مادر پدر آزادی

موسمِ گرما کے آخری ایّام میں، درجہ حرارت خلافِ معمول بڑھ گیا ہے اور اکتوبر میں بھی اگست کا سماں پیداہوچلا ہے۔ لوگوں نے موسم گرما کے ملبوسات پھر نکال لیے ہیں اور آدمی، عورتیںاور بچے، سب لباس کے معاملے میں ایجاز و اختصار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ساحلوں پر ایک مرتبہ پھر سن باتھ لیتے ہوئے اپنی جلد کو سانولا کرنے والوں کا ہجوم ہے۔ یہ لوگ موسم ِسرما کے سرد دنوں کے لیے سورج کی دھوپ کو اپنے بدن میں اس طرح ذخیرہ کرلینا چاہتے ہیں جیسے صحرامیں سفر کے دوران چشموں پر اونٹ اپنے جسم میں پانی ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ اپنے بدن کو فطرت کے عناصر، جیسا کہ دھوپ، کے سامنے عیاں ( بلکہ عریاں ) کرنا آزادی کی ایک علامت ہے۔ ہم آزاد ہونے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں، لیکن زندگی عام طور پر ہمیں آزاد نہیںہونے دیتی، جیسا کہ سردیاں ہمیں بہت سے گرم ملبوسات پہننے پر مجبور کردیتی ہیں اورعادتاً ہم خواہشات کے اسیر رہتے ہیں اور بقول ایک شاعر۔۔۔’’مجبوریِ حیات کو ہم زندگی کہیں‘‘۔ ہماری زندگی ہنگامہ خیز ٹی وی ٹاک شوز، اخبارات کی چیختی ہوئی سرخیوں، نبضیں برہم کردینے والے کالموں، دیوان خانوں میں ہونے والی بحث کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا، جیسا کہ فیس بک اور ٹوئیٹر، کی ہنگامہ آرائیوںسے اس طرح عبارت ہے کہ ہم استاد نصرت فتح علی خان کے شہرہ آفاق گیت۔۔۔’’سانوں اک پل چین نہ آوے‘‘۔۔۔ کی عملی تصویر بن چکے ہیں۔ تاہم عوامی فورمز پربرپا ہونے والا یہ شور ِ قیامت حکمرانوں کی قوت ِ سماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتا ہے۔ گویا ہر کسی کو آزادی ہے۔۔۔ کسی کو شور مچانے کی اور کسی کو دامن ِ سماعت وا نہ کرنے کی۔ مغربی ممالک میں آزادی کے معنی کچھ اور ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بطور ایک فرد، آپ کسی بھی قسم کی زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔ اس میں آپ کو جنس اورلباس کی آزادی ہے، خاندانی اور سماجی قدروں کی کوئی قید نہیںہے۔ امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کی بحث بھی منظوری کے قریب پہنچ چکی ہے کیونکہ وہ دو مردوں یا دو عورتوں کی شادی میں کوئی قباحت نہیں دیکھتے ہیں۔ اس بحث میں کچھ منفی تصورات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، جیسا کہ میسوری سے تعلق رکھنے والے Todd Akins کے ایک بیان نے گزشتہ سال ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اُس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا۔۔۔’’ جہاں تک ڈاکٹروں کی گفتگوسے میں نے اندازہ لگایا ہے، ہر کامیاب زیادتی کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ عورت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ اس کے بعد پھر بحث چھڑ جاتی ہے کہ یہ ’’قانونی زیادتی‘‘ کیا ہے اور اس کی ’’حدود‘‘ کہاںتک ہیں۔ اب ذرا کچھ بات لندن کی ہو جائے ، جہاں ستاسی سالہ ’بڑی بی‘ گزشتہ پچاس سال سے برطانیہ کی ملکہ ہیں۔ ان کی گولڈن جوبلی کی تقریبات بہت دھوم دھام سے منائی گئیں۔ جب محترمہ اپنے شاہی جہاز کے عرشے پر کھڑی تھیں، جبکہ جہاز دریائے ٹیمز سے گزررہا تھا تو بارش ہورہی تھی۔گولڈن جوبلی کی تقریبات کے بعد لند ن اولمپکس شروع ہوگئے۔ ان تقریبات میں ستائیس سالہ شہزادہ ہیری مہمانِ خصوصی تھے اور انہوں نے بھی اپنے دادی اماں کی طرح بہت وجاہت سے تصاویر کھنچوائیں ۔ ان کے سرخ بال بہت نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ اہل ِ برطانیہ نے شہزادے کو ایک ’’جولی ‘‘ شخص قرار دیا۔ تاہم پھر شرارتیں شروع ہوگئیں۔ ان شراتوں کے لیے شاید قدرت کی طرف سے میڈیا کو ایک خصوصی رگ مرحمت کی گئی ہے، چنانچہ وہ موقع دیکھ کر پھڑک اٹھی اور ہالی ووڈ ایک انٹر ٹینمنٹ چینل TMZ(تھرٹی مائیل زون ) نے بے چارے شہزادے ہیری کی ہیرے جیسی، یعنی عریاں، تصاویر نشر کردیں۔ نیٹ پر ڈالی گئی ان تصاویر کو تمام دنیا نے دیکھا۔ لاس ویگاس کے ہوٹل میں جب شہزادے نے اپنے طور پر مناسب سمجھا کہ بلیرڈ کھیلتے ہوئے قباحتوں، یعنی لباس وغیرہ، سے دور رہنا چاہیے تو کوئی فوٹو گرافر بھی موقع کی گھات میں تھا۔ اس کے بعد کہانی یوں بنی۔۔۔’’شرارتی ہیری کو سفر کے دوران کچھ ’مزید شرارتی بچے ‘ مل گئے۔ اُنھوںنے ہوٹل کے وی آئی پی کمرے میں بلیئرڈ کھیلتے ہوئے جوش کے عالم میں کپڑے اتار دیے‘‘۔ اس پر بکنگھم پیلس کی طرف سے صرف یہ رد ِعمل سامنے آیا۔۔۔’’ہم ان تصاویر پر کوئی تبصرہ نہیں کریںگے۔‘‘ TMZ اعلیٰ شخصیات کے اسکینڈلز کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کی گرما گرم خبریں اور ویڈیوز متلاشی ناظرین کو اکثر مایوس نہیںکرتی ہیں۔ 2006ء میں ٹائمز میگزین نے TMZ کو عوام کی پسندیدہ ترین ویب سائٹ ،جبکہ نیوزویک نے اسےBreakout Blog of 2007 قرار دیا تھا۔ امریکہ میں کیپٹل ہل کے ایوانوں ، جہاں دنیا کے بہت سے، خاص طور پر پسماندہ، ممالک کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے، میں کچھ معروضات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاںبم اور امداد روایتی معنی نہیں رکھتے، یا جب کہاجائے کہ ’’خطرہ ہے ‘‘ تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ یہاں سنگ دل قانون ساز انسانی جذبات کو ایک طرف رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ ایساکرتے ہوئے اُنہیں دنیا کے بدعنوان حکمرانوں سے کوئی پرخاش نہیںہوتی، نہ ہی وہ دیکھتے ہیں کہ ان ممالک میں توانائی کا کیسابحران ہے یا خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے، چنانچہ شور مچانے والے عوام سے التماس ہے کہ خاطر جمع رکھیں اور مزید سنتے رہیں۔ ان کے سننے کے لیے بہت سی خبریں جمع ہورہی ہیں۔ اس موضوع پر مزید کچھ کہنے سے پہلے میں آپ سے ایک سوال کرتی ہوں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مغربی ممالک میں خاص طور پر اشراف کے طبقے سے تعلق رکھنے والے آدمی برہنہ کیوں دکھائی دیتے ہیں؟کیا ان کے ڈی این اے میں کوئی خلل ہے ؟یا پھر ان کو ماحول ہی ایسا ملاہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں خواتین پردہ کیوں کرتی ہیں؟ اسی طرح جب آدمی سر پر ٹوپی پہنتے ہیں تو وہ ایساکرتے ہی سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان ہونے کا چڑھاوا اپنے اوپر کیوں چڑھا لیتے ہیں؟کیا وہ مغرب کی عریانیت کے رد ِ عمل کے طور پر خود کو مزید پردوں میں چھپا لیتے ہیں؟کیا یہ وہ ریت ہے جس میں وہ اپنی ستر پوشی کرتے ہیں؟ دو سال پہلے جب امریکہ میں ارکانِ کانگرس نے \'Holy Sea\' میں عریاں ڈبکی لگائی تو امریکی میڈیا نے انہیں بے حد شرمندہ کیا۔ ایک سال پہلے خبر آئی کہ ’’ایف بی آئی‘‘ Sea of Galilee میں رات کی تاریکی میں تیرنے والوں کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق امریکہ اور اسرائیل کے کچھ اراکین نے سمندر میں تیراکی کی اور ان میں سے ایک نے پانی میں چھلانگ لگانے سے پہلے خود کو کپڑوںکے بوجھ سے آزاد کرالیا۔ یہ وہ مقدس سمندر ہے جہاں عیسائی عقیدے کے مطابق مسیح علیہ السلام سے بہت سے معجزات منسوب کیے جاتے ہیں۔ ان میںسے ایک پانی پر چلنا بھی ہے۔ کانگرس کے اراکین کیا ثابت کرنا چاہتے تھے؟ بہرحال یہ کہانی پھر سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں