میں دو دنیائوں،امریکہ اور پاکستان میں رہتی ہوں اوران دونوںکے حوالے سے ذہن کے نہاں خانوں میں بہت سی یادیں ہیں؛ تاہم اس کالم میں مَیں اپنے قارئین کے ساتھ صرف صدرکینیڈی جو اپنے نام کے مخفف حروف 'جے ایف کے‘ سے جانے جاتے ہیں کے حوالے سے کچھ یادیں شیئرکروں گی۔ پچاس برس قبل بائیس نومبر 1963ء کواُنہیں اُس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ ڈیلے پلازہ ٹیکساس کے قریب صدارتی کانوائے میںسفر کر رہے تھے۔ اُن کے ساتھ اُ ن کی بیوی جیکولین کینیڈی اورگورنرٹیکساس بھی تھے۔جمعے کے روزدن کے ساڑھے بارہ بجے قاتل اوسوالڈکی چلائی ہوئی گولی نے امریکہ کو بدل دیا۔ صدر کینیڈی کنگ آرتھرکے دیومالائی قلعے کیمولٹ کے فولاد صفت انسان تھے۔دل یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ایسے انسان کو لی ہاروے اوسوالڈ نے پندرہ ڈالر سے خریدی گئی گن سے گولی مارکرہلاک کردیا۔
گزشتہ ہفتے ٹی وی کے تقریباً تمام اہم اینکرز ڈیلاس( ٹیکساس) جہاں کینیڈی کو گولی ماری گئی تھی، آئے۔سب ایک دوسرے سے یہ سوال کر رہے تھے کہ 'جے ایف کے‘ کو گولی مارنے کی اطلاع آئی تو تم کہاں تھے؟مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں لاہور میں سینئر کیمبرج جسے آج کل اولیول کہا جاتا ہے‘ کی طالبہ تھی۔ صدرکینیڈی کی بے وقت موت جو اُس وقت دنیا کی بہت بڑی خبر تھی، کی وجہ سے میں کئی دن اپنی کتابوں پر توجہ نہ دے سکی۔ اُس وقت تک پاکستان میں ٹی وی نہیں آیا تھا؛چنانچہ فوری خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ اُن دنوں پاکستان اور امریکہ میں قریبی روابط تھے۔ ایک سال پہلے، یعنی 1962ء میںجیکی کینیڈی لاہورآچکی تھی۔ اس کی خوبصورتی اورفطری نفاست نے جمالیاتی ذوق رکھنے والے زندہ دلانِ لاہورکو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
میںنے 'اے بی سی‘ پر ایک گھنٹے پر محیط جیکی کینیڈی کا خصوصی پروگرام دیکھا۔اُس نے ساٹھ کی دہائی کی بہت سی باتیں دہرائیں اوراُن لوگوںکا ذکرکیاجنہیں وہ جانتی تھیں۔چونتیس سالہ جیکی کی آوازمیں لرزش نمایاں تھی کیونکہ اس پروگرام کی ریکارڈنگ سے چارماہ پہلے اُن کے شوہرگولی کا نشانہ بن چکے تھے۔ ٹی وی چینل کی خواہش پروہ اپنے قابل اعتماد دوست Arthur Schlesinger کو انٹرویودینے کے لیے تیار ہو گئی تھیں۔ آرتھر ان کے مرحوم شوہرکا بھی معاون رہا تھا۔ فرسٹ لیڈی نے پہلی بار وائٹ ہائوس آمدکے حوالے سے بہت سی شخصیات کو یادکیا۔ جیکی نے اپنے مخصوص لہجے میں بتایا کہ نومبر 1961ء کو بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو اپنی جواں سال بیٹی اندرا گاندھی کے ساتھ وائٹ ہائوس آئے تھے۔صدرکینیڈی نے''نہرو کے آخری ایام ‘‘ کے حوالے سے ایک کتاب میں تبصرہ لکھا کہ ''وہ کسی بھی سربراہ کا بدترین دورہ‘‘ تھا۔کینیڈی لکھتے ہیں:''ایسا لگتا تھا کہ کوئی سادھو بازار حسن میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو‘‘۔اس دورے کے دوران جب نہروڈائننگ روم میں لنچ کررہے تھے، جیکی نے اندرا گاندھی کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ وہ کہتی ہیں کہ اندرا گاندھی دبلی پتلی اور خشک مزاج لڑکی تھی۔
'' نیویارک ٹائمز ‘‘ کے مورین ڈوڈ نے جیکولین کینڈی کے بارے میں لکھا: '' وہ انتہائی پر مزاح، نفیس، باوقار اور پرکشش خاتون تھیں۔ ہم نے کسی خاتون کواپنے سیاست دان شوہر کی اس طرح معاونت کرتے نہیں دیکھا تھا۔وہ خودنمائی، منافقت، طاقت اور شہرت کے بھوکے اورکم ظرف افراد کو ناپسند کرتی تھیں۔ اُنھوںنے اپنی خوبصورت بہن لی ریڈزیول کے ساتھ 1962ء میں پاکستان کا بھی دورہ کیا۔ وہ پاکستان میں امریکی سفیر والٹر میک کونا غی کو ناپسند کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والٹرکوپاکستان کی ثقافت کا مطلق علم نہیںہے۔درہ خیبر کا دورہ کرنے کے فوراً بعد جیکی نے اپنے شوہرکو خط لکھا:' والٹر پاکستان جیسے ملک کے لیے انتہائی ناکام سفارت کار ثابت ہورہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اُنہیں علم ہے کہ ایک سفارت کار کا کیا کام ہونا چاہیے‘۔ پھر اُنھوںنے اپنے شوہر کو کچھ متبادل افراد کے نام بھی تجویز کیے جنہیں پاکستان میں تعینات کیا جاسکتا تھا؛تاہم وہ 1966ء تک پاکستان میں خدمات سرانجام دیتے رہے‘‘۔
