پی سی بی چیئرمین کا چنائو اور کردار

اب جب کہ بینکار، ٹی وی مبصر اور صحافی ذکا اشرف، ہمارے نجم سیٹھی، کی جگہ پی سی بی (پاکستان کرکٹ بورڈ) کے چیئرمین بن گئے ہیں‘ لیکن تبصروں، تنقیداور اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ آٹھ ماہ پہلے ذکااشرف کی تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ آج اسی عدالت کے دو جج صاحبان نے اُنہیں بحال کردیا ۔ہم عدالت کے احترام اور توہین ِ عدالت کی پاداش میں طلب کیے جانے پر خائف ہو کر لب بندی کرنے پر مجبور ہیں؛ چنانچہ عدالت کے فیصلے کو ایک طرف رکھ کردیکھیں کہ پی سی بی جیسے اہم ادارے کو اس ملک کے سابق‘ موجودہ صدراو ر وزیراعظم نے کیسا کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ 
رشید محمود ایک انگریزی روزنامے میں لکھتے ہیں۔۔۔'' چودہ سال سے پی سی بی کو ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ اس دوران اس کی زمام ِ اختیار کبھی کسی فوجی جنرل، کسی سفارت کار، کسی طبی معالج(ماہر ِ امراضِ گردہ)، کسی سابقہ کرکٹر، کسی بنکار اور کسی سیاسی تجزیہ کار کے ہاتھ رہی ہے۔اب کس کی باری ہوگی؟‘‘کالم نے نگار نے اس ایک جملے میں نہایت اختصار کے ساتھ یہ واضح کردیا ہے کہ پی سی بی کے ساتھ ہمارے حکمرانوںکا رویہ کس حد تک غیر سنجیدہ تھا اور اس پر کیسے کیسے چیف مسلط کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ تمام افراد زندگی کے مختلف شعبوںسے تعلق رکھتے ہیں؛ تاہم ان کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنانے کے پیچھے ایک قدر مشترک تھی۔۔۔ ان کی کرکٹ کی بجائے کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی ضرور تھی۔ 
چند ماہ قبل، میںنے لکھا تھا کہ کرکٹ کوبہتر بنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے ''سر پرست ِ اعلیٰ‘‘ کو کنٹرول کیا جائے، لیکن پاکستان میں کرکٹ کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پی سی بی کا سرپرست ِ اعلیٰ ہمیشہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ ایک مثالی صورت ِ حال میں، جبکہ اس کی کمیٹیاں فعال ہوں اور پیشہ وارانہ انداز میں اپنا کام کررہی ہوں تو سرپرست ِ اعلیٰ کا کردار صرف علامتی ہوتا ہے۔ وہ ایک وی آئی پی باکس میں کبھی کبھار میچ دیکھ لے، دورہ کرنے والی غیر ملکی ٹیموں کے ساتھ ڈنرپر میزبانی کے فرائض سرانجام دے،کیک وغیرہ کاٹ لے اور ٹیم کی فتح پر مسرت کا کوئی پیغام دے دے۔۔۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
سرپرست ِ اعلیٰ اورعدلیہ کو جاننے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی تقرری اب ماضی کی طرح عمل میںنہیںلائی جاسکتی ، بلکہ اس کا انتخاب کیا جاتا ہے؛ تاہم کچھ ماہ پہلے کرکٹ بورڈکے چیئرمین کے لیے کرایا جانے والا انتخاب نام نہاد کارروائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو سلام کہ اس نے ذکااشرف کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا تھاکیونکہ عدالت کو انتخابی عمل میں شفافیت کا فقدان دکھائی دیا تھا۔ اس فیصلے کو بہت سے حلقوںنے مثبت قرار دیتے ہوئے عدالت کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا، لیکن اس مرتبہ عدالت نے اپنے ہی فیصلے کو واپس لے کر ذکا اشرف کو چیئرمین کے عہدے پر بحال کردیا۔ 
جنرل ضیا، بے نظیر بھٹو، نوازشریف، پرویز مشرف اور آصف زرداری کی طرف سے جتنے بھی پی سی بی کے چیئرمین چنے گئے، انہیں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ان کے چنائو میں کرکٹ کا کھیل پہلی ترجیح نہیںتھا۔ وہ دراصل سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اس پرکشش عہدے سے نوازے گئے تھے کیونکہ چیئرمین پی سی بی بننے کا مطلب دولت ، شہرت اور اہل ِ خانہ کے ساتھ غیر ملکی دورے اورشاپنگ کی گنگا سے ہاتھ دھونا ہوتا ہے۔ وزیراعظم‘ ذکا اشرف کی بحالی کا خیر مقدم کریں گے کیونکہ وہ نواز لیگ کی رکن ِقومی اسمبلی بیگم عشرت اشرف کے بھائی ہیں اور وہ محترمہ چوہدری جعفر اقبال کی زوجہ اور زیب جعفر کی والدہ ہیں۔ یہ دونوں باپ بیٹا نوا ز لیگ کے اہم رہنما ہیں۔ افسوس ، کہ کالم میں ایک خاندان کا ذکر کرنا پڑا لیکن پاکستان میں خاندانی روابط کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیںہوتا۔ اگر آپ بہت زیادہ دولت مند اور سیاسی طور پر طاقتور خاندانوں کی طرف دیکھیں تو اندازہ ہو گا، جیسا کہ ایک پنجابی محاورہ ہے۔۔۔ ''خاناں دے خان پروہنے‘‘ (طاقتور کامہمان طاقتور ہی بنتا ہے)۔ 
ذکا اشرف کا پہلی مرتبہ چنائو اس لیے ہوا تھا کہ وہ زرداری صاحب کے قریبی دوست تھے۔ تاہم جب ذکا کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا گیا تو میڈیا کی اہم شخصیت اور ہمارے دوست نجم سیٹھی کو چیئرمین بنا دیا گیا تاکہ وہ اپنے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ملک میں کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامات کر سکیں۔ نجم سیٹھی اپنے اس کردار سے خوش نہیںتھے کیونکہ یہ ادارہ نو سو کے قریب ملازمین کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ ان کی تعیناتی پر کچھ ارکان ِ پارلیمنٹ نے بھی کھلے عام اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف ''من پسند ‘‘افراد کو اہم عہدے سے نواز رہے ہیں۔ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا پی سی بی کے چیئرمین کے لیے درست شخص کا چنائو واقعی بہت مشکل کام ہے؟ آپ میں سے شاید بہت کم افراد کو1954ء کا موسمِ گرمایاد ہوگا جب اُس وقت کے گورنر پنجاب میاں امین الدین نے، جوبی سی سی پی کے سابقہ چیئرمین تھے‘ انگلینڈ کے دورے کے لیے جانے والی پہلی ٹیم کا چنائو کس طرح کیا تھا۔ کیا ان کی اُس وقت کی پیشہ ورانہ اور مخلصانہ حکمتِ عملی کا آج کوئی متبادل دکھائی دیتا ہے ؟یہ وہ اہم سیریز تھی جب پاکستان نے پہلی مرتبہ انگلینڈ کی مضبوط ٹیم کو ان کے میدانوں میں ہرا کر تاریخ رقم کی ۔ مشہور رسالے ''وزڈن ‘‘ کے مطابق۔۔۔''پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں سترہ اگست ایک یادگاردن کے طور پر جگمگاتا رہے گا کیونکہ پاکستان وہ واحد ٹیم بن گئی تھی جس نے پہلے ہی دورے میں کرکٹ کے بانیوںکو ہرا دیا تھا۔‘‘میں بھی اس وقت اوول کے میدان میں موجود تھی او ر مجھے یاد ہے کہ میدان میں کتنا جوش و خروش تھا۔ انگلینڈ کی آخری اننگز میں فضل محمود نے لاجواب بائولنگ کی۔ ان کی بہت سی گیندیں کم و بیش ''اَن پلے ایبل ‘‘ تھیں۔ کاش اس کی ریکارڈنگ پاکستانی آج دیکھ سکتے!اُنھوںنے لین ہٹن، ڈینس کمپٹن، پیٹر مے اور گریونی پر مشتمل مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے پرخچے اُڑا دیے تھے۔ تاہم جب ہم ماضی کو دیکھتے ہیں تو ایک اور احساس بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی میں پی سی بی کا کیا کردار رہا ہے؟ ہمارے کھلاڑی بہت باصلاحیت ہیں اور یہ ان کی میدان میں ظاہر ہونے والی خوبیاں ہیں جو فتح کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارا بورڈ کھلاڑیوں کو تلاش کرنے کے لیے مربوط پروگرام بنانے میں ناکام رہتا ہے۔ اکثر سٹار کھلاڑی کسی کی '' نظر ‘‘ پڑنے سے سامنے آتے ہیں۔ وسیم اوروقار اور انضمام جیسے کھلاڑیوںکی تلاش میں بورڈ کا کیا کردار رہا ہے؟ یا پھر مصباح الحق یا محمد عرفان کو بورڈ نے اتنی دیر تک کیوں نظر انداز کیا؟ کیا کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ ہم سترہ اٹھارہ سال کے لڑکوں کو قومی ٹیم میں بلے بازی کے لیے کیوں منتخب کرتے رہے ہیں ؟ ایسے لڑکے بہت باصلاحیت ہونے کے باوجود ٹیکنیک درست نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم فاسٹ بائولرز کے لیے تیس سال سے تجاوز کرجانے والے لڑکوں کو منتخب کرتے ہیں۔ دوسری طرف تمام دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ فاسٹ بائولر کو ''راکی‘‘ اور جوشیلا جوان ہونا چاہیے جبکہ بلے باز کو سمجھ دار اور میچور ۔ ہمارا قبلہ الٹا ہے۔ کیا پی سی بی میں کوئی احتساب ہونا چاہیے یا اس کے عہدوں کو من پسند عناصر کے لیے ایک تحفہ سمجھنے کی پالیسی جاری رکھی جائے گی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں