ہر چمکنے والی چیز سونا نہیںہوتی!

کیا آپ جانتے ہیں کہ 46.5 ملین امریکی غریب ہیں؟جب مجھے کسی چیز کی مرمت یا تبدیل کرانے کی ضرورت ہو تو میں گھر کے نزدیک ایک ہارڈ ویئر سٹور پرجاتی ہوں۔ وہاں میری ملاقات ستر سالہ جول سے ہوئی جو ایک خوش مزاج شخص ہے۔ وہ رنگ مکس کرنے میں میری مدد کرتا ہے۔ وہ مجھے بتاتا ہے: ’’کیا آپ جانتی ہیں کہ میں یہاں نیوجرسی میں کیوں کام کررہا ہوں جبکہ میں اپنی بیوی کے ساتھ فلوریڈا میں رہتا تھا؟ دراصل مجھے یہاں اس عمر میں بھی اس لیے کام کرنا پڑتا ہے تاکہ میں اپنی بیٹی اور اس کے چار بچوں کی کفالت کر سکوں۔ ان کو گھر سے نکال کر عملاً سڑک پر پھینک دیا گیا تھا کیونکہ وہ مکان خریدنے کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی قسط ادا نہیںکر سکے تھے۔ ‘‘اب جول کی بیوی برینڈا بچوںکی دیکھ بھال کرتی ہے جبکہ اس کی بیٹی اور اس کا شوہر بہت کم تنخواہ پر کام کرتے ہوئے بمشکل جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جول کا کہنا ہے: ’’جب میں اپنی اعلیٰ ملازمت سے ریٹائر ہوا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہمیں ایسی زندگی گزارنا پڑسکتی ہے۔میرے پاس ایگزیکٹو کا عہدہ تھا، میں اور میری بیوی فلوریڈا کی عمدہ آبادی میں رہتے تھے اور گالف کھیلتے تھے۔ ہم نے بہت عمدہ زندگی بسر کی ہے۔‘‘تاہم ان کو اس عمر میں نیوجرسی آنا پڑا جب ان کی سب سے چھوٹی بیٹی مشکل حالات سے دوچار ہوئی۔ یہ تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے۔ بہت سے افراد سے ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ جب وہ ملازمت چھوڑتے ہیں تو اچانک اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ اب اُنہیں سب کچھ چھوڑنا پڑے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا گھر اور تمام مال اسباب بنک سے لیے گئے قرض سے خریدا گیا ہوتا ہے۔ جب ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بنک کو ادائیگی نہیں کر پاتے اورخود کو دیوالیہ قرار دے دیتے ہیں تو بنک ان کے تمام مال و اسباب پر قبضہ کر لیتا ہے۔ جو کاریگر، اینڈریو، میرے گھر میں باتھ روم کی مرمت کررہا ہے، اس کا کیس بھی مختلف نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے: ’’ہمارا گھر بہت عمدہ تھا، لیکن 2006ء میں میری ملازمت چلی گئی۔ چنانچہ مجھے مکان فروخت کرکے نسبتاً سستے علاقے میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ میں ایک کوالی فائیڈ انجینئر ہوں لیکن اس کے بعد مجھے کوئی ملازمت نہیں ملی؛ چنانچہ اپنے خاندان کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے مجھے مزدوروں کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ مجھے اینڈریو کی کہانی سن کر افسوس ہوا کیونکہ وہ تعلیم یافتہ، سلجھا ہوا اور ایماندار ہے۔ اس کی اجرت معقول ہے اور وہ پیشہ ورانہ طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس کاکہنا ہے: ’’ایسا لگتا ہے اب مجھے مرتے دم تک لوگوں کے باتھ روم ہی ٹھیک کرنا پڑیںگے۔‘‘اس کام میں اس کا بھتیجا گریگ بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ اکیس سالہ گریگ نے مجھے بتایا: ’’میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں لیکن مجھے کالج کے اخراجات کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ تاہم جب گریگ کہیں گیا تو اینڈریو نے مجھے بتایا کہ ’’گریگ سست لڑکا ہے اور سگریٹ نوشی بہت کرتا ہے‘‘۔ اس قلمی تصویر سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس طرح تین نسلوں۔۔۔ ایک دادا، ایک باپ اور ایک نوجوان لڑکے کو مزدوروں والا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ لوگ امریکی معاشرے کے تعلیم یافتہ مگر درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں بے روزگاری کی وجہ سے اپنے معیار سے کم درجے کے کام کرنا پڑرہے ہیں۔ امریکہ بھی تضادات کا مجموعہ ہے۔ جس طرح یہاں کا موسم بہت عجیب ہے، اسی طرح امیر اور غریب کے درمیان تفاوت کی لکیر بھی گہری ہے۔ ایک دن ہم اے سی لگاتے ہیں ، لیکن ہو سکتا ہے کہ اگلے دن ٹمپریچر بیس درجے نیچے گر جائے اور آپ کو ہیٹر لگانا پڑے۔ بالکل اسی طرح، ایک طرف لوگ پر کشش ملازمتوں سے لاکھوں ڈالر کماتے ہیں تو دوسری طرف لوگ بمشکل گزر بسر کرتے ہیں۔جب ہم بلند و بالا عمارتیں اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی جدید کاریں دیکھتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ امریکی بہت امیر ہیں۔ نہیں، ایسا نہیںہے۔ تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں غربت کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ امیر اور غریب کے درمیان فرق بھی بہت چونکا دینے والا ہے۔ ایک امریکی رسالہ لکھتا ہے: ’’اگرچہ بہت زیادہ دولت کمانے والوں کی فہرست میں جو بہت محدود سی ہے‘ قدرے اضافہ ہوا ہے ، لیکن غریب افراد کی تعداد میں دل دہلادینے والا اضافہ جاری ہے۔ ایک سروے کے مطابق پندرہ فیصد امریکی یعنی تقریباً46.5 ملین افراد، خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بے گھر، بے روزگار، یا کم تنخواہ پر کام کرنے والے لوگ ہیں۔ ایک اور بات، اس ملک میں غربت کا احساس مزید شدید ہے۔‘‘ 2008ء کے معاشی انحطاط پر قابو پانے کے لیے تین سال پہلے دیے گئے بیل آئوٹ پیکج سے بھی غربت میں خاطرخواہ کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک اور میگزین لکھتا ہے: ’’معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے پیدا ہونے والی تمام دولت ان لوگوں کی جیبوںمیں جارہی ہے جن کے پاس پہلے ہی دولت کی فراوانی ہے۔ جس طبقے کی آمدنی ایک جگہ ساکن ہو گئی ہے، اس سے تعلق رکھنے والے نوجوان لوگ اس میںہونے والی گراوٹ کو محسوس کر رہے ہیں‘‘۔ ایک اور بہت دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد آج بھی اتنی ہی ہے جتنی تیس سال پہلے ریگن کے عہد میں تھی۔ ماہرین ِ معاشیات کا خیال ہے کہ امریکہ میں غربت میں اضافہ معاشرے کی غریب افراد سے سنگدلی اور بے اعتنائی کی غمازی کرتا ہے۔ لاکھوں امریکیوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنا ناقابل ِ قبول ہے۔ آج نوجوانوں کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ان میں بہت سوں کو کالج چھوڑ کر کوئی ملازمت تلاش کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ اپنے والدین کو سہارا دے سکیں یا اپنے گھروں کو نیلام ہونے سے بچا سکیں۔ آج نیویارک کی میئر شپ کی دوڑ میں سب سے آگے بل ڈی بلاسیو(Bill de Blasio) کا کہنا ہے کہ اس شہر کے نصف کے قریب شہری معاشی طور پر غیر محفوظ ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ رومانیہ کے علاوہ دنیا میں غریب بچوں کی سب سے زیادہ شرح امریکہ میںہے۔ کہنے کو امریکہ کا معاشی حجم سترہ ٹریلین ڈالر ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کی غربت کا حال دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے زعم میں مبتلا ہے!نیلسن منڈیلا نے 1997ء میں کہا تھا: ’’امریکیوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ہم پر اپنی مرضی مسلط کریں اور ہمیں یہ بتائیں کہ ہم کن سے دوستی کریں اور کن سے دُور رہیں؟ ہم اُنہیںدنیا کا پولیس مین نہیں مانتے۔‘‘آج سولہ سال بعد جرمنی کا ایک چوٹی کا میگزین ’’Der Spiegel‘‘ لکھتا ہے: ’’جدید انسانی تاریخ میں کسی ملک کو دنیا میں اتنی اجارہ داری حاصل نہیں رہی جتنی امریکہ کو حاصل ہے۔ آج امریکی اس طرح برتائو کر رہے ہیں جیسے انہیں بلینک چیک مل گیا ہو اور وہ سب کچھ حاصل کرسکتے ہوں۔‘‘ ہو سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک ابھی امریکہ کو اپنے مالی مسائل کا حل سمجھتے ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ خود اپنے شہریوں کے مالی مسائل بھی حل نہیں کر سکا۔ شیکسپیئر نے یقینا سچ کہا تھا: ’’ہر چمکنے والی چیز سونا نہیںہوتی‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں