موروثی سیاست اور جمہوریت

بلاول بھٹو زرداری نے آخر کار سکوت توڑا۔ طنزو تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے اُنھوںنے الطاف بھائی کو خبردار کیا کہ وہ اپنے ''نامعلوم افراد‘‘ کو کنٹرول کریں یا پھر نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے غیظ وغصب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ اُنھوں نے جوشیلے لہجے میں کہا۔۔۔''انکل الطاف، اگر میرے کارکنوں کو خراش تک بھی آئی تو لندن پولیس کو چھوڑیں، میں (بلاول) آپ کا جینا حرام کر دوں گا۔‘‘ اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے عمرا ن خان، نوا ز شریف اور چوہدری نثار کوا ٓڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا یہ افراد جمہوریت کے اوراق میں زیرو درجہ رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ، بقول بلاول، حقیقی جمہوریت پسند اور جمہور دوست صرف اور صرف ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے۔ نوجوان بلاول نے جمہوریت کو قربانی کے ترازو پر تول کر یہ نتیجہ نکالا۔ 
ایک مرتبہ ایک امریکی سفیر نے مجھے اسلام آباد میں کہا۔۔۔''دنیا نوجوانوں کی شیدائی ہوتی ہے‘‘۔۔۔اور ان کا کہنا درست تھا۔ جب میں امریکی آئی تو میں نے دیکھا کہ عمر رسید ہ افراد کی بجائے ملازمت کے لیے بیس سال کی عمر کے لگ بھگ افراد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم یہ گزشتہ صدی کی بات تھی۔ آج کی دنیا میں عمر سے زیادہ پرکشش شخصیت اور دولت مند خاندان کی اہمیت ہے۔ آج برطانیہ کا شاہی خاندان، فلم سٹار، میڈیا کی اہم شخصیات اپنے خاندان اور اپنی پرکشش شخصیت کی وجہ سے دنیا کی توجہ اپنی طرف رکھتے ہیں۔ پرنس ولیم اور ان کی خوبصورت بیوی ڈچز آف کیمبرج، کیٹ، فلمی دنیامیں ہلچل مچا دینے والا جوڑا، اینجلینا جولی اور بارڈ پٹ اور پاپ موسیقار Beyoncé اورay-Z مقبولیت کی دوڑ میں بہت آگے ہیں۔ ان تمام افراد کو نوجوان نہیں کہا جاسکتا۔ 
پرنس ولیم یا ڈچز آف کیمبرج کون ہیں؟ ان کی ذاتی صلاحیتیں اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ پرنس کا تعلق شاہی خاندان سے ہے اور کیٹ خوبصورت ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب آپ ایک خاص خاندان سے تعلق رکھتے ہوں تو یہ تعلق ہی آپ کی سب سے بڑی خوبی بن جاتا ہے۔ اسی طرح جسمانی کشش بھی کسی اداکارہ کو شہرت کی بلندی دلادیتی ہے۔ میڈیا میں کامیابی کے لیے خاندان اور کشش کی اہمیت کا موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے، اس پر پھر کبھی سہی، چنانچہ واپس مسٹر بلاول پر آجائیں جو گزشتہ ماہ چھبیس سال کے ہوئے اور جو پاکستان میں اقتدار کی دوڑ میں شریک ہیں۔ وہ کسی اور کو اپنے مقابلے پر دوڑتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اگرچہ نواز شریف نے گزشتہ انتخابات میںبلاول کے والد صاحب کو سبق سکھاتے ہوئے اقتدار سے باہر کردیا تھا لیکن مریم نوازکو اقتدار کی دوڑ میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے عید کے پیغام میں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ اگلا وزیر ِ اعظم پی پی پی سے ہوگا۔ روئے سخن اپنی طرف تھا۔
کیا یہ پاکستانیوں کے لیے بہت خوشی کی خبر نہیںکہ محترمہ کا بیٹا اور ذوالفقارعلی بھٹو کا نواسہ مسند ِ اقتدار پر فائز ہونے جارہا ہے؟ ہرگز نہیں، پاکستان کے زیادہ تر لوگ موروثی سیاست سے تنگ ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ جب سیاست دان اپنی آخری عمر میں بیمار، یا کسی اور مسئلے کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اپنے جانشیں مقرر کیوں کرجاتے ہیں؟کیا پاکستان میں بادشاہت رائج ہے؟کیا پاکستان چند خاندانوں کی حکمرانی کے شغل ، جس دوران وہ کھل کر لوٹ مارکرسکیں، کے لیے ہی بنا تھا؟کیا پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یا مغل سلطنت، یا سعودی عرب کی کاربن کاپی یاسلاطین دہلی کا تسلسل؟ ہمارے ہاںبادشاہوں کے مرنے کے بعد بھی شاہی مزاج کیوں فنا کے گھاٹ نہیں اترا؟ اس دھرتی کا آسمان بھٹو، زرداری، گیلانی، شریف، چودھری پر ہی سایہ فگن کیوںہے۔ یہ افراد نابغہ ٔ روزگار خوبیوں کے مالک ہر گز نہ تھے۔ ان میں سے کچھ پرانی گاڑیاں فروخت کرنے والے تھے( زرداری)، کچھ لوہا ساز(شریف برادران)، کچھ گدی نشین( گیلانی) ، کچھ پولیس افسران (چودھری)، کچھ جاگیردار(بھٹو)، لیکن ایک مرتبہ جب اقتدار کا ہما ان پر سایہ فگن ہوگیا تو یہ ملک و قوم کے لیے ناگزیر بن گئے۔ 
بیٹا خدا کی نعمت اور بیٹی رحمت، درست ، لیکن سیاست میں تسلسل کے لیے نہیں۔مہذب ممالک میں سیاسی رہنمائوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ لوگ بے اولاد ہیں۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں لیکن وہ اپنی اولاد کو اپنے منصب سے فائدہ نہیں اُٹھانے دیتے، لیکن ہمارے ہاں پدرانہ شفقت کا قلزم اقتدار کے کوزے میں بند کرکے وراثت کردیا جاتا ہے۔ ایوب خان سے شروع کرلیں اور دیکھیں کہ ان کے بیٹوں اور دامادوں نے کس طرح اقتدار کی گنگا میں اشنان کیا۔۔۔ پراپرٹی اورلائسنس وغیرہ ۔ ایوب خان پرذاتی طور پر مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا اور شاید اُنہیں اپنی اولاد کے کارناموںکا زیادہ علم بھی نہ تھا۔ اسی طرح ضیا الحق کے دور میں اعجاز الحق بھی گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ضیا کی چہیتی بیٹی زین ضیا تھیں لیکن وہ ایک خصوصی بچی تھیں جنہیں شاید اس توجہ کی ضرورت بھی تھی۔ بہرحال سیاسی طور پر کسی نے بھی اس بچی پر توجہ پر تنقید نہیں کی۔ 
ہمارے ہاں موروثی سیاست کی اصل ابتدا ''بھٹو کے بچوں ‘‘ سے ہوئی۔ میر اخیال ہے کہ اب چونکہ جیالا بریگیڈ بھٹوازم کو از سرِ نوزندہ کرتے ہوئے بلاول کو پاکستان پر مسلط کرنے پر کمر بستہ ہے تو شاید وقت آگیا ہے کہ عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ ''بھٹو بچے‘‘اُس دولت پر کس طرح آپس میں لڑے جو قذافی نے بھٹو کو تحفے میں دی۔ بلاول شروع میں تو پاکستان میں کنفیوژن کا شکار تھے لیکن پھر ان کا میک اپ کیا گیا۔ اس میں اہم ترین اقدام ان کے بالوں کومخصوص وڈیرہ اسٹائل دینا تھا۔ وڈیرہ بنتے ہی سیاست دان تیار۔۔۔ شلوار قمیض، اردو میں مظہر شاہی تڑکا اور برطانیہ میں حاصل کی گئی تعلیم گئی بھاڑ میں اور پھر خم ٹھونک کر انکل الطاف کے سامنے، جو ان سے کہیں بہتر تقریر کا ملکہ رکھتے ہیں۔ بلاول صاحب الطاف بھائی ، جو '' جالب مقابلے‘‘ میں شہباز شریف کو بھی مات دے چکے ہیں، جیسی اردو تو کجا سندھی بھی نہیں بول سکتے۔ ویسے یہ کس کا آئیڈیا تھا کہ لندن پلٹ بلاول، جن کے بارے میں عام پاکستانیوں کا خوش گوار تاثر یہی تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کو رنگ دار چادر میں لپیٹ کر اور وڈیروں کے سے بال بنا کر گرجنا چمکنا سکھادیں؟ پاکستانی ووٹر اس بلاول کے منتظر ہرگز نہیں تھے۔ گیلانی خاندان کے لڑکوں نے بھی کم نہیں کی تھی لیکن اب چونکہ وہ مصائب کا شکار ہیں ، اس لیے ان پر بات کرنا مناسب نہیں۔ 
موروثی سیاست درحقیقت آج پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر نوجوان حکمران خاندانوں کے نوجوانوں کے سیاسی عہدوں سے نالاں ہیں۔ کپتان، علامہ قادری اور الطاف حسین موروثی سیاست کے خلاف توانا آوازیں ہیں۔ درحقیقت کپتان نے اس مسئلے کواجاگر کرتے ہوئے اہم ترین قومی و سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ان سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ پر لیکن عوام کی ایک بڑی اکثریت اس مسئلے پر ان سے متفق ہے۔ کیا بلاول صرف اس لیے پاکستان کے اگلے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں کہ ان کا تعلق بھٹو اور زرداری خاندان سے ہے؟ نہیں مسٹر بلاول، ایسا نہیں ہوگا۔ زیادہ تر پاکستان تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن ایسی تبدیلی نہیں جس میں، بقول غالب۔۔۔''ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب ہیں‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں