مسٹر ہرش کے انکشافات

چونکا دینے والے انکشافات لے کر نامور امریکی صحافی سیمر ہرش (Seymour Hersh) ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں۔ اس مرتبہ اُن کا موضوع اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہے۔ مسٹر ہرش نے گارڈین کو بتایا ’’ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے، اس میں رتی بھر سچائی نہیں ہے‘‘۔ اپنے انٹرویو میں Pulitzer Prize جیتنے والے تحقیقاتی رپورٹس کے ماہر صحافی نے امریکیوں کے ساتھ پاکستان کے مشکوک اور مبہم کردار پر بھی بات کی۔ سات سال پہلے مجھے مسٹر ہرش سے پاکستان کے بارے میں بات کرنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے کہا: ’’اگر میں پاکستانی ہوتا تو میں اس بات پر پریشان ہو جاتا کہ بہت مشکل وقت آنے والا ہے۔ ایران کے بعد آپ کی باری آنے والی ہے۔ آپ کا جوہری پروگرام ان کا ہدف ہے‘‘۔ سیمر ہرش کو نہ صرف امریکی سی آئی اے سے معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں بلکہ را، موساد اور آئی ایس آئی سے بھی۔ ایک تحقیقاتی صحافی ہونے کے ناتے اُسے ان خفیہ ایجنسیوں سے رابطے میں رہنا پڑتا ہے؛ تاہم ان کی پیشین گوئیاں ہمیشہ درست نہیں ہوتیں۔ اُنہوں نے مجھے یہ بات نومبر 2006ء میں بتائی تھی لیکن سات سال ہو چکے ہیں، ابھی تک امریکہ نے ایران یا پاکستان پر بمباری نہیں کی۔ درحقیقت حالیہ دنوں میں صدر اوباما نے صدر روحانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا؛ تاہم ہرش کی تمام باتوں کو بے بنیاد قرار دے کر رد کر دینا بھی حماقت ہو گی۔ ہرش کئی عشروںسے پاکستانی حالات سے واقف ہیں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی قریب سے جانتے ہیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا: ’’ایک مرتبہ جب مشرف منظرِ عام سے ہٹ گئے تو سی آئی اے، موساد اور را مل کر پاکستانی کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ جمانے کے لیے کارروائی کریں گے اور اس راہ میں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ مغربی طاقتیں آئی ایس آئی اور پشتونوں کے بارے میں بھی فکرمند ہیں‘‘۔ یقینا ہرش کے آئی ایس آئی سے بھی تعلقات تھے۔ انہوں نے نومبر 2001ء میں ’’نیویارکر‘‘ میں چھپنے والے مضمون میں الزام لگایا تھا کہ القاعدہ 1988ء میں پشاور میں ہونے والی ایک میٹنگ میں قائم کی گئی۔ اُنہوں نے پاکستان کے ایک سابق سفارت کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’آپ جس افسر سے مرضی مل لیں، وہ سب کے سب طالبان کو ’اپنے لڑکے‘ قرار دیںگے‘‘۔ میں نے ان سے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بات کی اور پوچھا کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوتی ہے تو ’’ایٹمی طاقت کا حامل ایران ‘‘ کس رد عمل کا اظہار کرے گا؟ اپنے مخصوص لہجے میں اُنہوں نے جواب دیا۔۔۔ ’’ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔ اس کے لیے آپ کو اسرائیل کے بارے میں خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ چھ سو کے قریب وار ہیڈ بنا چکا ہے۔ وہ علاقے کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے جبکہ پاکستان کے سوا کسی اور اسلامی ملک کے پاس جوہری بم نہیں ہے۔ میں قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلا دوں کہ جو کچھ ہرش نے مجھے بتایا یہ سات سال پہلے کی بات ہے۔ آج بھی بھارت اور پاکستان میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے ڈوریں ہلانے والا کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل ہے۔ ہرش، جو خود بھی یہودی ہے، امریکی میڈیا اور کانگرس پر تنقید کرتا ہے کہ وہ یہودی لابی کے دبائو میں آ کر تمام مسلمانوںکو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں جبکہ اسرائیل کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ہرش نے کہا کہ اُنہوں نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’امریکہ کو خود کو اسرائیل کے مفادات سے الگ کر لینا چاہیے‘‘۔ آج بھی ہرش کا نقطہ نظر امریکی میڈیا کے بارے میں تبدیل نہیں ہوا۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا سخت گیر رویّے اپنا چکا ہے۔ گارڈین کو دیے جانے والے گزشتہ ہفتے اپنے انٹرویو میں ہرش نے کہا کہ میڈیا کو درست راستے پر لانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بعض ٹی وی چینلز کے نیوز بیوروز کو بند کر دیا جائے۔ مسٹر ہرش اس بات پر غصے میں آ جاتے ہیں کہ موجودہ صحافی وائٹ ہائوس کو چیلنج کرنے اور کڑوا سچ بولنے میں ناکام رہتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز پر تنقید کرتے ہوئے مسٹر ہرش کا کہنا ہے۔۔۔’’ وہ مسٹر اوباما کی اس سے زیادہ ناز برداری کرتے ہیں جتنا میراخیال تھا‘‘۔ ایبٹ آباد میں امریکی سیل کمانڈوز کی طرف سے کی جانے والی کارروائی، جس میں بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا، کے بارے میں ہرش کا کہنا ہے کہ یہ ایک جھوٹی رپورٹ ہے، اس میں ذرہ بھر سچائی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک کتا ب لکھ رہے ہیں جس میں وہ امریکی اور پاکستانی اداروں اور ہر دو کے بن لادن سے تعلقات کے بارے میں حقائق کو بے نقاب کریںگے۔ اُنہوں نے ایبٹ آباد کمیشن کی جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لکھی جانے والی 336 صفحات کی رپورٹ، جو مبینہ طور پر الجزیرہ نے شائع کی، کو مسترد کر دیا۔ بہرحال خاطر جمع رکھیں، مسٹر ہرش ایک مرتبہ پھر دھماکہ خیز انداز میں منظر عام پر آئے ہیں اور اس مرتبہ ان کے پاس بہت سے حساس موضوعات پر کہنے کو بہت کچھ ہے۔ مزید انکشافات کا انتظار کیجیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں