ظالم‘ جاہل اور گنوار

اگر امریکہ میں کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرے، جسمانی طور پر مارے یا ذہنی اذیت دے تو ظلم کا شکار بیوی 911 پر کال کرکے مدد طلب کرسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے شوہر کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔یہ بالکل دوٹوک معاملہ ہے، ریاست مردوں کو اپنی بیویوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی اس ضمن میں کسی لچک کا مظاہرہ کرتی ہے اور نہ ہی کسی کو عقیدے کی ڈھال استعمال کرنے دیتی ہے۔ تاہم اس اسلامی جمہوریہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں مردوں کی بچپن میں ہی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ عورتیں کم تردرجے کی مخلوق ہوتی ہیں۔ لڑکا دیکھتا ہے کہ اس کا والد اس کی والدہ سے کس بے رحمی سے پیش آتا ہے۔ وہ نوعمر لڑکا بچپن سے ہی سیکھنا شروع کردیتا ہے کہ عورتوں، خا ص طور پر بیویوں، سے کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ بیویوں کوگھریلو ملازمہ سمجھا جاتا ہے جبکہ بیٹیوں کے رشتوں کے لیے زیادہ دولت مند خاندان تلاش کیے جاتے ہیں تاکہ وہاں سے بھی مالی فوائد حاصل ہوسکیں جبکہ شوہر صاحب خود بھی اپنے جوان بچوں کی موجودگی میں دوسری یا تیسری شادی رچانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ حد یہ ہے کہ اس کے لیے عقیدے کا سہار ا لے لیا جاتا ہے۔ 
پریس رپورٹس کے مطابق یمن میں ایک آٹھ سالہ بچی کی شادی کردی گئی اور وہ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کررہی ہیں کہ اس کے چالیس سالہ شوہر کو گرفتار کرکے سزا دی جائے تاکہ کمسن لڑکیوں سے شادی کرنے کی ظالمانہ روایت کا خاتمہ ہوسکے۔ یمن کے دیہی علاقوں میں غریب والدین اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں ہی دولت مند افراد کے ساتھ شادی کردیتے ہیں۔ یواین پاپولیشن فنڈ نیویارک کا کہنا ہے کہ 2011ء سے 2020ء کے درمیان دنیا کے مختلف ممالک کی ایک سو چالیس ملین لڑکیوں کی کمسنی میںہی شادی ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ پچاس ملین لڑکیوں کی پندرہ سال سے کم عمر اور ایک سوچالیس ملین کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کردی جائے گی۔ 
اگر یہ کمسن دلہنیں زندہ رہیں تو کس قسم کی زندگی ان کا مقدر ہوتی ہے؟ نہ صرف یہ کہ انہیں صحت کے مسائل گھیر لیتے ہیں بلکہ ان کی تعلیم بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔ ا س کے علاوہ انہیں جسمانی او ر نفسیاتی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ زبردستی شادی کے بندھن میں بندھی ہوتی ہیں ۔ شادی کے وقت ان میں سے اکثر کو علم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے والدین ان کے ساتھ کیا کررہے ہیںیا انہیں کس معمرشخص کے پلے باندھ رہے ہیں اور کیوں؟انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس نے 54 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کا موضوع ہے۔۔۔'' آپ لڑکیوں کی کمسنی میں شادی کیوں کرتے ہیں؟‘‘اس رپورٹ میں ان لڑکیوں کے بیانات شامل ہیں جن کی چھوٹی عمر میں شادی کردی گئی۔ شادی کی عمر پر بات کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کے لیے عمر کی کم از کم حد اٹھارہ سال مناسب ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یمن میں یہ حد سترہ سال مقرر کی گئی لیکن پھر اس قانون کو منسوخ کردیا گیا کیونکہ وہاں کے قدامت پسند حلقوں نے اسے نامناسب قرار دیا تھا۔ پاکستان میں ایک ادارے کی رائے یہی ہے کہ لڑکیوں کی کم عمری میںشادی کی جانی چاہیے ۔ اب ظاہر ہے سترہ یا اٹھارہ سال کو تو کم عمر نہیں کہا جاتا،اس سے مراد بہت کم عمرہی ہے۔ سندھ اسمبلی نے جب اس کے خلاف قرارداد پاس کی تو اسمبلی ہی تحلیل کرنے کا مطالبہ کردیا گیا۔ 
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو مرد کی حاکمیت کا یہ معاشرہ عورتوں کے لیے ''جبرِِ مسلسل ‘‘ سے کم نہیں۔ یہاں وہ جس جرم کی سزا پاتی ہیںتو وہ عورت ہونا ہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک نوجوان حاملہ عورت فرزانہ پروین کو اینٹیں مارمارکرہلاک کردیا گیا۔ وزیر ِ اعلیٰ شہباز شریف نے درندگی کا ارتکاب کرنے والے افراد کی گرفتاری کا حکم دیا۔ ٹھیک ہے، وہ گرفتار ہو کر سزا پائیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اس موقع پر کیا کررہی تھی اور عوام نے مداخلت کرتے ہوئے اس عورت کی جان کیوںنہ بچائی۔ افسوس ناک بات یہ کہ یہ واقعہ ہائی کورٹ میں پیش آیا جو قانون کی پاسدار اور مظلوموں کے حقوق کی امین ہے۔ رسمی بیانات کے علاوہ معاشرے میں ایک حاملہ عورت کی اس طرح ہلاکت پر غم وغصے کا ارتعاش دکھائی نہیں دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ واقعہ امریکہ میں پیش آیا ہوتا تو صدر اوباما خود پریس کانفرنس کرتے ہوئے قاتلوں کو فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں کھڑ ا کرنے کا وعدہ کرتے تاکہ امریکیوں کے جذبات ٹھنڈے ہوسکیں۔ 
جب پاکستانی دیگر ممالک میں سکونت اختیار کرتے ہیں تو بسا اوقات وہ اپنی مردکی حاکمیت کی سرشت اپنے ساتھ ہی لے آتے ہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ نفسیاتی بیماری جاتے جاتے ہی جاتی ہے، اور وہ بھی تب جب مہذب معاشروں کی روایات کا رچائو طبیعت میں ہوپائے۔حال ہی میں 75 سالہ نورحسین کواپنی چھیاسٹھ سالہ بیوی کو ہلاک کرنے کی پاداش میں سزا سنائی گئی۔ واقعے کی تفصیل کے مطابق وہ اس کی منشا کا کھانا پکانے میں ناکام رہی تو اُس نے اس کا سر کچل دیا۔ اسے پچیس سال قید کا سامنا ہے اور امکان ہے کہ وہ اب جیل سے زندہ کبھی باہر نہیں آسکے گا۔ اس نے ایک معمولی سی بات پر بیوی کے سر پر بیس ڈنڈے مارے تھے۔ جج صاحب نے اسے سیکنڈ ڈگری قتل قرار دیتے ہوئے فوری طور پر سزا سنادی۔ دوران ِ سماعت اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ یہ مارپیٹ کا سلسلہ گزشہ پندرہ برس سے جاری تھا۔ خاتون وکیل نے کہا۔۔۔ ''میں تمام پاکستانی کلچر کو برا نہیں سمجھتی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نور حسین یہاں بھی پاکستانی کلچر کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کررہا تھا۔‘‘ان کی ایک ہمسائی صفیہ خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ اکثر اپنے ہمسائے کی تلخ کلامی سنا کرتی تھی اور دومرتبہ اس نے بھی مداخلت کرتے ہوئے اسے گھر میں اتنے غصے کے اظہار سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ 
پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے جرائم میں سزا دینے کا رواج نہیں۔ ہو سکتاہے کہ کچھ عرصہ بعد فرزانہ کے قاتل بھی آزاد پھرتے دکھائی دیں اور انسانی حقوق کی تنظیموںکی طرف سے اٹھائی جانے والی آواز بہت جلد دم توڑ جائے۔عدالت خاموش ہوجائے گی، زندگی کے معمولات جاری رہیں گے، کراچی یا کوئی اور مسئلہ پریس کی توجہ کھینچ لے گا۔ ہمارا کلچر، ہماری روایات، ہماری نام نہاد ثقافت وہ بند گلی ہے جس میں آزادی سے نہ سانس لیا جاسکتا ہے، نہ فریاد کی تاب ہے ، نہ کوئی سنتاہے۔۔۔ بس پتھر ، اینٹیں، ڈنڈے، گولی اور گالی ہے اور اس پر ناز کہ ہم دنیا کا بہترین معاشرہ رکھتے ہیں۔ گھرہو، سڑکیں ہوں، عوامی مقامات ہوں، مرد کی حاکمیت کے دوش پر انسانیت کا جنازہ جارہاہوتا ہے۔ یہ وہ وطن ہے جس کے حکمران دنیا بھر سے مالی وسائل کی التجا کرتے نہیں تھکتے لیکن اسی وطن کے باسیوں کی اکڑ سے زمین کانپنے لگتی ہے۔ جب اذہان و قلوب پر جہالت ، سنگدلی، بے حمیتی اور توہمات کے اتنے پتھر پڑے ہوں تو ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اب تک کون سی بت شکنی کی گئی۔۔۔ سبھی تو سلامت ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں