قرآنِ مجید میں شیطان کی نافرمانی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب فرشتوںسے کہا گیا کہ آدمؑ کے سامنے جھک جائو توسب حکم ِ ربی کی تعمیل بجالائے‘ سوائے شیطان کے ۔ وہ جنات میں سے تھا اور اس نے تکبر کیااور پھر اُسے راندہِ درگاہ کردیا گیا۔ خدا نے اُسے انسانوں کا کھلا دشمن قرار دیا۔
افطار کا وقت ہے اور تمام اہلِ خانہ ایک دوسرے سے بحث کررہے ہیں۔ خاتونِ خانہ افطاری کے لیے تیارکی جانے والی اشیا کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ہے لیکن بحث اُس کی پریشانی میں اضافہ کررہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ سب خاموشی ہوجائیں اور خدا کے عاجز بندے بن کرافطاری کے وقت کا انتظارکریں۔ آخر تنگ آکراُس نے کہا: ''بچو، لگتا ہے گھر میں شیطان گھس آیا ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی گھر میں خاموشی چھا گئی۔ پھر اُس خاتون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شیطان شور پسند کرتا ہے کیونکہ اُسے خاموشی راس نہیں آتی۔ اُس کا کام ہمیں بہکانا ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ شور شرابے کے عالم میں ہمارے ذہن مائوف رہیں اور اُسے موقع مل جائے۔ یہ نصیحت سن کر بچوں نے خاموشی سے سرجھکا لیا ، اُنہیں خوف تھا کہ ان کے رویے سے گھر میں شیطان گھس کر اُن پر غلبہ پاسکتا ہے۔ اُنہوںنے اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگی اورگھر میں سکون نامی رحمت داخل ہوگئی۔ دراصل اہلِ ایمان وہی ہیں جو شیطان سے دور رہتے ہوئے خدا کو خوش کرتے ہیں۔
اگر دنیا بھر کے مسلمان مرد اور عورتیں ایسا کرپاتے تو اسلام میںنہ کوئی فرقہ واریت ہوتی اور نہ کوئی اختلافی نظریات اور نہ ہی ان اختلافات کی بنیاد پر قتل و غارت ہوتی اور نہ ہی مسلمان اتنے کمزورہوتے کہ تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔چلیںغزہ میں تو صہیونی افواج فلسطینیوںکا قتل ِ عام کررہی ہیں لیکن باقی دنیا میں تو ایسا نہیں ہے ۔ بیشتر ممالک میں مرنے والے اور مارنے والے، دونوں کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہے۔ عرب دنیا میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کی خلیج خون سے بھرتی جا رہی ہے۔ اس رمضان میں پورا عالم ِ اسلام ایک سنگین بحران میں گھر چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وارننگ کی مہلت تمام ہوچکی۔۔۔۔۔ بستیاں داغدارہیں۔
آج عالم ِ اسلام میں جو قتل وغارت ہورہی ہے وہ نائن الیون کے بعد سے کھیلی جانے والی خون کی ہولی سے مختلف ہے۔ اُس وقت وائٹ ہائوس جا رج ڈبلیو بش کے نیو کنزرویٹو جنگجوئوںسے بھرا ہوا تھا۔ اپنے ارد گرد سے امریکی صدر کے کانوں سے ایک صدا ہی ٹکرارہی تھی کہ عراق اور افغانستان پر چڑھائی کردو۔ نیوکنزرویٹوز اکثر زور دیتے ہیں کہ امریکی فوج، طاقت استعمال کرتے ہوئے نہ صرف دنیا میں جمہوری قدروں کو رائج کرے بلکہ امریکی مفادات کا تحفظ بھی کیا جائے اور ان ''نیک مقاصد ‘‘کے لیے بہائے جانے والے خون کی پروا نہ کی جائے۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے وقت میں امریکہ میں تھی ، میں جانتی ہوں کہ اُس وقت امریکی مسلمانوں کو کس طرح نشانہ بنایا گیا۔ مجھے ایک حدیثِ مبارک کے الفاظ یاد آتے تھے:''ایک وقت آئے گا جب تمہارا دین تمہارے ہاتھوں میں جلتے ہوئے کوئلوں کی طرح بن جائے گا‘‘۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں ہم پر وہ وقت آ گیا ہے۔ چہروں پر شیطانی مسکراہٹ سجائے جیری فلول (Jerry Falwell) اور بل گراہم(Billy Graham) اسلامی شعائر پر حملہ آور ہورہے تھے۔ ایک اسلامی سکالر اکبر احمد اس بے بسی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:''ایک ایٹمی طاقت سمیت پچپن مسلمان ممالک میں رہنے والے1.3 بلین مسلمانوں کے ساتھ کوئی سنگین مسئلہ ضرور ہے، ورنہ مسلمان اتنے بے بس کبھی نہیں رہے ‘‘۔ اکبر احمد جو نائن الیون حملوں کے وقت واشنگٹن ڈی سی کی امریکن یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفیسر اور اسلامک سٹڈیزکے شعبے کی''ابن خلدون چیئر‘‘ کے سربراہ تھے، کا مزید کہنا تھا: ''آپ کیا کرسکتے ہیں جب مذہبی تعلیمی اداروںکے سربراہ آپ کی مذہبی شخصیات کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کریں اور ''نیشنل ریویو‘‘ کا ایڈیٹر بھی ایسی ہی ہرزہ سرائی کرے۔ اس وقت شناخت کے بحران سے دوچار اسلامی دنیا اس طوفانِ بدتمیز ی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے جو مغرب نے اسلام کے بارے میں اٹھا رکھا ہے۔ اس وقت (2002 ء میں) امریکی کانگرس میں ایک بھی مسلمان رکن نہیں نہ مسلمان میڈیا کی کوئی قدآور شخصیت دنیاکے سامنے موجود ہے اور نہ ایسے اسلامی سکالر ہیں جو مغرب کا جواب دے سکیں ‘‘۔
مسلمان شیطان کا خصوصی ہدف تو ہیں ہی، اس راندہ ِ درگاہ کا ہاتھ بٹانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اسلامی دنیا میں ہمہ وقت اتنا ہنگامہ مچا رہتا ہے ، ایک دوسرے کو دائرہ ِ اسلام سے خارج کرنے کے لیے انوکھے جوازگھڑے جاتے ہیں، ایک دوسرے کی گردن زنی کی جاتی ہے کہ اغیار کا ہاتھ روکنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ایسا لگتا ہے کہ فرقہ واریت(قطعِ نظر اس سے کہ کون درست ہے اورکون غلط) شیطان کا سب سے قوی ہتھیار ہے۔ حکیم الامت ؒ نے کہا تھا:''شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا۔۔۔۔ یہ وہ پھل ہے جو جنت سے نکلواتا ہے آدم کو‘‘۔ آج جب حقیقت خرافات میں اور یہ امت روایات میں کھو چکی ہے تو سب سے ضروری بات ہے کہ گھر میں داخل ہو کر فرقوں میں بانٹنے والے شیطان کوگھر سے نکالا جائے۔
نائن الیون کے تیرہ سال بعد آج امریکی فورسزکے حملے ختم ہوچکے لیکن مسلمان ہی مسلمان کے قتل پر آمادہ ہے۔ ایک ترک اخبارکے مطابق روزانہ دنیا میں ایک ہزار کے قریب مسلمان ہلاک کردیے جاتے ہیں اور ان میں سے نوے فیصد اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں ہی جان کی بازی ہارتے ہیں۔ اس وقت حماس لڑ تو اسرائیل سے رہا ہے لیکن اس کی قیمت غزہ کے شہریوں کو اپنی خون سے چکانا پڑرہی ہے۔ دراصل اس انسانی قیدخانے(غزہ) میں بھیانک ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ ہلاکتوںکی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو میڈیا پر دکھائی جارہی ہے۔
دنیا یاد رکھے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ رہا ہے اور کوئی بھی اسے روکنے کا چارہ نہیںکررہا۔اس پانی نے آخرکار سمندر تک پہنچ جانا ہے اور '' قطرہ قطرہ بہم می شود دریا ‘‘کی طرح یہ ایک جوئے خون کی صورت دھار لے گا۔ اُس وقت کوئی مذہب پر انگلی نہ اٹھائے ۔ غزہ اور باقی دنیا میں ٹپکنے والا خون ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا، صرف ایک سمندر میں اس کے مرتکز ہونے کی ضرورت ہے؛ تاہم اُس وقت تک مسلم معاشروںنے ان شیاطین کو اپنے اپنے گھروں سے نکالنا ہے جنہوںنے اُنہیں فرقوں میں بانٹ کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رکھے ہیں۔ رمضان المبارک کے اختتامی لمحات ہیں اور یہ بہت قیمتی دن ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پوری دنیا کے مسلمان اس دنوں میں کم از کم ایک وعدہ کرلیں کہ کل سے شیطان کو شکست دینے کی کوشش کا آغاز اس طرح کیا جائے گا کہ ہر مسلمان خود کو کسی فرقے کی شناخت کے شیطانی طوق سے آزاد کرالے گا۔ یا د رکھیں، امت میں ڈالی جانے والا سارا افتراق فتنہ ہے، چاہے ان کے نام کتنے ہی نیک کیوں نہ دکھائی دیں۔ ان فتنوںنے آج ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ عرب دنیا سے لے کر پاکستان تک، فرقہ واریت کی جنگ سیاسی غلبے کی جنگ بن چکی ہے۔۔۔۔ اگر ہم نے خود کو جلد نہ سنبھالاتو ایک مرتبہ پھر ہلاکوخان کے ہاتھوں بغداد اجڑنے والا ہے۔