مذاق ہی مذاق میں

تقریباً ایک سو سال پہلے، اُس وقت کے امریکی صدر نے ایک روایت متعارف کرائی جو ابھی تک جاری ہے۔ اس دلچسپ روایت کے مطابق وائٹ ہائوس میںکوریج کرنے والے میڈیاکے نمائندوںکی ایسوسی ایشن اور امریکی صدرایک ڈنر میں شریک ہوتے ہیں۔ اس ڈنر میں شریک ایک مہمان، جو عام طور پرایک مزاحیہ اداکار ہوتا ہے، دنیا کے سب سے طاقتور شخص (امریکی صدر) کو ہدف بناتے ہوئے لطیفے سناتا ہے۔ لطائف کی ''زد‘‘ میں کانگرس کے دیگر ارکان اور ٹی وی چینلز بھی آجاتے ہیں۔ ہر کسی کو ''جگتیں ‘‘ لگائی جاتی ہیںاور ایسا کرتے ہوئے امریکی صدر کے مرتبے کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا ۔ کچھ لطائف اور جگتیں بہت ہی نوکیلی اور ذاتی ہوتی ہیں لیکن کوئی اس کا برا نہیں مناتا۔ سب خوشدلی سے ہنستے ہیں۔ اس پروگرام کو براہ ِ راست ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ 
دوہفتے پہلے ایسے ہی ایک ڈنر میں شوبز ، میڈیا اور سپورٹس سے تعلق رکھنے والی نامی گرامی شخصیات نے شرکت کی۔ صدر اوباما نے اپنے مخالفین کو دل کھول کر پرلطف انداز میں آڑے ہاتھوں لیا جبکہ فاکس نیوز نے بھی موقع ضائع کیے بغیر صدر اور ان کی انتظامیہ کو رگیدا۔ صدر اوباما نے اپنی تقریر کے اختتام پر وائٹ ہائوس نمائندوںکی ایسوسی ایشن کو مخاطب کرتے ہوئے ''عزیزانہ ‘‘ لہجے میں کہا۔۔۔''گزشتہ ایک سو سال سے وائٹ ہائوس میں ہرقسم ، سائز اورحجم کے نمائندے کام کرتے رہے ہیں۔ ان میں ریڈیو، ٹی وی اور انٹر نیٹ پر خبریں پیش کرنے والے بھی شامل ہیں۔اس دوران بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن نہ آپ کے سوال تبدیل ہوئے اور ۔۔۔۔۔ نہ ہی ہمارے جواب۔‘‘
اگر کہیں پاکستان میں اس روایت کا ''اجراء ‘‘ ہوجائے تو کیسا رہے گا؟ذرا تصورکریں کہ وزیر ِ اعظم نواز شریف پاکستانی میڈیا کے نمائندوں میں گھرے بیٹھے ہوںاور جگت بازی کی کھلی چھوٹ ہوتو پھر۔۔۔''ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔‘‘تاہم ایک مسئلہ درپیش ہوگا کہ میڈیا کا کون سا مزاحیہ اداکار(امریکی بور قوم ہیں، وہاں تو چند ایک ہی ہوںگے)لطائف سنائے گا؟ میڈیا والے توا ٓپس میں لڑ پڑیںگے۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ پہلے ان کے لطائف کا میچ کرانا پڑجائے تاکہ فاتح کو اس ڈنر پر موقع دیا جائے۔ لیکن ٹھہریں، اس میچ کا ریفری کون ہوگا اور پھر ہمارے ہاں ''کوارٹر فائنل کھیلے بغیر ہی فائنل کھیلنے کی خواہش‘‘زور پکڑرہی ہے۔تاہم معاملہ نمٹانے کے لیے ٹاس کرنا بہترین حکمت ِ عملی دکھائی دیتی ہے۔ 
لطائف سنانے والے مزاحیہ نمائندے کا انتخاب کرنے کے بعداسے کھلی چھٹی دی جائے گی کہ وہ سب پر جگتیںکسے ۔ ریاستی اداروں کوبھی ظرافت کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ چند اداروںکو چھوڑکر۔ حساس موضوعات کو لطائف کی نذر نہیں کیا جاسکتا، اس لیے سیاستدانوں اور سرکاری محکموں اور ان میں ہونے والی بدعنوانی اور نااہلی کو موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ اس پر کوئی بھی برا نہیںمنائے گا۔ مشرف کی ریڑھ کی ہڈی اور اس میں اٹھنے والے دردکے حوالے سے نت نئے لطیفے سننے کو مل سکتے ہیںاور وہ یقینا باکس آفس پر بہت رش لیںگے۔ زرداری صاحب اگرچہ منصب سے ہٹ چکے لیکن ان کے بارے میں بنائے گئے لطائف، بقول حافظ شیرازی۔۔۔''ثبت است بر جریدہِ عالم‘‘ کی مثل ہیں۔ 
عمران خان بھی لطائف میں کافی ''سوٹ‘‘ کرتے ہیں ۔ ان میں ایک خدادادصلاحیت ہے کہ ہر قسم کا لطیفہ ان پر فٹ بیٹھتا ہے، چاہے اس کا کوئی بھی موضوع کیوںنہ ہو۔ آزمائش شرط ہے۔ تاہم کچھ ہِٹ موضوعات انتخابی دھاندلی، سابق چیف جسٹس، موجودہ وزیر ِ اطلاعات اورفرزند ِ راولپنڈی (نام لینے کی ضرورت نہیں) ہوسکتے ہیں۔راولپنڈی اسلام آباد میں شروع ہونے والی میٹرو بس اور محترمہ شیریں مزاری کی طر ف سے دیئے جانے والے رقم کے تخمینے (جس میں اکثر سیاست دانوں کے غریب خانے بھی آباد نہیںہوتے)کا ذکر بھی لطیفہ ہی سمجھا جائے گا۔ شیخ الاسلام کی تقریر۔۔۔''جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے‘‘۔۔۔ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کی گرج چمک بھی ظریفانہ ہی ہے۔ 
اب ذکر ہوجائے برادرانِ محترم اور ان کی طرف سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے وعدوں کا۔ بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ برداشت کرنے والے پاکستانی پورٹ قاسم پر اربوں ڈالر مالیت سے کوئلے سے بجلی پیداکرنے والے پلانٹ کے بارے میں سن رہے ہیں۔ اس دوران شاہ محمود قریشی کی طر ف سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا نسخہ سن کر لوگ اُس وقت بھی ہنس ہنس کردُہرے ہوگئے تھے۔ ان کی تقریر کی ریکارڈنگ ہر محفل کو کشتِ زعفران بنا سکتی ہے۔ وزیرِ اعظم اب وعدہ تو کرتے ہیں لیکن ڈیڈ لائن دینے کے سلسلے میں ہونے والے تلخ تجربات کے بعداب نہ صرف خود محتاط ہوگئے ہیں بلکہ برادرِ خورد کو بھی اس ضمن میں خبردار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بیان میں نواز شریف کا کہنا تھا۔۔۔''یہ مسئلہ راتوں رات حل نہیںہوسکتا، آپ کو صبر کرنا ہوگا۔‘‘
اگر اُس ''ٹسفح‘‘ صحافی (ٹاس اور فاتح کا مرکب لفظ) کو احتساب بیورو کے ایک سابق چیئرمین سیف الرحمن یاد ہوں تو پھلجھڑیوں کی اُس شام کے کیا کہنے۔ سابق دور میں وہ آصف زرداری کے ''گرم تعاقب ‘‘ میں تھے لیکن سابق مرد ِ آہن نے قید میںہونے کے باوجود اُنہیں ''پکڑائی ‘‘ نہ دی۔ جب نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو ان کی سیف الرحمن کے ساتھ ناراضگی ہوگئی ، لیکن اب شنید ہے کہ ان کے درمیان اب برف پگھل رہی ہے۔ آج کل وہ ہونے والے کچھ معاہدوںمیں بھی شریک دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ برف جمی کیسے تھی؟ ۔۔۔ یہ کہانی پھر سہی۔ رحمن ملک بھی لطائف کا آسان ہدف رہے ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔ ان سے پاکستانیوں کو پیار ہی بہت ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کرکٹ کے کچھ معاملات بھی ظرافت کی زد میں آ سکتے ہیں(اس پر سمجھدار قاری سوال کرسکتے ہیں کہ وہ پہلے کس کی زد میں تھے؟)میرا خیال ہے کہ قارئین سمجھدار ہیں ۔ 
امریکی روایت کے مطابق لطیفے سنانے کی آخری باری صدر صاحب کی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی جب مزاحیہ صحافی کے لطائف تمام ہوں تو پھر وزیر اعظم سٹیج افروز ہوں اور پھر سوسنار کی اور ایک۔۔۔۔‘‘ ۔ قیاس ہے کہ وزیر ِ اعظم ترکی ادب سے لطائف کا چنائو کرنا پسند کریں گے۔ ہمارے سابق کمانڈوکو بھی ترکی بہت پسند تھا۔ اگلے چند روز تک وزیر ِ اطلاعات ان لطائف کے سیاق و سباق بیان کرتے رہیںگے۔ اس دوران شاہد اﷲ شاہد ان لطائف پر ہنسنے والوں کو پیار بھری تنبیہ فرمائیںگے اور پھر ان لطائف کا دوسرا دور۔۔۔ یعنی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے رائونڈ۔۔۔ کا آغاز ہوجائے گا۔ اگر یہ سب کچھ آن ائیر جائے تو ہم اس تقریب پر بھی آسکر کے حق دار قرار پائیںگے۔ نہ ملا تو پھر کوئی غیر ملکی سازش ہی ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں