کرکٹ برائے فروخت

نجم سیٹھی پھرمعطل۔۔۔ نہیں، سٹاپ پریس! آخری خبر یہ کہ اُنہیں پھر بحال کردیا گیا۔ یہ سب کیاہورہا ہے؟ اب تو یہ پورا معاملہ گھٹیا مذاق دکھائی دیتا ہے۔ نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف کے درمیان پی سی بی( پاکستان کرکٹ بورڈ ) کی چیئرمین شپ کے لیے کھیلاجانے والا میوزیکل چیئر کھیل، جس میں وزیر ِ اعظم نواز شریف اور اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج صاحبان ریفری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پی سی بی کونجی کمرشل ادارہ قرار دے کر نیلام کردیا جائے۔ جو زیادہ بولی لگائے، وہ اسے خرید لے ، پھر اس پر سرمایہ کاری کرے، ذمہ داری اٹھائے اور کھیل کو پیشہ ور بنیادوں پر بچانے اور ترقی دینے کی کوشش کرے تاکہ وہ اس سے منافع کما سکے۔ اس سے بہتر حسنِ انتظام ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ رومن بادشاہوں کے دور میں گلیڈی ایٹرزکو میدان میں اتارنے والے استاد بھی پیشہ ور لوگ تھے جو ان لڑاکا جوانوں پر سرمایہ کاری کرتے اور اُنہیں مرنے کے لیے تیار کرتے۔۔۔ اب کیا ہرج ہے؟
پی سی بی حکومت سے مالی امداد کا طلب گار ہے تاکہ کرکٹ سرگرمیوں کو بحال کیا جاسکے۔ یہ کیسا خیال ہے؟ ناقابلِ عمل، اس لیے کہ ہماری کرکٹ مینجمنٹ تو کوئلوں کی دلالی کرنے کے مترادف ہو چکی ہے۔ کبھی کرکٹ بورڈ بہت طاقتور اور امیر ادارہ ہوا کرتا تھا لیکن اب سب سرکس کے جوکر، حماقتیں اور ڈرامے باقی رہ گئے ہیں۔ دنیا ہم پر ہنستی ہے لیکن یہ ہمارے رونے کا مقام ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ گولڈن شیک ہینڈ کے اصول کے تحت اسے کسی کے ہاتھ فروخت کردیاجائے۔ 
ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی کے منظرِ عام پر آنے سے پہلے نہایت سست ،کم کوش اور بھاری بھرکم اعجاز بٹ کرکٹ کے معاملات کنٹرول کر رہے تھے۔۔۔ کم ازکم سننے میں یہی آتا تھا۔ صدر زرداری کے اس فیصلے نے پوری قوم کو کم از کم اس بات پر متفق کردیا تھا کہ اُنہوںنے اس کام کے لیے غلط شخص کا انتخاب کیا ہے۔ قوم کے اتفا ق و یک جہتی کا یہ ایک نادر مظاہرہ تھا اور اس پر صدرِ زدرای لائقِ تحسین ہیں کیونکہ حکومتوںکے کیے گئے اکثر فیصلوں پر عوامی حلقوں کی رائے منقسم ہوتی ہے۔ البتہ ایک بات ماننے کی ہے کہ جوانی میں اعجاز بٹ ایک وجیہ کھلاڑی تھے۔ لاہور ٹیسٹ کے دوران ان کی ناک پر گیند لگ گئی اور خون بہنے لگا،ادھر ان کی ایک حسین پرستارکی آنکھوںسے بھی آنسو بہنے لگے(گمان کرنے میںکوئی ہرج نہیں کہ بیک وقت)۔ 
اس سے پہلے جنرل مشرف نے میری لینڈ کے ایک ڈاکٹر صاحب کو دیکھا کہ وہ کڈنی کے ماہر ہیں تو خوش ہو کر کرکٹ کی زمامِ اختیار ان کے سپرد کردی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مصباح الحق کو کسی کے گردے کا آپریشن کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ جو مریض کے ساتھ ہوگا، وہی کرکٹ کے ساتھ ہوا۔ اُس زمانے میں اُڑتی خبر سنی تھی، اگرچہ ''طیور ‘‘اس معاملے پر خاموش تھے کہ ڈاکٹر صاحب امریکہ سے پاکستان کے لیے لاکھوں ڈالر بطور تحفہ لائے ہیں۔ اچھی بات ہے ، پاکستان کو ڈالروں کی ضرورت رہتی ہے اور یہی بات میں بھی کہہ رہی ہوں۔۔۔ ''بیچ دو‘‘۔ اور پھر ڈاکٹر نسیم اشرف کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیپیٹل ہل کے مقیم اکثر ارکانِ کانگرس سے اُن کی گاڑھی چھنتی ہے۔ بسم اﷲ، پھر کیا چاہیے تھا، کرکٹ سنبھالیں، کرکٹ کے علاوہ جو کچھ چاہیے کنٹرول کرلیں۔ ڈالر اور کیپیٹل ہل سے شناسائی تو الہ دین کا چراغ ہیں۔ اس دور میں جومعرکہ سر کیاگیا، اُسے ڈریسنگ روم ڈپلومیسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 
بہت جلد اس ڈپلومیسی کے چراغ روشن ہونا شروع ہوگئے۔ کرکٹ، بلکہ کسی بھی کھیل میں سب سے بڑا مسئلہ کھلاڑی ہوتے ہیں، اس لیے ان سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا۔ ان میں سے جو خود کو سپرسٹار سمجھتے ہیں، جب تک ان کو دن میں تارے نہ دکھادیے جائیں، کنٹرول کرنا کس چڑیا کا نام ؟چنانچہ اس زریں اصول کے تحت کھلاڑیوں کی بے عزتی کرنے کا ایک شعبہ قائم کیا گیا۔ اس کی ایک ادنیٰ سی پیش کش راولپنڈی ایکسپریس ، شعیب اخترکو تین ملین ڈالرکا جرمانہ تھا۔ اس زمانے میں سلیم الطاف نے شعیب اختر کا ساتھ دینے کی کوشش کی ؛ تاہم نسیم اشرف نے ماہر جاسوس کی طرح ان کے فون بھی ٹیپ کیے اور سب کو سنوادیے۔ سلیم الطاف بھی معمولی انسان نہ تھے، ان کے بھائی نعیم بخاری ایک مشہور وکیل ہیں جنہوںنے چیف جسٹس چودھری کے خلاف پہلا پتھر پھینکا تھا اور جنرل مشرف کے بہت قریب تھے۔ 
بھوپالی تہذیب کی غالباً آخری نشانی، سابق سیکرٹری خارجہ شہریار خان بھی کرکٹ کو سنبھالے ہوئے تھے لیکن اوول میں امپائر ڈیرل ہیرکچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہوگئے، پاکستانی ٹیم پر بال ٹمپرنگ کا الزام لگا دیا۔ ڈریسنگ روم میں شہریار خان بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے اورکپتان انضمام الحق نے احتجاجاً میدان چھوڑ دیا ؛ حالانکہ وقت میدان میں کھڑا رہنے کا تھا۔ بہرحال خاں صاحب کادور تمام ہوااورکرکٹ کی ذمہ داری نسیم اشرف کے کندھوں پرآگئی۔ ایک سرجن کے ہاتھوں علاج کرانے میں خاصا رسک ہوتا ہے۔۔۔ زکام ہو تو بھی آپریشن کرڈالے گا۔ کیا مجیب الرحمن کا نام بھی کسی کویاد ہے ؟ نواز شریف کے پہلے دورکے گلیڈی ایٹر سیف الرحمن کا بھائی؟ اُس وقت سیف الرحمن کا سورج نصف النہار پر تھا، اس لیے اُس نے موقعے سے فائدہ اٹھا کر مجیب الرحمن کو پی سی بی کا سربراہ بنوانے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ کوشش کسی کامیابی سے ہمکنار ہوتی، نواز حکومت جاتی رہی۔ اس کے بعد شریف برادران جیل میں اور الرحمن برادران غائب۔ 
چونکہ ہم متقی اور پرہیز گار قوم ہیں، اس لیے ہم بشری قواعد بنانے اور بدعتوں پر عمل کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ کسی قانون کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ سے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کرنا چیف ایگزیکٹو کی ''اخلاقی ذمہ داری‘‘ قرار پاتی ہے۔۔۔ جہاں اخلاق بیچ میں آجائے، وہاں قانون کی کیا مجال ؟ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ وہ سیاست دان بعد میں اور بزنس مین پہلے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنے میںکوئی قباحت دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا بھی دعویٰ رہا ہے کہ کرکٹ کا بہت علم رکھتے ہیں؛ چنانچہ اپنی زوجہ محترمہ وزیرِ اعظم پاکستان کو قائل کیا کہ وہ اُنہیں 1996ء کے ورلڈ کپ کے انتظامات سنبھالنے دیں (اس سے چار سال پہلے ہم ورلڈ کپ جیت چکے تھے اور ٹیم دولت کی گنگا میں بہتی دکھائی دی تھی۔) چنانچہ مردِ اوّل نے دھماکہ خیز انداز میں اپنے سیکرٹریٹ کو سپورٹس کی پی آر ایجنسی میں تبدل کرلیا۔ کتنے اچھے تھے وہ دن کہ ہر شخص ہر فن مولا ہوا کرتا تھا۔ ایسے ہی اربابِ فنون نے کرکٹ کوگھر کی باندی بنائے رکھا۔ 
اگر کرکٹ کو نیلام کرنے کی تجویز منظور نہ ہو تو پھر دوسرا آپشن یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے پیشہ ور کھلاڑی ہیں جو جدید کرکٹ کے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ نجم سیٹھی بھی بطور چیئرمین ٹھیک ہیں اور پھر یہ سیٹھی صاحب ہی ہیں جنہوںنے پاکستان کوکرکٹ کی عالمی تنہائی سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پاکستان کو کرکٹ کی ایگزیکٹوکمیٹی میں نشست مل گئی ہے۔ اس سے کچھ معاملات بہتری کی طرف جائیں گے۔ نواز شریف خود بھی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں، گو کپتان (عمران خان) الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ من پسند امپائروں کی مدد سے بلے بازی کیا کرتے تھے۔ بہرحال ایک مرتبہ وہ بلا تھامے، بغیر ہیلمٹ پہنے، ویسٹ انڈیز کے برق رفتار بالروںکے مقابلے پر میدان میں اتر آئے تھے۔ ایک بات طے ہے کہ وہ بھی کرکٹ سمجھتے ہیں، اس لیے اُنہیں کرکٹ معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے اسے اپنی اور عدلیہ کی مداخلت سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں