موجودہ سیاسی جمود کا ایک حل

آج بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناحؒ کی برسی ہے۔ کیا اس موقع پر ایک سو ستر ملین پاکستانی ایک سوچ پر توجہ مرتکز کرسکتے ہیں؟کیا قوم یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران اور ڈاکٹر قادری کے پیچھے کھڑی ہوسکتی ہے یا پھر موجودہ جمہوری نظام کا تسلسل ہی چاہتی ہے؟ہو سکتا ہے کہ یہ بات ناقابل ِ یقین دکھائی دے لیکن ڈیلاس سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ عین ممکن ہے۔ ڈاکٹر لیری ڈوسی (Dr. Larry Dossey)کی کتاب ''ون مائنڈ‘‘ اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ ہر فرد کی سوچ ایک اجتماعی سوچ کا حصہ ہوتی ہے۔ اس سے روحانی علوم کی سائنسی طور پر وضاحت ہوجاتی ہے۔ اپنے نظریے کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب ایک شہادت پیش کرتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے ارد گرد ایک لامحدود ''کائناتی ذہانت‘‘ موجود ہے جو ہر چیز کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے او رہم سب اس کو کسی نہ کسی حد تک شیئرکرتے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی سوچ اور رویے کو تشکیل دیتی ہے۔ 
ذرا تصورکریں کہ اگر تمام پاکستان اس کائناتی ذہانت کے ذریعے ایک دوسرے کی سوچ سے جڑا ہوا ہو اور ہم سب ایک دوسرے سے ذہنی رابطے میں ہوں تو کیسا معاشرہ تشکیل پائے گا۔ ڈاکٹر لیری اس قوت کی کئی ایک مثالیں دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کے علاوہ جانور بھی اپنی ذہنی قوت سے انسانوںسے ابلاغ کرلیتے ہیں۔ یہاں ایک لمحہ رک کر ذرا سوچیں کہ اگر وزیراعظم نواز شریف اپنے آرام دہ دفتر میں بیٹھ کر تمام قوم کو ذہنی پیغام پہنچا دیں تو اُنہیں ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کی ضرورت رہے گی اور نہ پارلیمنٹ جانے (وہ تو ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں تھی، یہ ذرا آج کل کی مجبوری ہے)اور حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طویل تقاریر سننے کی۔ وہ عمران خان سے اس قوت کے ذریعے مذاکرات بھی کرلیںگے اور یقین کریں، وہاں غلط بیانی سے کام لینا ممکن نہیںہوگا۔ 
دوسری طرف اگر عمران خان اور ڈاکٹر قادری ذہنی قوت استعمال کرتے ہوئے پیغامات بھیجنے پر قادر ہوتے تو ایک صاحب بڑے آرام سے بنی گالہ میں اپنے آرام دہ گھر اور دوسرے صاحب کینیڈا ، نہ کہ کنٹینر، میں ہوتے اور اپنے اپنے مقامات سے ملکی معیشت کی طرح ایک انچ بھی سرکے بغیر اپنے حامیوں سے رابطہ کرکے اپنے موقف سے آگاہ کرتے رہتے۔ ایسی صورت میں ان کے حامی اور وہ خود اس ابتلا، جس کا اُنہیں گزشتہ تین ہفتوںسے سامنا ہے، سے بچ جاتے اور بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کو تپتی دھوپ اوربرستی بارش میںشاہراہِ دستور پر قیام کرنا پڑتا اور نہ پاکستان کا دنیا بھر میں تماشا لگتا۔ 
ڈاکٹر لیری کا اصرار ہے کہ ایک ''اجتماعی احساس ‘‘ موجود ہے اور تمام ذہن اس کا ایک حصہ ہیں۔ انسانی ذہن میں سوچ، شعور، جذبات، احساسات اور خیالات کا ایک دریا بہتا رہتا ہے۔ اس موضوع پر بہت سی کتب لکھی گئی ہیں ۔ تاہم ، ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ایک ایسی کائناتی ذہانت بھی موجود ہے جو ہر چیز کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے اور ہم سب کسی نہ کسی حد تک اس کا حصہ ہیں۔ یہ کائناتی ذہانت ہم سب کو اپنے گھیرے میں لیے رکھتی ہے۔ اس مرحلے پر رک کر ذرا سوچیں کہ کیا ہم زمان ومکاں کی حدود سے ماورا ہوکر دوسروںسے ذہنی رابطہ کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہو تو میری اپنے سیاسی قائدین سے استدعا ہے کہ وہ فی الفور یہ طاقت حاصل کریں۔۔۔ پھر خیال آتا ہے کہ اس میں ذہن بھی استعمال ہونا ہے، چلیںکوئی بات نہیں امید سے دستبردار ہونا درست نہیں۔ اگر سیاست دان ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ عوام سے ہر وقت رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ اُنہیں بھاری بھرکم جلسوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ا س سے وقت بھی بچے گا اور توانائی بھی۔ عوام بھی بہت سی پریشانیوںسے محفوظ رہ پائیںگے۔ مسائل جو ان کے حل ہونے ہیں، وہ ہونے ہیں لیکن کم ازکم اُنہیں اپنے رہنمائوں کی خوشنودی کے لیے جلسوں میں جانے کی بیگار نہیں بھگتنی پڑے گی۔ اس طاقت سے ملکی ترقی کی نت نئی راہیں کھل سکتی تھیں۔ نواز شریف اور ان کی کابینہ قوم کو آگے لے جاتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لیے تیار کرلیتے۔ وہ لوگوں کو باور کراد یتے کہ وہ بہترین حکمران ہیں ، اس لیے اُنہیں مزید چار سال اور اس کے بعد مزید پانچ سال حکومت کرنی چاہیے۔ 
جدید تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یہ کائناتی ذہانت صرف ایک بے بنیاد خیال نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ ڈاکٹر لیری اپنی کتاب میں کئی ایک مثالیں دیتے ہیں کہ کس طرح لوگ اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے خیالات کو شیئرکر لیتے ہیں۔ اس میدان میں ہونے والی مزید تحقیقات روحانیات کے بہت سے رازوںسے پردہ اٹھا دیں گی۔ کتنا اچھا ہوتا اگر عمران اور ڈاکٹر قادری تمام پاکستانیوں، بشمول نواز شریف اور ان کی کابینہ تک پیارمحبت اور ملنساری کا پیغام پہنچاتے تو اس وقت تک ہم بہت اچھی خبریں سن رہے ہوتے۔ ایسی طاقت کے ہوتے ہوئے تمام جرائم ختم ہو جائیں گے۔ کوئی کسی کو قتل کرے گا اور نہ لوٹ سکے گا۔ 
ڈاکٹر لیری کا کہنا ہے کہ انسانوں کا رویہ دوسروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ماضی میں اسے اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور رویے کو انفرادی محرک قرار دیا جاتا تھا لیکن اب اس نئی تحقیق کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ رویہ اجتماعی سوچ سے پروان چڑھتا ہے اور حالات اسے راسخ کردیتے ہیں۔ آج ذہانت کی ترقی کے دور میں غلطی کرنے کے امکانات سکڑرہے ہیں۔ ایسے بفر زون (جیسا کہ سیاست) کم رہ گئے ہیں جہاں آپ حماقتیں کرنے کے بعد بھی بچ نکلیں۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد کم و بیش ایک جیسے خیالات کے مالک کیوں ہوتے ہیں۔
کیا آپ واقعی یہ سوچتے ہیں کہ پاکستانی سیاست ماضی کی نسبت مختلف طرز اپنالے گی؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ بدعنوانی، اقربا پروری، دھاندلی اور دیگر برائیاں ہماری جان چھوڑ دیں گی؟ کیا ہمارے حکمران سدھر جائیں گے اور وہ عوام کی صحت، تعلیم اور دیگر فلاح و بہبود پر توجہ دیںگے؟کیا ہمارے ملک میں بھی مساوات کی کوئی جھلک دکھائی دے گی؟ کیا امیر، غریب کا فرق کم سے کم رہ جائے گا؟ ان سوالوں کے جواب میںڈاکٹر لیری کا کہنا ہے کہ کائناتی ذہانت ایک تصور ہی نہیں بلکہ یہ عملی طور پر بھی تحریک دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ کس طرح اور اب تک ہم نے اس کا اظہارکیوں نہیں دیکھا ہے؟ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے کہ یہ ذہانت ہماری زندگی میں بتدریج تبدیلی لاتی ہے۔ اس لیے عزیز قارئین کو مشورہ دیتی ہوں کہ اپنی ذہنی صلاحیت میں اضافہ کریں ۔ یہ کوئی جادو نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی ہمزاد قابو میں آئے گا۔ صرف اپنی سوچ کو قابومیں کرلیں تو سمجھ لیںکہ ایک جن آپ کے قابو میں آگیا ہے۔ خیالات کے بھٹکتے ہوئے سونامی کو ایک نکتے پر مرتکز کریں اور پھر ذہن کے عجائبات دیکھیں۔ آئند ہ کسی کالم میں اس موضوع پر مزید کچھ لکھوں گی۔ ہمارے انتشار، ژولیدہ فکری اور اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرے میں ذہن کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں