کیا یہ سلسلہ کہیں تھمے گا

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب مجھے بھجوائی گئی اپنی ای میل میں لکھتے ہیں۔۔۔''میں ٹی وی پر سنسنی خیز ڈرامہ دیکھ رہا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ باہرکا ماحول کسی محاذ جنگ کی یاد دلارہاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دشمن کی افواج مفتوحہ علاقے میں داخل ہورہی ہیں ۔ ایک طرف شعلہ بیان مقرر ہے تو دوسری طرف کنفیوژن کا شکار دستے۔ اس کے بعد منظر پر ایک طیارہ رخ موڑتا دکھائی دیا۔ اس سے یاد آیا کہ پندرہ سال پہلے بھی ایک طیارے کا رخ موڑا گیا تھا۔ آسمان گواہ ہے کہ طیارے کا رخ مڑتے ہی بعض اوقات حالات کا دھارا بھی اپنا رخ موڑ لیتا ہے۔ جب مشرف نے اقتدار سنبھال لیاتو عوام کے ایک حصے نے سکون کا سانس لیا۔ اب ڈاکٹر قادری بھی حکومت کو للکار رہے ہیں۔ عوام کی ایک خاطر خواہ تعداد ان کے ساتھ بھی ہے اور کیا پتہ وہ بھی آگے بڑھ کر حکومت سنبھال لیں۔‘‘
ہم ان صاحب کے خیالات سے مکمل طورپر اتفاق نہیں کرسکتے کیونکہ ملک میں ایک جمہوری حکومت کام کررہی ہے اور اس پر کسی قوت کی طرف سے غیر جمہوری طریقے سے قبضہ کرنے کی کوشش کی حمایت نہیںکی جاسکتی۔ مشرف کے طیارے اور قادری صاحب کے طیارے کے درمیان میں ایک اور طیارہ بھی آتا ہے(قارئین سے ان ناروا اصطلاحات کے استعمال پر معذرت لیکن کیا کیا جائے، ہماری تاریخ ''طیارگی ‘‘ سے لبریز ہے)اور یہ وہ طیارہ ہے جس پر میاں صاحب سوار ہوکر لندن سے کشاں کشاں وطن کی طرف سدھارے تھے لیکن آمر نے کٹائی گئی ٹکٹ کے مقابلے میں کوئی لکھا ہوا کا غذ (واﷲ اعلم) لہراکے طیارہ واپس موڑ دیا تھا؛ تاہم اس روز اسلام آباد ائیرپورٹ سنسان تھا اور پی ایم ایل (ن) کے حامی کہیں استراحت فرما رہے تھے۔ صرف تہمینہ دولتانہ کے نعرے آمریت کو چیلنج کررہے تھے لیکن پھر جہاز نظروںسے اوجھل ہوگیا اور نعرے بھی تھم گئے۔ 
آج مشرف نوازشریف کی گرفت میں ہیں اور اُنہیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر قادری، جو وزیر ِ اعظم کو ببانگ ِ دہل بدعنوان قرار دیتے ہیں، کے پیروکار پولیس کے ساتھ دودو ہاتھ کررہے ہیں جبکہ سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کی وجہ سے فضا سوگوار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا جادہ ٔ سیاست انتقام کے قدموں کے نشانات سے اٹا ہوا ہے۔ ہر حکومت گزشتہ حکومت اور اپنے سیاسی حریفوںکے خلاف کارروائی کو کارکردگی قرار دیتی ہے۔ کیا کبھی اور کہیں یہ سلسلہ تھمے گا اور کیا ہماری سیاست ذاتی عناد سے بلند ہوکر قومی معاملات پر اختلاف ِ رائے کے ساتھ سامنے آئے گی؟ہم بھی اسی دنیا کا پانی پیتے ہیں، اسی دھرتی کا اناج کھاتے ہیں اور اسی سورج تلے زندگی بسر کرتے ہیں، تو پھر جب دیگر اقوام تہذیب کے سفر میں منزل بہ منزل گامزن ہیں تو ہمیں کیا امر مانع ہے؟ہم انسانی رویوں سے اجتناب کو پارسائی کیوں سمجھ بیٹھے ہیں؟خود پسندی ، انانیت اوراحساس ِ تفاخر ہمیں مزید قعرِ مذلت میں گرائے گا تو ہمیں ہوش آئے گا؟ گرچہ رجائیت پھر بھی جاں بلب ہے۔ 
گزشتہ سال ڈاکٹر طاہر القادری اپنا کیس سپریم کورٹ کے سامنے لے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات سے پہلے نظام کی تطہیر چاہتے ہیں، تاہم عدالت ِ عالیہ نے ان کے موقف کی تائید نہ کی بلکہ ''کینیڈا کے شہری ‘‘ کو فاضل چیف جسٹس صاحب کی طرف سے کچھ سخت جملے بھی سننا پڑے۔ افتخار محمد چوہدری صاحب نے فرمایا کہ قادری صاحب ایک دوسرے ملک سے وفاداری پر حلف اٹھا چکے، اس لیے وہ پاکستانیوں کو اپنا کام کرنے دیں اور ''آئینی اداروں پر حملہ آور ‘‘ ہونے سے باز رہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اس دوران مبینہ طور پر ساٹھ ملین ڈالر سوئس بنکوں میں چھپائے رکھنے کے باوجود سابق صدر آئین کے مطابق حاصل استثنا کی چھتری تلے صدارت کے مزے لوٹتے رہے اور آئین اپنی جگہ پر موجود رہا۔ بہرحال قادری صاحب کو ٹکا سا جواب ملا اور وہ واپس سدھار گئے۔ 
اب ان تمام واقعات کا ایک پہلو نمایا ں ہے ۔ بدعنوانی اور انتخابی دھاندلی دونوں وقتاً فوقتاً ایک ایشو بن کر سامنے آجاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کہانی اب کہیں رکے گی نہیں۔ اگر اسے انتقامی سیاست کے رنگ میں نہ رنگا جائے تو قوم بہتری کی امید لگا سکتی ہے۔ انتخابات کے نزدیک ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن کو بہتر اور فعال بنانے کا معاملہ سر اٹھائے گا۔ عمران خان بھی حکومت پر اپنا دبائو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران جمہوریت کے تحفظ کے عزم کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ دراصل گزشتہ کیس میں سپریم کورٹ نے قادری صاحب کو دُہری شہریت اوردیگر غیر اہم معاملات میں الجھا دیا تھا۔ عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ دہری شہریت رکھنے والے ووٹ دے سکتے ہیں لیکن اپنے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتے؛ تاہم اسی ملک میں ایک گرین کارڈ رکھنے والے معین قریشی کو نگران وزیر ِ اعظم بنتے دیکھا گیا۔ پھر ایک اور دولت مند ''غیر ملکی‘‘ ، شوکت عزیز بھی مشرف کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایوان میں آگئے اور تین سال تک ملک کے وزیر ِ اعظم رہے۔ اس دوران عدالت نے خاموشی اختیار کیے رکھی جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی صورت ِ حال سے اغماض برتنے میں ہی بہتری گردانی۔ اس کے بعد زرداری حکومت کے کئی فیصلے بھی آئین کی روح کے مطابق نہیں تھے، جیسا کہ رحمن ملک اور ڈاکٹر عاصم کو کابینہ میں شامل کیا جانا۔ اس پر سپریم کورٹ آخر کارحرکت میں آئی، لیکن اس وقت تک پی پی پی حکومت اپنی مدت کے خاتمے کے قریب تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قادری صاحب عدالت میں جاتے ہیں یا کوئی اور لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے ساتھ ہی حقیقی جمہوریت ممکن ہے لیکن یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ وہ اس کے لیے کون سی راہ اختیار کرتے ہیں۔ 
ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری عدلیہ بھی آئین کی بجائے ناگہانی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے فیصلے کرتی رہی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان واپس لوٹنے سے پہلے مشرف کئی سال سے دیار ِ غیر میں تھے۔ یقینا ان کے پاس برطانیہ کا یا مشرق ِو سطیٰ کے کسی ملک میں طویل قیام کا ویزہ ہوگا۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری ایک مدت ملک سے باہر رہے ہیں اور ٹیلی فونک خطبات کے ماہر الطاف حسین بھی عرصہ دراز سے ملک سے دور ہیں۔ ان سب کی پاکستانیت پر کسی کوشک نہیں تو پھر سارا ملبہ قادری صاحب پر کیوں گررہا ہے۔ 
اب جبکہ وہ پاکستان میں ہیں، تو ضروری ہے کہ ان کی بات تحمل سے سنی جائے اور وہ بھی اپنی بات تحمل سے کرنے کی عادت اپنائیں۔ ان کی اس بات میں کوئی دورائیں نہیں ہوسکتیں کہ ملک میں بدعنوانی نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں؛ تاہم یہ معاملہ دنگے فساد سے حل نہیںہوگا۔ اس کے لیے سنجیدہ راہ اپنائی جانی چاہیے۔جب قادری صاحب سیاست میں آئے تھے تو وہ اپنے جلسوں میں ایک شعر پڑھا کرتے تھے۔۔۔''جسم وجاں کو اینٹ پتھر کی جگہ چُن دیں گے ہم، بے درودیوار ہے لیکن یہ گھر اپنا تو ہے۔‘‘قادری صاحب، اب بھی یہ وطن اپنا ہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بدعنوانی خونی انقلاب سے نہیں، قانون کی حکمرانی سے ختم ہوئی ہے۔ یہ ملک، اس کے ادارے، اس کے عوام، اس کے پولیس والے، سب بہتری چاہتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں