بدعنوانی سے چشم پوشی

دو اہم شخصیات ، جن کے ہاتھ میں گزشتہ پانچ سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ سے ملک کی قسمت کی باگ ڈورتھی، وہ آنے والے چندہفتوں میں اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے والی ہیں۔ کیا ان کے جانے کے بعد ان کی کمی محسوس کی جائے گی؟اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ سوال کس سے پوچھتے ہیں۔ اگر آپ دفاعی اداروںکے جوانوں سے پوچھیں تو اُن میں سے زیادہ تر اپنے چیف کی تعریف کریںگے، لیکن اگر آپ عام شہری سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ اُسے دہشت گردوں سے تحفظ نہیں مل سکا۔ درحقیقت کراچی سے خیبر تک دہشت گردوںنے ہزاروں پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ جہاں تک دوسری شخصیت، چیف جسٹس آف پاکستان، افتخارمحمد چوہدری صاحب کا تعلق ہے، انہیں عوام کی اکثریت نے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا تھا۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جس نے تن ِ تنہا بدعنوانی اور بدانتظامی کے خلاف جنگ کی۔ انتخابات کے چند ہفتوں بعد ہی نواز حکومت سے لوگوں کو شکایات پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن نواز شریف تھکے ہوئے، مایوس، کنفیوز اور پریشان دکھائی دیتے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ اہم معاملات پر دوٹوک فیصلے کرنے کی بجائے، اُنہیں التوا میں رکھا جائے۔ ذرا ماضی پر نظر دوڑائیں جب امریکہ ،برطانیہ نے بے نظیر بھٹو اور دیگر کے ساتھ مل کربدعنوانی کو تحفظ دینے کے لیے منصوبہ بنایا۔ 2007ء کے موسم ِ گرما میں واشنگٹن میں این آراو کے مندرجات طے کیے گئے۔ ایسا کرتے ہوئے عالمی طاقتوں نے یقینا سوچا ہو گاکہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو جان کی بازی ہارجاتی ہیں (اُنہیں دھمکیاں مل چکی تھیں)تو قدرتی طور پر ان کے شوہر پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ وہ یقینا اتنے نا سمجھ نہ تھے کہ گمان کرلیتے کہ پی پی پی کی قیادت مخدوم امین فہیم کے پاس جائے گی۔آصف زردار ی کو کون نہیں جانتا تھا؟امریکہ کی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی 6 ان سے بخوبی واقف تھیں‘ اور ہماری آئی ایس آئی بھی بے خبر نہ تھی۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ اگر محترمہ کو کچھ ہوجاتا ہے تو ایک دن آصف زرداری‘ وزیر اعظم یا صدر بن جائیںگے؟کیا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ این آر او کو کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر کیاصورت حال پیش آئے گی؟ جب سب کو سوئس مقدمات کا علم تھا تو کیا وہ یہ توقع کررہے تھے کہ زرداری صاحب ملک کے حکمران بنتے ہی اچھے بچوںکی طرح تمام پیسے ملکی خزانے میں جمع کرا دیں گے؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک شخص ، جس پر ملکی دولت لوٹنے کا الزام ہو، وہ سربراہ ِ مملکت کیسے بن سکتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ انہونی بھی ہو گئی۔۔۔ اور سب کی آنکھوںکے سامنے ہوئی۔ لکھا گیا این آراو ایک قابل ِ نفرت معاہدہ تھا اور اسے نافذہونے کا موقع ہی نہیںملنا چاہیے تھا۔ اس بہانے سے بھی نہیں کہ اس کا مقصد جمہوریت کا فروغ ہے کیونکہ بدعنوانی کی بنیاد پر جمہورت راسخ نہیںہواکرتی۔ دنیا میں ایسی کوئی جمہوریت نہیں ہے جو سنگین قسم کی مالی بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والے شخص کو حکمران مان لے۔ اس کے بعد زرداری صاحب نے جن صاحب کو وزیر ِ اعظم بنایا، وہ بڑی مشکل سے نیب سے مک مکا کرکے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ فوزیہ گیلانی بنک کی نادہندہ تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ گیلانی خاندان نے رقم واپس لوٹا دی تھی، لیکن یہ نہیں بتایا گیاکہ ’’کاروبار‘‘ کرنے کے لیے رقم کتنی لی تھی اورواپس کتنی کی تھی؟وزیر اعظم گیلانی ہوبہو دوسرے شوکت عزیز ثابت ہوئے اور زرداری کی ہدایات پر من و عن عمل کرتے رہے کیونکہ ان کا اقتدار اسی تابعداری کے مرہون ِ منت تھا۔ تمام پرانے چہرے، بشمول سیدہ عابدہ حسین، آصف زرداری کے ساتھ ایوان ِ صدر میں دکھائی دینے لگے۔ چوہدری اعتزاز احسن کو بھی اپنے پرانے حریف بابر اعوان کے پہلو میں بیٹھ کر بدعنوانی کے خلاف زرداری صاحب کا دفاع کرنے میں کوئی اعتراض نہ تھا۔ بہرحال ان تمام واقعات میں۔۔۔’’کچھ لوگ پہچانے گئے۔‘‘ والا معاملہ درپیش تھا۔ اس سے پہلے لوگ اُنہیںقومی ہیرو قرار دے رہے تھے لیکن اب تمام ملمع کاری اتر چکی تھی۔ جب جان کیری‘ سینٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے چیئرمین تھے تو اکثر پاکستان کے دورے پر آتے تھے۔ ان کا مقصد یا تو آصف زرداری کی سرزنش کرنا ہوتا تھا یا ان کو تسلی دینا‘ یا کچھ ملین ڈالر امداد دینا، جو اکثر پی پی پی کے رہنمائوں کی جیب میں چلی جاتی تھی۔ امریکہ نے پاکستان کی سیاسی صورت ِ حال کو سنبھالا دینے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کچھ کرے تاکہ وہ دوبارہ امریکہ پر حملہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ جس دوران امریکہ یہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا تھا، ہماری جنگ دراصل بدعنوانی کے خلاف ہونی چاہیے تھی ۔ تاہم یہ تمام تر بوجھ سپریم کورٹ پر آن پڑا کہ وہ بدعنوان سیاست دانوں سے دودوہاتھ کرے۔ نئی بحال ہونے والی عدلیہ سے عوام کی توقعات بہت زیادہ تھیں۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوںنے خود آگے بڑھ کر اپنا کردار کیوںادا نہ کیا؟اُن کے ہاتھ کس نے روکے تھے؟ کیا اس میںبھی کوئی امریکی سازش کارفرما تھی؟اُ س وقت فخر الدین جی ابراہیم کی ایک ای میل آئی: اُن کا کہنا تھا کہ وہ عدلیہ میں سنیارٹی کو نظرانداز کرنے کے خلاف ہیں کیونکہ اس سے غلط افعال کا جواز نکل آتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ترقی دے کر سپریم کورٹ میں تعینات کرتے ہوئے ایک اور سینئر جج کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ تاہم یہ تمام تر صدر صاحب نے سفارشات پر کیا تھا۔ اُس صدارتی ترجمان نے یقین دلایا تھا کہ آئین کے مطابق مشورہ کیا گیا ہے، تو کیا اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے؟اگر ہے‘ تو کیا اس مطلب ہے کہ اعلیٰ ترین شخصیات بھی فیصلے کرتے ہوئے آئین کا خیال نہیں رکھتیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں