’’میں ہوں ملالہ‘‘ اور کرسٹینا لیمب کا کردار

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان کے بہت کم صحافی حضرات کسی نیوز سٹوری کی رپورٹنگ یا اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔ اگر وہ کھوکھلے انداز میں نیم پختہ اور ادھوری کہانیاں پیش کرنے کی بجائے کچھ وقت لگا کر تحقیق کر لیا کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اُس سے مختلف نتائج سامنے لا سکیں جو وہ سرسری انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال سولہ سالہ ملالہ یوسف زئی کی کتاب ’’میں ملالہ ہوں‘‘ پر لکھے اور کیے جانے والے تبصرے ہیں۔ اس کتاب نے امریکہ میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔ چند دن پہلے میں نے ایک مشہور بک سٹور پر اس کو نہایت نمایا ں جگہ پر رکھے ہوا دیکھا۔ اسے نہ خریدنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ میں جب اس کی تصاویر کا جائزہ لے رہی تھی تو میرے دل میں فخر کا احساس بیدار ہونا شروع ہو گیا کہ اس کی وجہ سے دنیا پاکستان پر توجہ دے رہی ہے۔ بہت کم امریکی یہ جاننے کی پروا کرتے ہیں کہ پاکستان کیا ہے یا یہ کہاں واقع ہے۔ وہ ہماری بجائے بھارت کو بہتر انداز میں جانتے اور سمجھتے ہیں۔ یہاں رہتے ہوئے مجھے بعض اوقات اپنے امریکی دوستوں کی تصحیح کرنا پڑتی ہے کیونکہ وہ مجھے بھارتی سمجھنے لگتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو پاکستان کی ایک نوخیز لڑکی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے یا وائٹ ہائوس میں صدر اوباما اور ان کے اہل خانہ سے ملتے دیکھ کر میرے دل میں کیف آفریں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ میں رہنے والے زیادہ تر پاکستانیوں کے جذبات ایسے ہی ہوں گے لیکن ملالہ کی کتاب کی اشاعت نے بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں۔ جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسے ملالہ نے تنہا تصنیف نہیںکیا۔ اس قلمی سفر میں سولہ سالہ ملالہ ڈرائیونگ سیٹ پر اکیلی نہیں ہو سکتی تھی بلکہ اُسے ماہر قلم کار کرسٹینا لیمب، جو پاکستان اور پاکستانیوںکو اچھی طرح سمجھتی ہے، کا تعاون حاصل تھا۔ غالباً ملالہ نے اس کتاب میں درج واقعات اپنی آواز میں ریکارڈ کرائے جبکہ کرسٹینا نے اُنہیں قلم بند کیا۔ میرے خیال میں اس کتاب میں کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں ملالہ نہیں لکھ (لکھوا) سکتی، جیسا کہ ملعون سلمان رشدی کی کتاب پر تبصرہ۔ اپنی پیدائش سے پہلے لکھی گئی وہ کتاب غالباً ملالہ نے پڑھی بھی نہ ہو گی۔ یقیناً ملالہ سلمان رشدی اور اس کی کتاب پر تبصرہ کرنے کی اہل نہیں ہے، لیکن مس لیمب، جس کو کتاب لکھنے کے ایک ملین ڈالر ملے، اور پبلشرز‘ دونوں نے سلمان رشدی کا حوالہ شامل کرنا ضروری سمجھا تاکہ ملالہ کو سیکولر نظریات کی حامل لڑکی کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ پھر احمدیوں اور اقلیتوں کے بارے میں بھی کتاب میں لکھا گیا۔ مجھے اعتراض یہ ہے کہ ملالہ چاہے کتنی ہی باصلاحیت اور ہونہار کیوں نہ ہو، وہ ایسا تبصرہ نہیںکر سکتی، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ مواد اس کے والد اور معاون مصنفہ نے مل کر شامل کیا اور ان کے پیش نظر کچھ اور مقاصد ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلمان رشدی کو اس کتاب میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایسا کر کے اس کتاب کو متنازعہ کیوں بنا دیا گیا؟ کیا مس لیمب اور ملالہ کا والد نہیں جانتے تھے کہ پاکستان میں توہین رسالتﷺ کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں کیا نظریات ہیں؟ ’’شیطانی آیات‘‘ کو ایک طرف رہنے دیں، کیا ملالہ اور اس کے’روشن خیال‘ بننے کے خواہش مند والد نے سلمان رشدی کی طرف سے ’’نیویارک ٹائمز ‘‘ میں پاکستان کے خلاف لکھے گئے شر انگیز مضامین پڑھے ہیں؟ اس کے علاوہ اگر آپ نے ملالہ کی کتاب کے پیچھے کارفرما ذہنیت کو سمجھنا ہو اور اگر آپ کرسٹینا لیمب کی کتاب ’’Waiting for Allah‘‘ پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کتاب کی مصنفہ نے پاکستان کو کبھی معاف نہیںکیا۔ جب سے اُسے پاکستان سے نکالا گیا ہے، وہ اسے زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ بہت سے پاکستانیوںکو یاد ہو گا کہ اکیس سالہ کرسٹینا لیمب، جو اُس وقت پاکستان میں ’’Financial Times‘‘ کی نمائندہ تھی‘ شراب کے نشے میں دھت ہو رقص کرتی تھی اور اعلیٰ حکام ایک شہزادی کی طرح اُس سے برتائو کرتے۔ اسے کسی طرح یہ خبر ملی کہ فوج سول حکومت کے خلاف ایکشن لینے والی ہے؛ چنانچہ اس نے اگلے دن اپنے اخبار میں یہ دھماکہ خیز کہانی لگا دی جس کی پاکستان حکام نے سختی سے تردید کی۔ پھر اخبار کو کہانی واپس لینا پڑی اور اس کے ساتھ ہی مس لیمب کی پاکستان سے چھٹی ہو گئی۔ اس توہین آمیز انخلا کو وہ کبھی نہیں بھول پائی۔ اس نے لندن جا کر \"Waiting for Allah\" لکھی اور اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے اُس وقت کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کئی الزامات بھی عائد کیے۔ کرسٹینا لیمب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کی رپورٹنگ کرنے پاکستان آئی تھی۔ اُسے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ پاکستان کے متمول لوگ نہایت دل پھینک ہیں اور تمام اشراف پہلی ہی نظر میں اس پر فریفتہ ہو رہے ہیں۔ ہر کوئی اس کے حسن اور ذہانت کی تعریف کر رہا تھا۔ یقینا اعتزاز احسن بھی اُس کے مداحوں میں شامل ہوں گے لیکن جب اُس نے پاکستان میں فوج کے سول حکومت کے خلاف ایکشن لینے کی رپورٹ چھاپی تو چوہدری صاحب سخت مشتعل ہو گئے۔ وہ یہاںسے چلی گئی لیکن جب اکتوبر 2007ء میں محترمہ واپس پاکستان آئیں تو مس لیمب سائے کی طرح اُن کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ محترمہ دہشت گردی کے ایک واقعے میں جان کی بازی ہار گئیں۔ یہ کوئی راز کی باتیں نہیں‘ صحافتی حلقے ان سے آگاہ ہیں، تو پھر ملالہ کی کتاب لکھنے کے لیے کرسٹینا کا انتخاب کس نے کیا؟ اُسے سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون نے، جو اس وقت ملالہ کے سرپرست بنے ہوئے ہیں اور وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں، تو منتخب نہیںکیا تھا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملالہ کا والد بھی اپنے مخصوص عزائم رکھتا ہے اور وہ اپنی بیٹی کی عالمی مقبولیت کو مالی مفاد میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ کتاب کے بیک کور پر ان کی تصویر ہے جبکہ ملالہ تحسین آفرین نظروں سے اپنے باپ کو دیکھ رہی ہے۔ ایک باپ اپنی بیٹی کی رہنمائی کرتا ہے لیکن مالی مفاد کے لیے اپنا مذہب، اپنی تہذیب و ثقافت کو فراموش کرنے سے پہلے اُنہیں بہت کچھ سوچنا چاہیے تھا۔ اُنہیں یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہیے کہ وہ اور ملالہ بہرحال اس ملک، پاکستان، کے ہی شہری ہیں اور اُنہیں ایک دن شاید لوٹ کر یہیں آنا پڑے۔ چند دن پہلے خبر گردش میں تھی کہ ملالہ کی کتاب پر ملک کے نجی تعلیمی اداروں نے پابندی لگا دی ہے۔ نجی سکولوں کی تنظیم کے صدر ادیب جادوانی کا کہنا ہے ۔۔۔’’اب ملالہ کے بارے میں سب کچھ عیاں ہو چکا ہے۔ میرے نزدیک وہ مغرب کی نمائندگی کر رہی ہے‘‘۔ نجی سکولوں کی تنظیم کے چیئرمین کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ کتاب کی اشاعت سے پہلے تک ملالہ بچوںکی تعلیم کے استعارے کے طور پر دیکھی جاتی تھی لیکن اب وہ مغربی طاقتوں کے مہرے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں