خوش فہمی سے خود شناسی تک

ہم ایک عظیم ترین قوم ہیں۔۔۔ یہ ملک آسمانی طاقتوںکی خصوصی عطاہے، عنقریب تمام دنیا پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا، ہم رمضان میں ہونے والا کرکٹ میچ کبھی نہیںہارسکتے، پاکستانی کھلاڑی انتہائی باصلاحیت ہوتے ہیں، بس کچھ نامعلوم وجوہ کی بنا پرمہارت حاصل نہیںکرپاتے،ایک پاکستانی مجاہد چھ دشمنوںکے خلاف لڑسکتا ہے(تعداد کم زیادہ ہو سکتی ہے)۔۔۔ ہماراملک جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے اور عالمی معاملات میں ہماری اہمیت نظر انداز کی ہی نہیں جاسکتی(اگرکوئی کرے گا تو وہ اپنے نفع نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا)۔۔۔ پوری دنیا کے افراد رات دن پاکستان کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ کب اُڑ کر اس سنہری دھرتی پر قدم رکھیں اور اپنی قسمت پر ناز کریں،اس کے بعض شہروں کو دیکھ کر ہی اپنے پیدا ہونے کی سند مل پاتی ہے، بصورت ِ دیگراپنے ہونے کی 'امید‘ نہ رکھیں۔۔۔ ہمارے عظیم سائنسدان کا بنایا ہوا ایٹم بم بھارتی ایٹمی ہتھیاروں سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں اصلی 'مال‘ ڈلا ہوا ہے۔۔۔ پاکستانی طالبِ علم بیرونی یونیورسٹیوں میں جاتے ہی اپنے علم و فن کی دھاک بٹھادیتے ہیں اور بے چارے اساتذہ جو بمشکل پی ایچ ڈی اور کوئی دو تین درجن کتابوں اور کئی سو ریسرچ پیپرز کے مصنف ہوتے ہیں ان سے آنکھیں چار نہیں کرپاتے۔۔۔ مذہب کے حوالے سے تمام اسلامی دنیا میں ہمارے نظریات ہی درست ہیں۔۔۔وغیرہ (تاریخِ پاکستان 1947ء تا 2000ء) تمام دنیا ہماری دشمن ہے۔۔۔ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، روس، بھارت، فرانس، وغیرہ ہم سے خائف ہیںاور ان کے ادارے ہمہ وقت ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔۔۔ تمام مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہیں اورہمارے ہاں پائی جانے والی فرقہ واریت اور لسانی تفاریق یہود و ہنودکے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں۔۔۔ دہشت گردی دراصل امریکی اور یہودی ایجنٹ کررہے ہیں۔۔۔ عالمی ادارے پولیو کے قطروںکے ذریعے ہماری خصوصی طاقتوں کی بیخ کنی کرنے کے درپے ہیں۔۔۔ انگریزی کی وجہ سے ہماری صلاحیتوںکو زنگ لگ رہا ہے وگرنہ اگر سائنسی علوم اردو میں پڑھائے جائیں تو سائنسی ایجادات تو ہمارے گھڑے کی مچھلی ہیں۔۔۔ہمارے کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات عالمی سازش ہیں۔۔۔پیپر کرنسی کی وجہ سے ہماری معیشت خسارے میںہے(سونے میں ہوتی تو ہم بے فکری سے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہوتے)۔۔۔ہمارے سیاست دان غیر ملکی طاقتوںکے ایجنٹ ہیں اور وہ اسلامی نظام نافذ نہیںہونے دیتے وگرنہ اب تک ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں، وغیرہ (تاریخِ پاکستان 2000ء سے اب تک)
عزیز قارئین! ہماری چھ عشروں پر مشتمل تاریخ صرف ان دوصفحات پر ہی مشتمل ہے۔اگر مزید مختصر کرنا چاہیں تو جو ادبی ترکیب ذہن میں آتی ہے اسے ''بیم و رجا‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس دوران پیش آنے والے کچھ واقعات جیسے مختلف حکومتوں کا بننا بگڑنا، جنگیں لڑنا، سیاسی اتحاد اور سیاسی کشیدگی کے عمل اور رد ِعمل کا جاری رہنا، امریکہ سے قرض بھی لینااور اُسے گالیاں بھی دینا، کسی کو شہید کہنا، کسی کو مرتد قرار دینا، سطحی باتیں ہیں۔ ہماری داخلی دنیا کا حال صرف انہی دو صفحوں سے عبارت ہے۔ اگر کسی اور دنیا سے آنے والے غیر جانبدار مبصر کے سامنے اپنا کیس مع یہ تاریخ رکھیں تو وہ ان دونوںپر سرخ روشنائی سے لکیر کھینچتے ہوئے ہمیں بتائے گا کہ ہماری تاریخ کا صفحۂ اول خوش فہمی سے عبارت ہے اورصفحہ دوم غلط فہمی سے۔ اس کے علاوہ فی الحال ہمارے قومی نامۂ اعمال میں اور کچھ نہیں۔ 
کیا ہم ہمیشہ انہی دو رویوں کے شکار رہیں گے؟کیا ہم کبھی حقیقت پسند ہوکر سوچیں گے یا نہیں؟اگر آپ بیرونی دنیا میں کسی ملک میں سفرکریں یا ان افراد سے کچھ دیر بات کرلیں جن کا کسی اعتبار سے بیرونی دنیا سے کچھ رابطہ ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ گزشتہ چھ عشروںہم ریت کے گھروندوںکو شیش محل سمجھ رہے ہیں۔ آج کے پاکستان میں مایوسی کا گہرا ہوتا ہوا عنصر بھی انہی دو رویوں کے باعث ہے۔ اس عالم میں میڈیا اور نظام ِ تعلیم کے ذریعے عام پاکستانیوں خاص طور پر نئی نسل کو یہ بات سمجھائی جائے کہ التباسات کی دنیاسے، جس نے ہمیں خوش فہمی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا، نکل کر حقائق کا سامناکریں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیاکے ایک سو نوّے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہاں، آبادی کے لحاظ سے یہ چھٹا ملک ضرورہے اور ہم ہمہ وقت اس کوشش میں مصروف ہیںکہ کسی طرح ایک ارب سے زائد آبادی والے ممالک بھارت اور چین جیسی رکاوٹوں کوعبور کرتے ہوئے اس دوڑمیں پہلی پوزیشن پر آجائیں اور اگر اس ضمن میں ہماری محنت ِ شاقہ پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس میں'دیر ہے اندھیر نہیں‘۔اس کے سواہمارے کریڈٹ پر اورکچھ نہیں۔ 
جن مصائب کی بھٹی میں ہم جل رہے ہیں، اگر اس کی تپش ہماری نفسیات پرچسپاں خوش فہمی اور غلط فہمی کا زنگ اتار دے تو سمجھ لیںکہ یہ کوئی عذاب نہیں بلکہ خودشناسی تک کا ایک سفر ہوگا۔ اس سفر میں ٹھوکریں لگتی ہیں جولگ بھی رہی ہیں، اس لیے اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے ۔ آج پاکستانیوںکو جن مسائل کا سامنا ہے، قوموںکی زندگی میں ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں، مایوسی کی ضرورت نہیں، صرف ہمیں سازشی فیکٹریوںکے مالکان، جن میں سے اکثر ہمارے میڈیا کے سرخیل ہیں، کی باتوںکو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے کی پالیسی اپناناہوگی اور نئی نسل کو زیور ِ تعلیم سے آراستہ کرناہوگا۔ ہمار ا تعلیمی نظام نہایت ناقص ہے لیکن ہمارے پاس مایوس ہونے کا آپشن موجود نہیں ، ہم اس 'عیاشی ‘ کے متحمل نہیںہوسکتے ۔جب تک ہمارا تعلیمی نظام رٹے بازی کی لعنت سے جان نہیں چھڑالیتا(ہم انتظار کریںگے تیرا قیامت تک!)تب تک ہم میٹرک یا او لیول سے کم درجے کے بچوں کو' او پی آر‘(ون پیج ریڈنگ ) کی عادت ڈالیں اوراُن سے صرف اسی عبارت کے حوالے سے بات کریں۔ یہ عبارت ہر اس زبان میں ہوسکتی ہے جو آپ چاہتے ہیںکہ آپ کے بچے سیکھیں اور جو اُنہیں عملی زندگی میں کام دے۔ آپ اسے کچھ وقت دیں تاکہ وہ اسے پڑھ سکے اور پھر کچھ دیرکے بعد اسے کہیں کہ وہ اس کے مفہوم کا اظہار کرے۔ اس سے کچھ سوال وجواب بھی کریں۔ یہ باقاعدہ تعلیمی نظام کے متوازی ایک نظام ہے جوبہت کامیابی سے انسان کی شخصیت کے جوہرکو اجاگر کرسکتا ہے۔ اس سے بچوں کی تجزیاتی اور تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوسکتی ہیں۔ اگر ہم آبادی میں بے ہنگم اضافے کی بجائے، جس میں بچے توجہ سے محروم رہتے ہوئے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، کنبہ کم رکھیںاور ہر بچے کو انتہائی اہم شخصیت سمجھتے ہوئے پوری توجہ اُس کی تعلیم و تربیت پر دیں، جس کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں تو اگلے دو عشروں تک پاکستان کے حالات تبدیل ہونا شروع ہوجائیںگے۔ اس کے لیے سیاست دانوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، اُنہیں ان کا کام کرنے دیں، آپ پاکستان اور اس کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگیوںمیں تبدیلیاں پیدا کریں۔یقین رکھیں کہ ہماری تاریخ کا پہلا صفحہ بھی غلط ہے اور دوسرابھی۔ ہم دنیا کا ایک عام ملک ہیں اور ہماری زندگیاںعام انسانوں کی طرح ہی بسر ہوتی ہیں۔اس بات سے آپ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ہم مسلسل قرض لے کر عیاشی نہیںکرسکتے۔ دنیا میں خودنمائی کرنے والے بھکاریوں کو عزت تو کجا خیرات بھی نہیں ملتی۔ یہی اس دنیا کا قانون ہے، ہم جتنی جلدی اس کو سمجھ لیںاتنا ہی بہتر ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں