متوقع پارٹیاں

جس طرح ناول ’’لارڈ آف رنگز ‘‘ کا آغازایک متوقع پارٹی سے ہوتا ہے، ہمارے ’’لارڈ ‘‘ کے عہدے کا اختتام بہت سی متوقع پارٹیوں (دعوتوں) سے ہورہا ہے۔ ایوان ِ صدر کی دیوار پر تین قدِ آدم پورٹریٹ آویزاں ہیں: ایک صدر صاحب کا، ایک ان کی مرحومہ بیوی کا اور ایک ان کے مرحوم سسر صاحب کا۔ وہاں بانی ِ قوم قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی چھوٹی سے تصویر بھی لگی ہوئی ہے۔تاہم اب تبدیلی کا وقت ہے اور اب اس دیوارپرنہایت خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے نئے صدر ممنون حسین صاحب کا پورٹریٹ لگے گا۔ یہ دعوت کا وقت ہے ۔۔۔ حالانکہ یہ وقت ِدعا ہونا چاہیے کیونکہ سیلابی پانی سے متاثر پندرہ لاکھ افراد امدادی کیمپوں میں نہایت تکلیف دہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ صدر اور ان کے خوشامدی مصاحب، وزیرِ اعظم اور ان کے حواری اور ان اربابِ اختیار کے قریب ہر شخص خوشی سے سرشار ہے ۔ اسی طرح ہنستے گاتے، موج مستی مناتے اور خوشی سے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہوئے زرداری صاحب کو الوداع کہا جائے گا ۔ بہت سی تقاریر ہوںگی جبکہ داد وتحسین کے نعرے ایوان میں گونج رہے ہوں گے۔ رخصت ہوتے ہوئے صدر کے شاندار کارناموں پر روشنی ڈالی جائے گی کہ اُن کی انتھک کوششوںکی وجہ سے بدعنوانی سے پاک اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن ہوا اور ان کے دم قدم سے ہی ایک سو اسی ملین افراد عزت و آبروکے ساتھ کامیابی اور خوشحالی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ جشن منانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اچھے سے منجن سے دانت چمکا لیں تاکہ آپ کی مسکراہٹ ایک ہزار واٹ کی چمک لیے ہوئے ہو۔ ہمارے رخصت ہوتے ہوئے صدر صاحب کی مسکراہٹ بھی بقول امیر خسرو۔۔۔’’جہاں سوزی اگر در غمزہ آئی، شکر ریزی اگر در خندہ باشی‘‘۔۔۔ کی عملی تصویر تھی ۔ اپنا بہترین سوٹ زیب تن کر لیں اور اگر آپ کوئی بہت ہی خاص شخص ہوں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی کلائی میں 46 لاکھ ڈالر (تقریباً 46 کروڑ روپے) مالیت کی گھڑی بھی ہو۔ حیران نہ ہوں، اتنی مہنگی گھڑی ہوسکتی ہے۔ ہمارے سادگی کے پیکر وزیر ِ اعظم صاحب کے پاس Louis Moinet \'Meteoris ہے ۔ شاید اس گھڑی کاکسی کو بھی پتہ نہ چلتا اگر ایم این اے شازیہ مری کی عقابی آنکھیں نہ دیکھ لیتیں کہ جب تیسری مرتبہ حلف اٹھانے کا شرف حاصل کرنے والے نئے منتخب شدہ وزیرِاعظم پارلیمنٹ سے خطاب کرنے جارہے تھے تو اُنھوں نے وہ بیش قیمت گھڑی پہنی ہوئی تھی۔ وزیرِاعظم نواز شریف سے بہت سی امیدیں وابستہ کی گئیں؛ چنانچہ قوم نے ان کا استقبال کیا۔ انھوںنے ناصر کھوسہ کو پرنسپل سیکرٹری مقررکرتے ہوئے پہلی تقرری کی تو اس اچھے فیصلے کو سراہا گیا۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ میرٹ ، نہ کہ سیاسی وابستگی ، کو ترجیح دیںگے ، لیکن جلد ہی معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔ اس کا آغاز پی آئی اے سے ہوا۔ بہت بڑی غلطی اور پھر سپریم کورٹ کی مداخلت اور اس کے بعد پی آئی اے میں لوٹ مار مچ گئی۔ اب اس خشک ہوتی ہوئی گنگا میں اس کے منیجر حسبِ مقدور ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بوئنگ 747 کے ایک ریٹائرڈ پائلٹ کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کا ایک اعلیٰ عہدیدار، جس کا نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل ہے، سابقہ اور موجودہ سیاسی حکومت سے گہرے روابط رکھتا ہے۔ اس سے پہلے وزیرِ اعظم کی طرف سے اپنے خاص آدمیوں کو پی آئی اے میں ذمہ داریاں سونپنے کی کوشش بری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ یہ موضوع گزشتہ کالموں میں زیر ِ بحث لایا جا چکا ہے، اس لیے دوبارہ زرداری صاحب کی الوداعی پارٹی کا ذکر ہو جائے کیونکہ ایک سو اسی ملین افرادپر مشتمل یہ قوم جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے ان کی احسان مند ہے۔ عوام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں نواز شریف صدر زرداری کے اعزاز میں، جن کی مدت آٹھ ستمبر کو ختم ہورہی ہے، عشائیہ دیںگے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تقریب پانچ اور سات ستمبر کے درمیان کسی وقت ہو۔ چشمِ تصور دیکھ سکتی ہے کہ وزیرِ اعظم بڑے نرم الفاظ میں صدر صاحب کو رخصت کریںگے۔ ذرا ٹھہریں، وزیر ِا عظم کے میڈیا مین نے ہماری مشکل حل کر دی۔ اطلاع آئی ہے کہ یہ لنچ ہو گا اس کے لیے سات ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ فی الحال وزیرِ اعظم کے میڈیا ونگ کے سامنے سب سے بڑا سوال وقت، تاریخ اور ان افراد کے چنائو کا ہے جو اس عشائیے میں شرکت کریںگے، کیا ہوا اگر عوام کو دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بے روز گاری اور اب سیلابی آفت کا سامنا ہے۔۔۔ اگر وہ عوام ہیں تو ان کے سامنے عوامی مسائل ہی ہوں گے۔ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ وزیر ِ اعظم کی دعوت قبول کریںگے یا نہیں؟ ایک اور بات، کیا پی ایم ایل (ن) صدر صاحب کو گارڈ آف آنر پیش کرے گی یا نہیں؟ اگر ایسا ہو تو اسے ایک اچھی علامت سے تعبیر کیا جائے گا کیونکہ اس وقت پی پی پی مخالف جماعت کی حکومت ہے۔ اسی دوران اطلا ع ہے کہ زرداری صاحب خود بھی بہت سی الوداعی تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں۔ اب تک وہ پاکستان میں تعینات سفیر حضرات سے مل چکے ہیں۔ تقریب میں نواز شریف اور پی پی پی کے رہنما موجود تھے۔ ویسے حیر ت ہے کہ جس وقت ریاست مہیب مشکلات کے جال میں پھنسی ہوئی ہے ، وزیرِ اعظم ان کاموں کے لیے کیسے وقت نکال لیتے ہیں؟یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اُنھوں نے فیصلے کرنے کا اختیار کابینہ اور اپنے بھائی ، خادمِ اعلیٰ کے سپرد کر دیا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ زرداری صاحب کو اچھے طریقے سے رخصت کرتے ہوئے نواز شریف جیالوں کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب بھی صحافی حضرات، میڈیا ہائوسز کے مالکان، ٹی وی کے اینکرز، سرکاری افسران اور سیاست دانوں او ر سب سے بڑھ کر،نواز شریف ، بشمول وفاقی کابینہ، کے اعزاز میں پارٹی دینے والے ہیں۔ اس پارٹی کو دوسابقہ وزرائے اعظم، سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی رونق بخشیں گے۔ ان دونوں افراد نے بھی پاکستان کو بدعنوانی اور اقربا پروری کی لعنت سے بچانے کے لیے دن رات محنت کی تھی۔ ان کا نام بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ان کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ یہ صدر صاحب کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار ہیں۔ دوسری طرف صدر صاحب بھی خصوصی توصیف کے لائق ہیںکہ اُنھوںنے اتنے نابغۂ روزگار، مجسم ایماندار اور دیانت دار افراد کا انتخاب کیا۔ عزیز قارئین‘ ذرا حوصلہ رکھیں اور آخری خبر سن لیں کہ آصف زرداری نئے صدر ممنون حسین کو بھی ضیافت سے ممنون کریںگے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیںکہ وزیرِاعظم بھی اس میں شرکت کریںگے۔ ایک مرتبہ جب زرداری صاحب چلے جائیں گے تو یہ نہ سمجھیں کہ ضیافتوں کا سلسلہ ماند پڑ جائے گا۔ اس کے بعد ناصر کھوسہ کی، جن کو وزیرِاعظم نے تقریباً تین ماہ پہلے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر چنا تھا، الوداعی پارٹی ہوگی۔ اب ناصر کھوسہ واشنگٹن جائیںگے جہاں وہ عالمی بنک کے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالیںگے اور جہاں دیگر مراعات کے علاوہ سوا دو لاکھ ڈالر سالانہ تنخواہ ان کا انتظار کررہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں