ارب پتی میٹ رومنی باراک اوباما کے مقابلے میں صدارتی انتخابات اپنے ایک احمقانہ بیان کی وجہ سے ہار گئے۔ اُنھوںنے کہا تھا۔۔۔’’ کارپوریشنز عوام ہی ہوتی ہیں‘‘۔۔۔ یہ بات اُنھوں نے اُس وقت کی تھی جب اُن سے پوچھا گیا تھا کہ وہ امریکہ کے کاروباری اداروںسے ٹیکس وصول کرنے کے حوالے سے نرم رویہ کیوں رکھتے ہیں۔ارب پتی نواز شریف بھی ایسی ہی کاروباری ذہنیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے افراد ہی عوامی کارپوریشنز کے سربراہ بنیں کیونکہ ہم خیال افراد کے ساتھ کاروباری معاملات چلانا آسان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اب تو لندن میں ان کے میزبان ، ایک دولت مند شخص ، چودھری محمد سرور، جو اب لاہور کے گورنر ہائوس میں مقیم ہیں، بھی ان کو اچھی بزنس ایڈوائس دے سکتے ہیں۔ ساٹھ سالہ سروراس عہدے پر فائز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ برطانیہ کے رکن ِ پارلیمنٹ کے طور پر‘ وہ ہزار سالہ تاریخ میں پہلے ایم پی ہیں جنھوںنے قرآن ِ پاک پر حلف اٹھایا۔ ٹھیک ہے، لیکن اس کے علاوہ ان میں اور کیا خاص بات ہے کہ وہ گورنر پنجاب بنا دیے گئے؟ یقینا اُنھوںنے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں صنعت، تجارت اور کاوربارکے لیے اچھا ماحول قائم کریںگے۔ ذراخاطر جمع رکھیں! شنید ہے کہ شوکت ترین کو ’’SOE‘‘کے بورڈ ممبران کی سلیکشن کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ بات دبے لفظوں میں اس شخص کی طرف سے کی گئی ہے جو کاروباری حلقوں کا نبض شناس ہے۔ نواز شریف کی طرف سے مقرر کیے جانے والے سلیکٹرز کا حجم بڑھ رہا ہے اور ان میں ارب پتی افراد جگہ پارہے ہیں۔ سب سے قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر کاروبار پاکستان کی بجائے بیرونی ممالک میں ہیں، چنانچہ اسی طرح ان کے بنک اکائونٹس اور غیر منقولہ جائیدادیں بھی وہیں ہیں۔ ’’رائل کچن ‘‘ میں ارب پتی شیف جمع ہورہے ہیں۔ میاں منشا، محمدسرور اورشوکت ترین ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سوں کی آمد متوقع ہے اور بہت جلد ٹریفک جیم کی کیفیت پید ا ہو جائے گی۔ نواز شریف نے پہلے ہی تین افراد کو پس ِ پردہ رہ کر کام کرنے پر لگا دیا ہے۔ یہ تینوں افراد جن کو سلیکشن سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، ریٹائرڈ سرکاری افسر عبدالرئوف چوہدری، شمس قاسم لکھا اور عالمی بنک کے سابق ماہر ِ معاشیات ڈاکٹر اعجاز نبی ہیں۔ اب ان میں شوکت ترین بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ان کی اس گروپ میں آمد دھماکہ خیز ہوگی کیونکہ وہ اپنی راہ بنانا جانتے ہیں ۔ جب وہ آصف زرداری کے فنانس منسٹر تھے تو اُنھوںنے ہار مانتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہ اس وقت کے وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی مالی بدانتظامی کو برداشت نہ کرسکے۔ اس کے بعد وہ پھر بیرون ِ ملک اپنے بنک ،جہاںسے وہ آئے تھے،میں چلے گئے۔ یہ دیکھ کر کہ نواز شریف نے من پسند سیاست دانوں، صنعت کاروںاور سرکاری افسروں کو پبلک سیکٹر میں چلنے والے اداروںکا سربراہ بنا دیا ہے ، عالمی بنک نے سرخ جھنڈی دکھادی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اپنے ’’پالیسی نوٹ ‘‘ میں عالمی بنک نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ من پسند افراد کو نوازنے کی پالیسی ترک کردے کیونکہ ایسی تقرریاں شفاف اصولوں کے خلاف ہیں۔ اس نے حکومت کو خبردار بھی کیا ہے کہ وہ وزرأ اور سرکاری افسران کو ان عہدوں پر فائز کرنے سے باز رہے۔ عالمی بنک کا کہنا ہے کہ پاکستان میںپبلک سیکٹر میں چلنے والے سینکڑوں ادارے ہیں جو قومی آمدنی کا دس فیصد فراہم کرتے ہیںجبکہ سٹاک مارکیٹ میں بھی ان کے سرمائے کی شرح ایک تہائی کے قریب ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے پاس ’’ایس او ای‘‘ (state-owned entities) کے حوالے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت جلدی سے اس ضمن میں قانو ن سازی کرے ۔ عالمی بنک ایڈوائس کرتا ہے کہ جو ادارے ٹارگٹ پورے کرنے میں ناکام رہیں، اُنہیں زائد فنڈز نہ دیے جائیں۔ تاہم نواز شریف ان ہدایات پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت وہ ماہرین کی تقرری خاموشی سے کررہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوںنے گھوڑے کے آگے تانگے کو جوت دیا ہے۔ ان سب باتوں کی نشاندہی پی آئی اے، کے ایس ای اور اینگرو کے سابق چیئرمین ظفر خان نے کی ہے۔ اُنھوںنے ایک انگریزی روزنامے میں مدیر کے نام خط میں لکھا ہے۔۔۔’’ایسا لگتا ہے کہ نواز حکومت سی ای اوز کا چنائو کرکے انہیں پبلک سیکٹر میں چلنے والی انٹر پرائزز میں لگانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ یہ بات درست نہیںہے کیونکہ سی ای او کی تقرری یا برطرفی اس ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا استحقاق ہوتا ہے۔ جب ایک حکومت ہی سی ای اوز کی تقرری کرے گی تو وہ بورڈز کو خاطر میں نہیں لائیںگے۔ اس عمل سے بورڈ کی اتھارٹی اور احتسابی عمل متاثر ہوگا۔ ‘‘ اسی طرح کی ایک اور معقول تجویز معین فدا ، جو کہ ایک مشہور کاروباری شخصیت ہیں، کی طرف سے بھی آئی ہے۔ وہ اس ٹاسک فورس کے ممبر تھے جس نے مارچ 2013ء میں پی ایس سی کارپوریٹ کے قواعد و ضوابط کا مسودہ ڈرافٹ کیا تھا۔ ان کے مطابق اس ضمن میں قوانین واضح ہیں۔ ’’کمپنیوں کے پیشہ ور ماہرین پر مشتمل بورڈ ہی سی ای اوز کی تقرری کرے گا۔ اس عمل میں حکومت کی مداخلت نہیںہوگی‘‘ تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت ان قوانین کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیںہے۔ یہ سو سے زائد اداروںکے سی ای اوز اپنی مرضی سے لگانا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے سہ رکنی کمیشن قائم کیا ہے جو اس عمل کی نگرانی کرے گا۔ ان سی ای اوز کی آسامیوں کے لیے قومی پریس میں دیے جانے والے اشتہارات اتنے غیر سنجیدہ زبان میں کیوں ہیں؟ کیا انہیں وزیر ِ اعظم کے سیکرٹریٹ کے کسی نیم خواندہ کلرک نے ڈرافٹ کیا ہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام سی ای اوز کی آسامیوںکے لیے یکساں تعلیمی قابلیت درکار ہو؟ دیے گئے اشتہار کے مطابق، مثال کے طور پر، OGDCL ، جو پاکستان کی آئل اور گیس کی تلاش کرنے والی کمپنی ہے، کے سی ای اوکے لیے پندرہ سالہ تجربہ درکار ہے۔ اس کمپنی میں کم از کم دو ہزارکے قریب ایسے ملازمین ہیں جن کا تجربہ پندرہ سال سے زائد ہے۔ کیا اب یہ تمام افراد سی ای او کی آسامی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور کیا مذکورہ کمیشن ان سب کا انٹرویو کرنے کے لیے تیار ہے؟ خدشہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے وزرا، جیسا کہ خاقان عباسی، احسن اقبال اور خواجہ آصف کے پاس قوت ِ فیصلہ کی کمی ہے۔وہ ملک کو اسی شش و پنچ میں مبتلا رکھیںگے یہاں تک کہ یکایک ان کو احساس ہوگا کہ 2018ء آگیا ہے اور اب ان کے گھر جانے کا وقت ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کے ایم ڈی کے لیے ایک غیر ملکی ائیر ہوسٹس نے بھی درخواست دے دی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اور بھی غیر ملکی اس عہدے کے خواہش مند ہیں۔ کیا سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھے گی کہ ایسے حساس عہدوں پر غیر ملکیوںکی تعیناتی درست ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ تعیناتی کا عمل بھی خاصا چکرا دینے والا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ چشم تصو ر یہ منظر دیکھ رہی ہے کہ رئوف چوہدری، شمس لکھا اور اعجاز نبی ڈیسک پر بیٹھے ہوں گے جبکہ امیدواران لمبی قطاروںمیں ان کے سامنے پیش ہو کر چنائو کے عمل سے گزریںگے۔ عقل حیران ہے کہ یہ افراد کس طرح کسی امیدوار کی اہلیت اور دیانت کو ایک نظر میں جانچ لیںگے۔ یہ سب کچھ ہماری اور آپ کی نظروںکے سامنے نہیںہو گا، اس لیے حکومت سے کم از کم یہ استدعا ہے کہ وہ قواعدوضوابط کی پاسداری کے دعووںسے دستبردار ہوجائے۔