جیکولین کینیڈی نے فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کو ''خود پسند‘‘ جبکہ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو ''ناقابل ِ اعتماد‘‘ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سراغ رسانی کے جدید آلات نے لوتھر کنگ جونیئر کے خواتین کے ساتھ روابط آسان بنا دیے ہیں۔ امریکہ کے نائب صدر لیڈن جانسن جوصدرکینیڈی کی ہلاکت کے بعد صدر بنے کے بارے میں اپنے شوہرکے الفاظ یاد کرتی ہیں:''او خدایا! کیا تم تصور کرسکتے ہو کہ اگر یہ شخص امریکہ کا صدر بن گیا توکیا ہوگا؟‘‘جیکی نے اپنی ساس کو Tiger Mother قرار دیاتھا۔ جیکولین کواس وقت شدید حیرت ہوئی جب انڈونیشیا کے صدر سوکارنو نے اُنہیں وہ ''فن پارے‘‘ دکھائے جو وہ واشنگٹن سے خریدکر لائے تھے۔۔۔ یہ سب نیم عریاں خواتین کی تصاویر تھیں۔ جیکی نے انٹرویو دینے والے کو بتایا:''مجھے جے ایف کینیڈی نے آنکھ کے خفیف اشارے سے ہنسنے سے منع کر دیا جبکہ اس دوران صدر سوکارنو خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے۔ پھر ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ میری دوسری بیوی ہے‘‘۔
آج جب میں جیکی کو یاد کررہی ہوں تو کئی دہائیاں قبل کا وہ منظر بھی میری نگاہوں کے سامنے تازہ ہورہا ہے جب وہ لاہور میں تھیں۔ صدر ایوب نے اُن کی اور ان کی دلکش بہن کی خوب خاطر مدارت کی۔ ساٹھ کی دہائی کا لاہورکتنا عمدہ تھا!''ہارس اینڈ کیٹل شو‘‘ میں ایچی سن کے گھڑ سوارنوجوان طلبہ سبز پگڑیاں باندھے،ہاتھ میں نیزے تھامے،پرچم لہراتے ہوئے وی آئی پی اسٹینڈ کے سامنے سے گزر رہے تھے اور پولیس بینڈ وجد آفرین دھنیں بجا رہا تھا۔دیکھا جا سکتا تھا کہ جیکی اوراس کی بہن پاکستانیوں کے زندگی سے بھر پور جذبوں سے بے حد متاثر ہورہی ہیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ پاکستانی نہایت عمدہ اور منظم طریقے سے اس طرح کے شوزکا اہتمام کرسکتے ہیں۔۔۔ یقیناہم ایک زندہ قوم تھے۔جب فورٹریس سٹیڈیم پررات کی تاریکی نے سایہ ڈال دیا تو امریکی خاتون اول نے اپنی جواں سال بہن اوردوسرے مہمانوں کے ساتھ ٹیٹو شو (Tattoo show) دیکھا۔ اس شوکی خاص بات جرأت مند موٹر سائیکل سواروں کاآتشیں گولوں کے درمیان سے گزرنے کا خطرناک مظاہرہ تھا۔اُس وقت امریکی میڈیا میں جیکی کے دورے کے حوالے سے پاکستان کو نمایاں جگہ دی گئی، تصاویر اور مضامین کی مدد سے اس کے کلچرکو اجاگرکیا گیا۔کتنے اچھے تھے وہ دن جب ہم فخر سے دنیا کو اپنا کلچر، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت سے روشناس کراتے تھے۔ ہمارے مالی حالات کبھی اچھے نہ تھے لیکن ہم خود اعتماد قوم تھے اورہمیں اپنی پاکستانیت پر فخر تھا۔
چھ سال پہلے میں بوسٹن میں کینیڈی لائبریری میںگئی تاکہ ماضی کے کچھ نقوش تلاش کرسکوں ۔ میں نے پوری لائبریری چھان ماری، وہاں کینیڈی خاندان کے حوالے سے بہت کچھ تھا لیکن جس کی مجھے تلاش تھی۔۔۔ پاکستان کے حوالے سے کچھ۔۔۔ وہ نہ ملا۔ پھر میںنے وہاں وہ تحائف دیکھے جودنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک سے کینیڈی کو ملے تھے۔ان تحائف کودیکھ کرمجھے اچانک یاد آیا اور اس یاد نے میرے دل پر بجلی سی گرا دی کہ ہمارے راولپنڈی والے گھر میں چاندی کے فریم میں جیکی کی تصویر تھی، اس تصویر پراس کے دستخط بھی موجود تھے لیکن اب یہ تصویر کہیںکھو چکی ہے۔۔۔۔شاید جس طرح امریکہ نے پاکستان کو کھو دیا، اسی طرح پاکستان نے بھی امریکہ کو کھو دیاہے۔ آج میرا تعلق ان دونوں دنیائوں سے ہے،پاکستان اورامریکہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایک تعلق رکھتے ہیں لیکن۔۔۔۔