایسے ہی عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن سکتی تھیں؛ تاہم یہاں صورتِ حال یہ تھی کہ اگر وہ عوام میں مقبول نہ تھیں تو ان کی نظروں میں قابلِِ نفرت بھی نہیں تھیں۔ اُس وقت ہمارے ہاں این آر او‘ جسے امریکیوں نے سابق حکمرانوں کو اقتدار پر فائز کرنے کے لیے بنوایا، سے مستفید ہونے والے افراد کی حکومت تھی۔ اس دوران جمہوریت کی آڑ میں حکومت کی لوٹ مار بھی شروع ہو گئی، جبکہ دعوے کیے جا رہے تھے کہ ہم جمہوریت کے چمپئن ہیں۔ قول و فعل کے تضاد کے اُس دور میں این پیٹرسن خاموشی سے پاکستان سے چلی گئیں۔ مصر میں ایسا نہ ہوا اور اُنھوں نے وہاں سے چپکے سے جانا مناسب نہ سمجھا چنانچہ اُن کو اس معاملے میں ملوث سمجھا گیا۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے: ’’وہ امریکی خارجہ پالیسی میں اتنی اہمیت اختیار کر چکی ہیں کہ اُن کے وہاں موجود ہونے سے یہ تاثر چلا گیا کہ امریکہ مصر میں مداخلت کر رہا ہے‘‘۔ اب جبکہ اُن کی نئی حکومت اور مصری عوام کی نظروں میں اُن کی ساکھ مجروع ہو چکی ہے‘ بطور سفیر ان کی مصر میں موجودگی کے امکانات دھندلے ہیں۔ ’’Daily Beast‘‘ کا کہنا ہے کہ ان کو ترقی ملنے کا امکان پایا جاتا ہے کیونکہ صدر اُوباما سوچ رہے ہیں کہ اُن کو مشرقی ممالک کے معاملات کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کے عہدے پر فائز کر دیا جائے۔ تاہم اس ضمن میں ایک نیوز ویب سائٹ کا کہنا ہے: ’’حالیہ دنوں کچھ ناروا معاملات میں اُن کا نام آنے سے ہو سکتا ہے کہ وائٹ ھائوس ان کی نامزدگی میں تامل سے کام لے‘‘۔ پاکستان میں اُن کے جانشیں کیمرون منٹر نے ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہوئے کہا: ’’ اگر ان حالات میں ذمہ داری سرانجام دینے کے لیے کسی بہترین شخصیت کا انتخاب کرنا ہو تو این پیٹرسن سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا‘‘۔ مسٹر کیمرون منٹر جانتے تھے کہ این پیٹرسن پاکستان میں ان حالات میں آئیں جب صدر مشرف سفید و سیاہ کے مالک تھے اور وہ اس وقت یہاں سے گئیں جب صدر زرداری ایوان صدر میں اپنے قدم جما چکے تھے۔ وہ یہاں واشنگٹن کے حکمرانوں کا جو ایجنڈا لے کر آئی تھیں اور اُنھوں نے جنرل مشرف اور اعلیٰ افسران سے جو ملاقاتیں کیں، وہ کھلا راز ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’این پیٹرسن نے پاکستان کے دفاعی اور خفیہ اداروں کے افسران سے روابط قائم کیے۔ اُنھوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوںکے مشتبہ ٹھکانوں پر سی آئی اے کے ڈرون حملوں کی پرزور طریقے سے وکالت کی۔ اسی طرح پاکستانی فوجی دستوںکو دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی تربیت دینے کے لیے امریکی آفیسرز کی تعیناتی میں بھی اُنھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی سیاست کے وہ حالات امریکی اقدامات کے لیے سازگار بھی تھے کیونکہ مشرف کو اقتدار کا لالچ تھا جبکہ بے نظیر بھٹو واپسی کے لیے بے چین تھیں۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ محترمہ 2007ء کے موسمِ بہار میں واشنگٹن میں تھیں جبکہ دنیا کے ہمارے والے حصے میں این پیٹرسن این آر او کے لیے سرگرم عمل تھیں۔ اس ’’کار خیر‘‘ میں اُنہیں برطانوی ھائی کمشنر مارک لیال گرانٹ (Mark Lyall Grant) کی معاونت بھی حاصل تھی جبکہ صدر مشرف اور جنرل کیانی، جو اُس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، سے ان کے پیغامات کا سلسلہ جاری تھا۔ محترمہ کی ہلاکت کے بعد امریکی، جو متبادل پلان کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے، اپنے پلان بی کو آگے لے آئے۔ نگاہِ انتخاب اب محترمہ کے شوہر پر پڑی۔ طے یہ کیا گیا کہ وہ مشر ف کے ساتھ شراکت اقتدار کی طرف بڑھیں گے۔ یہ منصوبہ تو سیدھا سادا تھا لیکن اس میں ایک ایسی مشکل آن پڑی کہ این پیٹرسن اپنی بے پناہ سٹریٹجک مہارت کے باوجود ا س کو حل نہ کر سکیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ این آر او 1986ء سے لے کر 1999ء تک کی جانے والی مالی بے ضابطگیوں پر پردہ ڈالتا تھا لیکن جب نئی صدی کا سورج طلوع ہوا تو یہ ڈھال ہوا میں تحلیل ہوتی محسوس ہوئی کیونکہ پھر ’’تیل کے بدلے خوراک‘‘ بی ایم ڈبلیو، پولش ٹریکٹر ساز اور سب سے بڑھ کر سوئٹزرلینڈ میں ساٹھ ملین ڈالر منی لانڈرنگ کیسز نے سر اٹھا لیا۔ ان حالات میں زردای صاحب کے پاس اور کوئی جائے مفر نہ تھی سوائے اس کے کہ ایک سیاسی جماعت کے ناخدا بن جائیں۔ اُن کی مرحومہ بیوی کی چھوڑی ہوئی سیاسی جماعت موجود بھی تھی۔ چنانچہ 2008ء کے انتخابات میں پی پی پی اقتدار میں آ گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُن دنوں این پیٹرسن کے زرداری صاحب کی مشیر خاص شیری رحمان سے کس قدر قریبی روابط تھے۔ اگر مواقع پر وہ کسی پُرسکون گوشے میں بیٹھی سرجوڑے ریاست کے معاملات پر بات چیت کرتی پائی جاتیں۔ کسی کو ان کے درمیان ہونے والی گفتگوکا مطلق علم نہ ہوتا تھا۔ اگر امریکی سفیر دنیا کے مختلف ممالک کے حساس اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں تو ان کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟ بات یہ ہے کہ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ہی امریکی سفیر کو اس کی شہ ملتی ہے۔ پاکستان میں چاہے ہماری حکمران جماعت ہو یا اپوزیشن، سیاسی رہنما ہوں یا طبقہ اشرافیہ، سب کے نزدیک امریکی سفیر ایک طرح کا وائسرائے ہوتا ہے۔ جب ہم نے مئی 1998ء میں ایٹمی تجربات کیے تو اس کے فوراً بعد امریکی سفیر تھامس سیمنز نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کی سب سے پہلی فرمائش یہ ہوتی ہے کہ ان کو اور ان کے اہل خانہ کو امریکی ویزا دے دیا جائے۔ ساٹھ کی دھائی میں بننے والی ایک فلم ’’The Ugly American‘‘ میں ایک امریکی سفیر کی کردار نگاری کی گئی تھی کہ وہ کس طرح ایک غریب ملک کو امداد دیتا ہے جبکہ اس عمل میں مستحقین کی بجائے ذاتی مفاد کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ فلم اتنی مشہور ہو گئی کہ اس وقت کے امریکی صدر مسٹر آئزن ھاور کو امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد کا نوٹس لینا پڑا۔ آج کوئی فلم تو نہیں بلکہ وکی لیکس والے بہت سی چیزوںکا انکشاف کر چکے ہیں کہ کس طرح ہمارے اشراف امریکی سفیروں کے سامنے دست بستہ رہتے ہیں۔ ان انکشافات سے عوام کی بڑی تعداد باخبر ہے۔ کچھ کیبل پیغامات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ایک برادر اسلامی ملک پاکستان کی سیاست میں بہت حد تک ملوث ہوتا ہے؛ تاہم امریکی سفیروں کی طرف سے ہمارے معاملات میں مداخلت ہو یا کسی اور اسلامی ملک کی طرف سے، اس کی وجہ ہماری داخلی کمزوری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں