دو افراد جو ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہوں، ان کے لیے میری نصیحت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو چاکلیٹ دے کر امن کا دامن تھام لیں۔ چاکلیٹ کا استعمال نہ صرف دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کی طرف دل کو مائل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ یادداشت کو بھی بڑھاتا ہے۔ یہ مذاق نہیں، سائنسی تحقیق یہی کہتی ہے۔ سیاست میں چاکلیٹی ڈپلومیسی کی افادیت کو جانچنا چاہیے۔
موجودہ سائنسی تحقیق کولمبیا یونیورسٹی کی طر ف سے سامنے آئی کہ کوکا، جس سے چاکلیٹ بنتا ہے، خون کی شریانوںکو نرم رکھتا ہے اور انہیں اکڑنے سے بچاتا ہے۔ یہ سوزش کو بھی دور کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے یادداشت کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے۔ گویا ہمارے ملک میں چاکلیٹ کا استعمال بہت سے سیاست دانوں کی دکان بند کر سکتا ہے۔ کیا میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور عمران کو یہ نصیحت کرنے میں حق بجانب ہوں؟ دونوں میں ایک قدر مشترک ہے... دونوں اصحاب خود کو ہمارا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ جسٹس چوہدری کو عوام کی حمایت اُس وقت ملی جب جنرل مشرف نے اُن پر دبائو ڈالا۔ ان کی مزاحمت نے اُنہیں عوام کا ہیرو بنا دیا... باقی تاریخ ہے۔
عمران خان کو اُس وقت شہرت ملی جب اُنہوں نے 2013ء کے انتخابات سے پہلے لاہور کا تاریخی جلسہ کیا۔ وہ سیاسی افق پر چھا گئے۔ انتخابات میں ان کی جماعت تیسرے نمبر پر رہی؛ تاہم ایک سال بعد عمران وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلیاں جعلی ہیں کیونکہ انتخابات میں بے پناہ دھاندلی کی گئی۔ اُنہوں نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیا‘ لیکن دھرنے اور جلسوں کے باوجود عمران کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا‘ اگرچہ اُنہوں نے حکومت کے قدموں تلے سے زمین سرکا دی۔
عام آدمی کو عمران خان سے ہمدردی ہے، لیکن جسٹس چوہدری جیسی عوامی حمایت عمران کو نہیں ملی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جسٹس چوہدری اکیلے ایک ہیرو کا درجہ حاصل کر گئے تھے لیکن لوگ جب عمران خان کے دائیں بائیں دیکھتے ہیں‘ تو وہ کسی طور انقلابی یا نئے پاکستان کے نقیب دکھائی نہیں دیتے۔ عمران خان کی طرف سے جسٹس چوہدری پر دھاندلی کا الزام بھی بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ ان الزامات کے جواب میں ارسلان افتخار نے عمران خان پر بیس بلین روپے کا ہتک ِعزت کا دعویٰ کر دیا۔ آج کل دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان کے درمیان ''چاکلیٹ ڈپلومیسی‘‘ کو ایک موقع ملنا چاہیے۔
حالیہ دنوں جسٹس (ر) افتخار چوہدری ایک ایسی کار ڈرائیو کرتے پائے گئے جس پر نمبر پلیٹ نہیں لگی ہوئی تھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ سکیورٹی وجوہ کی بنا پر۔ کیا اس بات میں وزن ہے؟ کیا پاکستان میں جنگل کا قانون ہے کہ جس کا جو جی چاہے قانون بنا لے؟ کیا عام آدمی کو بھی یہی جواز دیا جا سکتا ہے یا پھر اس کی جان اتنی قیمتی نہیں؟ اس سے پہلے جسٹس صاحب نے اپنے بیٹے پر لگائے گئے الزامات پر جو کیس شروع کیا تھا، اس کا انجام لوگوںکو یاد ہے۔ جو شخص بات بات پر سووموٹو لے کر حکومت کو خائف رکھتا تھا اور اُس کا دعویٰ تھا کہ ملک میں صرف وہی بدعنوانی کے خلاف لڑ رہے ہیں، آج اُسے چاکلیٹ پیش کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ یادداشت تازہ ہو جائے کہ اُنہوں نے سابق وزیر اعظم کو کیوںگھر بھیجا تھا؟ احساس ہو یا نہ ہو، یادداشت تازہ کرنے میں کیا حرج ہے؟۔ شنید ہے کہ انسانوں میں ضمیر بھی ہوتا ہے۔ واﷲ اعلم!
جہاں تک عمران کا تعلق ہے‘ تو ان کے خلوص پر کسی کو شبہ نہیں۔ وہ مالی بدعنوانی کے الزامات سے بھی دور ہیں، لیکن ان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ خود کو ہر کمزوری سے مبرا سمجھتے ہیں۔ وہ نہ کسی کا مشورہ لیتے ہیں اور نہ اپنی رائے کو غلط سمجھتے ہیں۔ پورا پاکستان طالبان کے دھماکوں کی زد میں تھا اور وہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر نوحہ کناں تھے۔ ڈرون حملے ملک دشمن عناصر کو ہدف بنا رہے تھے اور خان صاحب عوام کی رائے کو گمراہ کر رہے تھے۔ کسی زمانے میں ان کا سب سے بڑا قومی ایشو عافیہ صدیقی تھی... خان! یادداشت کو کیا ہو گیا ہے؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف، انصاف کی بالادستی کے لیے ہے لیکن ان کی جماعت ملتان سے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں فتح یاب ہونے والے ایک ایسے شخص کی حمایت کر رہی تھی جو بہت سے الزامات کی زد میں ہے۔ لگتا ہے کہ خان صاحب کو بہت زیادہ چاکلیٹس کی ضرورت ہے۔
اداکارہ میرا کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان سے شادی کی خواہش مند ہے۔ خواہشات کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا اور شادی کی خواہش، اور وہ بھی میرا کی، کے آگے تو کچھ بھی نہیں باندھا جا سکتا؛ تاہم میں میرا کو مشورہ دوں گی کہ اگر ایسا وقوعہ ہو جائے تو وہ عمران کو چاکلیٹ کبھی نہ کھانے دے کیونکہ ایک مرتبہ مجھے انٹرویو دیتے ہوئے عمران نے کہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوشی کی بات باپ بننا ہے اور وہ اپنے بیٹوںکی خاطر کبھی شادی نہیں کریں گے۔ میں نے عمران سے پانچ سال پہلے کہا تھا... ''ہمیں اتاترک کی ضرورت ہے۔ کیا تم بن سکتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا، ''نہیں، اتاترک میرا ماڈل نہیں۔ آپ پاکستان میں مغربی اقدار کو پرموٹ نہیںکر سکتے۔ میرے ماڈل مسٹر جناح اور مہاتیر محمد ہیں‘‘۔
چاکلیٹ کی خوبیوں پر تکیہ کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی پیش کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر ماڈل ٹائون سانحے میں اُنہیں نامزد کر دیا گیا تو وہ مستعفی ہو کر قانون کا سامنا کریں گے۔ جسٹس باقر رپورٹ نے نامزد کر دیا لیکن وعدہ کیا ہوا؟ خدشہ ہے کہ چاکلیٹ کام نہیں کرے گا۔ اب تو محترم گلو بٹ بھی انکاری ہیں کہ اُنہوں نے زندگی بھر کبھی ڈنڈا تھاما‘ یا کوئی شیشہ توڑا ہے۔ ان کی بات کو بھی سچ مان لیتے ہیں کیونکہ پھر ان کا کیا قصور ہے کہ ان کے بیان پر قوم اعتماد نہ کرے۔
مسٹر بلاول اُس ملک سے آئے ہیں‘ جہاں چاکلیٹ بہت کھائے جاتے ہیں۔ جوان آدمی ہیں، امید ہے کہ ان کی یادداشت قوی ہو گی۔ اس لیے وہ جلسوں میں جو کچھ کہہ رہے ہیں، یاد رکھیں گے۔ ویسے تو ہمارا میڈیا بھی ''چاکلیٹی‘‘ ہے۔ اس کی ریکارڈنگز یاد دلاتی رہتی ہیں... سب کچھ سوائے اوقات کے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا سیاسی منظرنامہ اتنا الجھ گیا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ دو ماہ کے واقعات کا ایک فائدہ ہوا کہ عوام نے بہت خوشی سے دیکھا اور سنا کہ تقریباً تمام سیاسی پنڈت، جنہوں نے ٹی وی پر سدا بہار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، اپنے اندازوں میں غلط ثابت ہوئے۔ یہ بہت اچھی پیش رفت ہے۔ اسے پرنٹ میڈیا والوں کو مستحسن نظروں سے دیکھنا چاہیے۔