فیلومینا

گزشتہ اتوارکو لاس اینجلس کے تھیٹر''آسکرز‘‘ میں، مَیںنے حقیقی فیلومینا لی (Philomena Lee) کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ۔اس نے چمکدار سرخ ہیرے کی بالیاں پہنی ہوئی تھیں اوراُس کا ہیر سٹائل بہت دلکش تھا۔جب ٹی وی کیمرہ 80 سال کی اس خاتون پرپڑا تو میں سوچنے لگی کہ اگر فلم ''فیلومینا‘‘ اس کی حقیقی زندگی پر مبنی ہوتی توشاید آسکرایوارڈ جیت لیتی۔ مجھے یہ فلم بہت اچھی لگی کیونکہ تلاش اور نقصان پر مبنی اس کی کہانی بہت متاثر کن ہے۔ فلم بہت اچھی ہے لیکن یہ حقیقی زندگی کے مکمل پہلوئوں کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ 
اس کہانی کے مطابق 1952ء میں فیلومینا 18سال کی تھی۔ حاملہ ہوئی تو آئرش کانونٹ( Convent ) میں چلی گئی جہاں غیر شادی شدہ عورتوں کی ڈیلیوری کا انتظام کیا جاتا تھا۔ وہاں اُس نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔اُسے احساس دلایا گیا کہ غیر شادی شدہ عورت کا ماں بننا کتنا شرمناک ہے۔ اُسے اپنے بیٹے کو جس کا نام اُس نے انتھونی رکھا تھا، تین سال بعد وہیں چھوڑنے پر مجبورکیا گیا۔پچاس سال بعد وہ دوبارہ اسی کانونٹ میں گئی تاکہ اپنے بیٹے کا پتاچلا سکے۔ اس نے کسی سے اپنے بیٹے کا ذکر نہ کیا کیونکہ اُسے شرم محسوس ہورہی تھی۔ اس کی بیٹی کو جب پتا چلا کہ اُس کی ماں کاایک بیٹا بھی ہے تو اُس نے انتھونی کی تلاش کے لیے بی بی سی سے حال ہی میں ملازمت سے نکالے جانے والے رپورٹر مارٹن سکس متھ (Martin Sixsmith)کی مدد حاصل کی۔ 
وہ انتھونی کی تلاش میں سب سے پہلے آئرش کانونٹ میں گئے۔ وہاں اُنہیں راہبائوںنے بتایا:''یہاں آگ لگی تھی اور اس میں تمام ریکارڈ جل گیا تھا،اس لیے ہمارے پاس انتھونی کا کوئی اتا پتا نہیںہے‘‘۔ 
اس کے بعدوہ کچھ کھانے پینے کے لیے راستے میں بنے ہوئے ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔ وہاں اُنہیں علم ہوتا ہے کہ کانونٹ میں دراصل راہبائوں نے خود آگ لگائی تھی کیونکہ وہ غیر شادی شدہ عورتوں کے بچوں کو بتائے بغیر امریکہ کے بے اولاد جوڑوں کے ہاتھ فروخت کردیتی تھیں۔لہٰذا اُنہوں نے وہ تمام ریکارڈ تلف کرنے کے لیے آگ لگائی تھی۔ مارٹن اور فیلومینا واشنگٹن ڈی سی گئے جہاں اُنہیں پتا چلاکہ اُس کا بیٹا ایک مشہور وکیل بن چکا ہے ، وہ امریکی صدر رونالڈ ریگن اور پھر جارج بش کے ساتھ بھی کام کرچکاہے ۔ جب فیلومینانے اپنے بیٹے کی تصویریں دو صدورکے ساتھ دیکھیں تو چلاتے ہوئے کہا:''یہ ہے میرا انتھونی!‘‘
یہاں سے دراصل فیلومیناکی اپنے بیٹے کی تلاش شروع ہوئی۔ اُسے احساس ہورہا تھا کہ اُسے انتھونی کو ضرور تلاش کرنا ہوگا۔ آخرکار وہ اُسے تلاش کرلیتی ہے اور ماں بیٹے کی ملاقات ماحول کوبہت خوشگوار کردیتی ہے۔ میںنے اس فلم کی بہت سی تفصیل بیان نہیں کی ۔ دراصل میںقارئین پر چھوڑتی ہوں کہ یہ فلم دیکھیں، وہ بہت سی باتیں خود سمجھ جائیں گے جو میں نے اُنہیں جان بوجھ کرنہیں بتائیں۔اس فلم کا اداس کردینے والا حصہ وہ ہے جب فلومیناکوعلم ہوتا ہے کہ اُس کا بیٹا اُس کی تلاش میں تین مرتبہ امریکہ سے آئرلینڈگیا تھا۔ ہر مرتبہ کانونٹ کی راہبائوں نے اُسے بتایاکہ دراصل اُس کی والدہ نے جان بوجھ کر اُسے کانونٹ میں چھوڑدیاتھااورخود غائب ہوگئی تھی۔ 
یہ ناقابلِ یقین کہانی دراصل سچے واقعے پر مبنی ہے۔ فیلومینا دراصل ایک نرس تھی اوراُس کا شعبہ نفسیاتی امراض تھا۔اس فلم میں اس کے کردار نے اُسے راتوں رات ایک نامور شخصیت بنا دیااور اُسے آسکرکے لیے نامزدکر لیاگیا۔ یہ واقعہ اُس پر گزراتھا۔اُس کا کہنا ہے:''جب مارٹن نے اس واقعے کو کہانی میں ڈھال دیا تو میں چاہتی تھی کہ یہ کتاب شائع نہ ہو۔ پھر میں نے سوچا کہ اس کی اشاعت میںکوئی ہرج نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دوسری عورتیں مجھے حاصل ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھائیں ۔ اب جبکہ اس پرفلم بنالی گئی ہے تو میں سوچتی ہوں کہ یہ ایک چشم کشا واقعہ ہے جسے عوام تک پہنچنا چاہیے تھا۔اب اس پرآئرلینڈ میں بہت بحث ہورہی ہے۔ میں دیگرافراد خاص طور پر عورتوںسے کہتی ہوں کہ وہ اپنے اہلِ خانہ اور بچوںکو تلاش کریں ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میںنے اپنے بیٹے کو تلاش کرلیا۔ایسا کرنے سے مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل سے ایک بوجھ اترگیا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ وہ نہ صرف محفوظ تھا بلکہ بہت کامیاب زندگی بسر کررہا تھا۔اُس نے بہت اچھی تعلیم حاصل کی اور وہ ایک کامیاب انسان ہے‘‘۔
اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ کیا ہے؟ اسی سالہ فیلومینا حال ہی میں پوپ کی دعوت پر ویٹی کن گئی۔ پوپ اُسی کانونٹ کے مذہبی رہنما ہیں جس نے چھ عشرے قبل اُسے مجبورکیا تھاکہ وہ اپنے بیٹے کو وہیں چھوڑکر چلی جائے اور پھراُس کے بیٹے کوکسی امریکی خاندان کو دے دیا گیا۔ اس سزاکی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک غیر شادی شدہ والدہ تھی۔ جب اُ س کی پوپ سے ملاقات ہوئی تو اُس نے اپنے مذہبی پیشواکا ہاتھ چھوا اورکہا:''بہت شکریہ، مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی‘‘۔ موجودہ پوپ مسٹر فرانسس بہت وسیع القلب ہیں۔ وہ ان افرادکی دلجوئی ضرورکرتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی وجہ سے چرچ کے ہاتھوں کوئی نقصان اٹھانا پڑاہو۔ پوپ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف فیلومیناکی دلجوئی کی بلکہ حکم دیاکہ ویٹی کن میں وہ فلم سب کو دکھائی جائے۔ اس فلم نے The Philomena Project نامی منصوبے کا آغازکیا ہے۔ اس کے مطابق آئرش حکومت پردبائو ڈالاگیا ہے کہ وہ تمام ایسی عورتوںکے ریکارڈکی چھان بین کرے جن کے بچوںکوکسی اور خاندان کے حوالے کردیاگیا تھا۔ اس سے پہلے آئرش قانون میں ایسی کوئی شق نہیں تھی کہ والدین کو بتایا جائے کہ اُن کے بیٹے کوکس خاندان نے گود لیا ہے۔ 
ہمارے لیے اس میں سیکھنے کا سبق یہ ہے کہ ہمیں معاف کرنا آنا چاہیے۔ ہم پارسائی کے زعم میں اتنے ڈوبے ہوئے ہیںکہ ہمیں ہرگناہگار واجب القتل دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں بھی انسانی قدروں کا احترام اور اجنبیوںکے ساتھ محبت کے جذبات پیدا ہوں گے ؟ آج کی مہذب دنیا انسانی قدروںکو بہت اہمیت دیتی ہے لیکن ہم تنگ نظری کی وجہ سے ان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کا اثر بہت گہرا ہے لیکن کیا ہمارے ہاں معاف کرنے کی روایت بھی موجود ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں