موت ‘ مذاکرات اور جنگل

ایک اور بیٹی دہشت گردی کے عفریت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ خون آشام درندوں نے ایک اور جان لے لی ۔ مذہب کے نام پر بہایا جانے والا لہو گمنام مگر واضح آستینوں پر جم گیا ہے۔ اپنے والدین کی واحد بیٹی فضہ ملک حال ہی میں برطانیہ سے قانون کی ڈگری لے کر لوٹی تھی اور اس کے والدین اپنی ایسی باصلاحیت بیٹی کی کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے جو ملک و قوم کی خدمت کا عزم لے کر میدان میں آئی تھی، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جس دن دہشت گردوں نے اسلام آباد کی کچہری پر حملہ کرکے بے گناہ شہریوںکو خون سے نہلا یا اس سے صرف دو دن پہلے فضہ ملک نے پریکٹس شروع کی تھی۔ حملے میں فضہ سمیت گیارہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ 
فضہ تو بے رحم دنیا سے چلی گئی،لیکن اس کی غم زدہ والدہ کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کس طرح ایک والدہ نے اپنی جواں سال اکلوتی بیٹی کی ہلاکت کا صدمہ برداشت کیا ہوگا۔ ایسی بیٹی جس کے سامنے وکالت کے شعبے میں نام کمانے اور روشن مستقبل کی راہیں کھلی ہوئی تھیں‘ سفاک شعلوں کی نذر ہو گئی۔ دہشت گردوںکے سینے میں دل نہیں، وہ انسانوںکو اندھا دھند قتل کرتے ہیں، ان بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں جن کانظریات اورعقیدوں کے اختلافات سے کوئی سروکار نہیںہوتا، وہ توصرف اپنے اہل ِ خانہ کے لیے روزی کمانے کے لیے گھر سے نکلے ہوتے ہیں۔کوئی مذہبی رہنمائوں کو خبر دے کہ رزق ِ حال کی تلاش میں گھروں سے نکلے ہوئے بے گناہ شہری ہی حقیقی شہیدکہلانے کے مستحق ہیں جوکٹر ملائیت سے ابلنے والے لاوے میں بھسم ہوجاتے ہیں ۔
سات سال پہلے اس مقام پر جہاں فضہ نے جان دی، ایک اور والدہ کی بیٹی بھی خالقِ حقیقی سے جاملی تھی۔ میں مارچ 2008 ء کی ایک سرد صبح ہلاک ہونے والی سمابیہ (Samabiya) کی والدہ گل زریں کے گھر گئی۔ شدت غم سے نڈھال گل زریں کے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے کہ وہ واضح طور پر بتاسکے کہ 17 جولائی 2007ء کوکیسا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا تھا۔ رندھی ہوئی آواز میں انہوں نے مجھے بس اتنابتایا کہ ''سمابیہ پی پی پی خواتین ونگ کے دفتر میں جناح مارکیٹ گئی ۔ خواتین ونگ کی سیکرٹری نرگس فیض ملک نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ جب سمابیہ انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کر لے گی تو وہ اُسے کوئی ملازمت دلا دے گی۔ اُس دن میڈم ملک نے سمابیہ سے کہا کہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی حمایت میں ایفـ8 سے نکالی جانے والی پی پی پی کی ریلی میں شامل ہو۔ جب بم دھماکہ ہوا تو اس کی آواز ہمارے گھر تک سنائی دی۔ سب لوگ گھروںسے باہر آگئے اور اطلاعات آنا شروع ہوگئیںکہ پی پی پی کے جلوس پر حملہ ہوا ہے‘‘۔ راولپنڈی کے شمال میں ایک پرسکون قبرستان ایک والد اوراس کی دو بیٹیوں کی آخری آرام گا ہ ہے۔ ان کی کچی قبروںکے گرد ماحول خاصا سوگوار ہے۔ 
17 جولائی 2007 ء کو سمابیہ کی بہن نازیہ کو علم ہوگیا تھا کہ اُس کی بہن دھماکے میں ہلاک ہو گئی ہے۔ کسی نے اُسے بتایا کہ جب بم دھماکہ ہوا تو سمابیہ اس جگہ کے قریب اپنی دوستوںکے ساتھ موجود تھی۔ یہ بم اس وقت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد سے کچھ دیر قبل پھٹا تھا ۔ نازیہ اور اُن کا شوہر فوراً پمز ہسپتال پہنچے جہاں دھماکے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کو لایا جارہا تھا۔ اُس وقت تک اُنہوں نے گل زریں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ نازیہ کو وہاں جاکر پتا چلا کہ ان کی چھوٹی بہن اس دنیا میں نہیں ، لیکن اُنہوںنے کوشش کی کہ والدہ کو فوری طور پر صدمہ نہ ہو ؛ تاہم یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ اُنہوںنے مردہ خانے میں جاکر لاش کی شناخت کی۔اس خوبصورت لڑکی کا چہرہ بری طرح مسخ ہو چکا تھا، اُنہوں نے اُس کے نارنجی لباس سے اُسے پہچانا۔ نازیہ نے بتایا: ''ہسپتال کی فضا خون، زخمیوں کے کراہنے اور ہلاک شدگان کے ورثا کے ماتم و فریاد سے لبریز تھی۔کئی گھنٹوں تک مختلف کاغذات پر دستخط کرنے کے بعدہم سمابیہ کی میت گھر لائے‘‘۔ گھر میں بہت سے لوگ جمع تھے اور وہ خوبصورت لڑکی جو چندگھنٹے پہلے تک زندہ تھی، اب زندگی کی حرارت سے محروم ہوچکی تھی۔ پی پی پی کے کچھ ممبران تعزیت کرنے ان کے گھر آئے اور اُنھوںنے گل زریں کو ایک لاکھ روپے بھی دیے۔ کچھ اور نیک دل افراد نے بھی رقم اکٹھی کرکے اس غم زدہ خاندان کو دی جس کی بیٹی نے ملازمت کرکے ان کی کفالت کرنی تھی۔ اس سانحہ کے پندرہ دن بعد سمابیہ کا انٹرکا رزلٹ آگیا اور اس نے اچھے نمبر حاصل کیے تھے۔ وہ ان کے گھرکی واحد لڑکی تھی جو انٹر تک پہنچ پائی تھی،گویا ان کے معیارکے اعتبار سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ 
یہ دولڑکیوں کی افسوس ناک داستان ہے جواپنا کیریئر شروع کرنے ہی والی تھیں کہ ناگہانی موت نے اُنہیں آلیا۔ ان کے کوئی سیاسی عزائم تھے نہ ان کا کسی فرقے سے کوئی تعلق تھا۔ سمابیہ محنت کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرسکتی تھی، فضہ قانون کی ڈگری لے کر وطن واپس آئی تھی اور وہ قانون کے شعبے میں کافی آگے جاسکتی تھی۔ اب یہ دنوں لڑکیاں اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گی اورزندگی بھر ان کی مائوں کو چین نہیں آئے گا۔ 
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ میڈیا جو رہنمائوں کے بیانات اور دیگر احمقانہ معاملات کی پیچھے لگارہتا ہے، دہشت گردی کی کارروائیوں میںہلاک ہونے والوں پر کبھی کچھ شائع نہیں کرتا۔ ہم نہیں جانتے کہ گزشتہ عشرے سے جاری دہشت گردی میں مذہب کی نام نہاد تشریح کرنے والوں نے کتنے گھروں کے چراغ گل کر دیے ہیں ۔ ان حملوں میںہلاک ہونے والو ں کے معصوم بچوں کا کیا حال ہے؟ ان کی کفالت کون کرتا ہے؟ وہ جوان لڑکے اور لڑکیاں جو اس وحشت کا شکار ہوگئے، ان کے والدین کی بے نور آنکھوں کا پرسانِ حال کون ہے؟ ریاست کو تو مذاکرا ت کے مذاق سے فرصت نہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان پرسکون ماحول میں نہایت لذیذ عشائیوں اورظہرانوں سے فراغت پاکر نیم وا آنکھوںسے امریکہ اور مغربی طاقتوںپر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے ہی ''بندوں‘‘ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ پھر نشستند ، گفتند، برخاستند کا ڈرامہ کسی اور موقع پر دہرانے کا وعدہ کرکے ایک دوسرے کی دعائیں لیتے ہوئے رخصت ہوجا تے ہیں۔ 
بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک جنگل (جہاں قواعد وضوابط ہمارے ہاں کی نسبت سے بہت بہتر ہوتے ہیں) میں جانوروں نے شیر کے ظلم (پلیز یہاںاستعارہ مراد نہ لیں) سے تنگ آکر فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ شیر جانوروں کو شکارکرے اور ہر ایک کی جان کو دھڑکا لگارہے، وہ خود ہی برضا ورغبت کسی جانورکو اس کے پاس بھیج دیں گے کہ وہ اسے اپنا لقمہ بنالے تاکہ باقی اطمینان سے دن بسرکرسکیں۔ ان مذاکراتی مولوی صاحبان سے استدعا ہے کہ ایسا ہی کوئی انتظام ہمارے ہاں بھی کرادیں تاکہ فضہ اور سمابیہ جیسی بیٹیاں بچ جائیں اوران کی جگہ کسی اورکا خون ان دہشت گردوںکی خون آشامی کی آگ کو سردکردے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں