بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے

رمضان کے آخری عشرے میں مسلمان اپنی روحوں کو ایمان سے تروتاز ہ کرتے ہیں۔ وہ نیک اعمال او ر خیرات کے ذریعے دوسری زندگی میں جنت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کرناایک طرح کا مذہبی فریضہ بھی ہے اورقومی ذمہ داری بھی۔ تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قومی اور عالمی پریس کی طر ف سے منفی تبصرے کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن پھر دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو۔ 
شمالی وزیرستان سے آنے والے مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں کچھ بدنظمی بھی دکھائی دی، لیکن ایسا ہوتا ہے کیونکہ جب لاکھوں افراد ہجرت کرتے ہیں تو کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آہی جاتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہجرت معمول کے حالات میں نہیں کی جاتی۔ تاہم اس دوران مجموعی طور پر صورت ِحال بہت بہتر ہے اور عالمی میڈیا تک یہ بات ضرور جانی چاہیے کہ پاکستان ان افراد کی دیکھ بھال کرنے میں کامیاب جارہاہے۔پاکستان کے ادارے اور نجی تنظیمیں ان کی مدد کرنے کی حتی المقدور کوشش کررہی ہیں۔ مجموعی طور پر آپریشن کامیاب جارہا ہے۔ بھاگ کر مشکل جگہوں پر چھپنے والوں پر امریکی ڈرون حملے ہورہے ہیں۔ یہی ایک مثالی صورت تھی جس کے ذریعے ہم اس فسادی گروہ کو ختم کرسکتے تھے۔ اگر ایسا بہت پہلے ہوجاتا تو شاید پچاس ہزار پاکستانیوں کاخون نہ بہتا۔ 
دراصل میڈیاکو سنسنی خیز اور دلچسپ خبروں کی تلاش ہوتی ہے تاکہ وہ اس کی چٹ پٹی کہانی بنا کر اسے اپنے قارئین یا ناظرین کے سامنے پیش کرسکے۔ چنانچہ شمالی وزیرستان کے ایک حاجی گلزار خان عالمی میڈیا میں خاصا رش لے رہے ہیں اور ان کے بارے میں تفصیل پڑھناہرگز خوشگوار تجربہ نہیں۔ حاجی صاحب نے پیرس سے تعلق رکھنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس آپریشن نے ان کی چوتھی شادی کا خواب چکنا چور کردیا اور تین درجن بچوںکے باپ کی ''معصوم ‘‘سی خواہش دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔54 سالہ حاجی گلزار کی تین بیویاں ہیں اور وہ دادا بھی بن چکے ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنے بچوںکی عمر کی کسی لڑکی سے شاد ی کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ آپریشن (فوجی) ہوگیا۔ انہوں نے اپنے ارمانوں کے خون کو آنسوئوں میں ڈھالتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے فرض پوراکرنے کے لیے رقم کا انتظام کرلیا تھا لیکن شاید قسمت کو ان کی خوشی منظور نہ تھی۔۔۔'' حسرت اُن غنچوں پہ ہے ۔۔۔‘‘سفید داڑھی، جھریوں والے چہرے اور کھوکھلے پچکے ہوئے گالوں والے حاجی صاحب نے کہا کہ وہ رقم تو کرایوں کی مدمیں لگ گئی، لیکن وہ آپریشن کے اختتام پر پھر رقم جمع کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ''ہمت ِ مرداں۔۔۔۔‘‘ ۔ اس کے علاوہ اس کی تینوں بیویاں ایک ایک درجن بچوںکی مائیں بننے کے بعد سراپا احتجاج ہیں ، اس لیے چوتھی کی ضرورت لاحق ہے۔ 
دراصل حاجی صاحب تو میڈیا کی نظروں میں آگئے، ورنہ وہ اس باغ میں تنہا نہال نہیں۔ آبادی کا اندازہ چار لاکھ تھا، لیکن ان جیسوںکے قوت ِ بازو نے تین گنا بڑھا دی۔ بہرحال پاکستان کے جاہل اور پسماندہ علاقوں میں یہ ایک معمول کی بات ہے۔ یہاں عورتوں کی مرضی مطلق نہیں چلتی، گلزار خان نے ہاتھ کے درشت اشار ے سے احتجاج کرنے والی بیویوں کو خاموش کراتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ چوتھی شادی کرنے والے ہیں تو کس کی مجال کے ان کے سامنے دم بھی مارے۔ 
اب عالمی میڈیا میں پیش کی جانے والی یہ کہانی آئی ڈی پیز کی کسمپرسی بیان کرتی ہے یا یہ ایک انسان کی داستانِ عشرت ہے ؟ کسی بھی معمر شخص کی طرف سے پریس پر اس طرح کی فتوحات کا ذکرکرنا کسی مہذب انسان کا شیوہ نہیں۔ان کی تیسری بیوی کی عمر یقینا ان کے بچوںسے کم ہوگی اور چوتھی ، اگر ہوئی تو بہت ہی کمسن ہوگی۔دراصل ایسے لوگ مذہب کو روح کی گہرائی تک نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے لفظی معانی سمجھ کر اس پر راسخ ہوجاتے ہیں۔ قرآن ایک سے زائد شادیوں کی اجازت صرف اس صورت میں دیتا ہے جب کوئی انسان ان کے ساتھ انصاف کرسکے اور یہ بات تو خالقِ کائنات نے بھی تسلیم کی ہے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ اس کے باوجود اس معاشرے میں لوگ قدرے زیادہ عمر والی بیویوں کو چھوڑ کر چھوٹی عمر کی لڑکیوںسے شادی کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے سفلی جذبات کی تکمیل کے لیے مذہب کی اجازت استعمال کرتے ہیں ۔ چونکہ اس معاشرے میں آدمیوں کو عورتوںسے افضل سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہ سوچتے ہیں کہ عورتوں سے جیسا چاہے سلوک کیا جاسکتا ہے۔ 
کیا پاکستان میں پھیلی ہوئی جہالت، ذہنی پسماندگی اور غربت میں کبھی کچھ کمی آئے گی؟ اس کے امکانات بہت معدوم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہم ہر معاملے میں مذہب کی من پسند تشریح آگے کردیتے ہیں۔ اگر حاجی گلزار کو یہ سہولت میسر نہ ہوتی کہ وہ اپنے بچوںکو چھوٹی عمر میں کام پر ڈال دے بلکہ اگر اُسے ریاست (اگر یہاں کوئی ایسا چیز موجود ہے) مجبور کرتی کہ وہ انہیں سکولوں میں تعلیم دلائے تو پھر یقینااسے اتنے بچے پیدا کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتا۔ اب اُس کے بیٹے دبئی میں ٹیکسی چلارہے ہیں اور اچھے خاصے پیسے بھیج رہے ہیں۔ وہ مزید شادیاں کرتا جائے گا اور مزید بچے پیدا کرتا جائے گا۔ لیکن تعلیم، عقل، شعور اور احساس ِ ذمہ داری اس گھرانے میںکبھی بھی داخل نہیںہوسکے گی۔حاجی گلزار نے شکوہ کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ اُسے ''پرائیویسی ‘‘ کا مسئلہ لاحق رہتا ہے، کیونکہ بقول شعیب بن عزیز ۔۔۔''اس طرح تو ہوتاہے، اس طرح کے کاموں میں۔‘‘
حاجی گلزار کی تو ایک مثال ہے، پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ جس معاشرے پر حکومت کی کوئی عملداری نہ ہو، جس کے افراد ماضی میں رہنے کو نجات کا سبب مانتے ہوں، جہاں جہالت اور ہٹ دھرمی کو بصیرت کا نام دیا جائے، وہاں حاجی گلزار جیسے شگوفے ہی پھوٹیںگے۔ دہشت گردی کا ایک اہم سبب کثرت ِ آبادی بھی ہے۔ اگر دو یا تین بچے ہوں ، تو کون باپ اُنہیں انتہا پسندوں کے حوالے کرکے خود کش بمبار بنائے گا؟ وہ اُنہیں بہترین تعلیم اور تربیت دینے کی کوشش کرے گا، لیکن تین یا چار درجن بچوں کی تو ایک ہی تربیت کی جاسکتی ہے کہ وہ رات کو جلدی سوجائیںتاکہ صبح جلد اٹھ سکیں۔ بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ حاجی گلزار کے چودہ سالہ بیٹے نے بتایا کہ وہ اپنے باپ کی طرح متعدد شادیاں کرے گا اور کوشش کرے گاکہ بچوںکی تعداد میں اپنے باپ سے سبقت لے سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم آبادی کے مقابلے میں بھارت اور چین کو چیلنج کرنے والے ہیں۔ جب حکومت دہشت گردوں کا صفایا کردے تو اُسے ان معاملات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ ملک کس طرف جارہا ہے۔ حکومت پوری دنیا سے قرضے مانگ مانگ کر کتنے پیٹ پالے گی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں