کثرتِ آبادی کے مسائل

ایک دوست کا کہنا ہے ،''پاکستان کا مستقبل بھارت کے ساتھ وابستہ ہے‘‘۔ میں ان کی بات سن کر چونک گئی۔جانتے ہوئے کہ یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوگی، ڈاکٹر رفعت حسین نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے غدار، بھارتی ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دینے سے پہلے ان معروضات پر غور کریں۔۔۔'' آج بھارت آبادی سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ زیادہ افراد کو زندگی کی بنیادی سہولیات بمشکل ہی حاصل ہیں۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ لاتعداد لڑکیوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جسم فروشی کرنا پڑتی ہے۔۔۔۔ عظیم ملک کے شیش محل نما روشن مستقبل کو حقائق کے سنگریزے چکنا چور کررہے ہیں۔ ‘‘
بھارت کے حالات کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ ان دونوں ممالک کے حالات میں زیادہ فرق نہیں ہے، بلکہ پاکستانی اشرافیہ بھارتی طرزِ زندگی، جو فلموں اور ڈراموں میں دکھائی جاتی ہے، کی نقالی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ اصل نقل سے بہرکیف بہتر ہوتی ہے، اس لیے اگر ہم نے یہ روش نہ بدلی تو آنے والے بیس برسوں میں بھارت سے بھی بدتر معاشرے میں سانس لے رہے ہوں گے۔ 
پاکستان میں آلودگی زیادہ ہے یا بھارت میں؟ حقیقی اعداد وشمار کے لیے ماہرین کا تجزیہ درکار ہوگا لیکن اگر آپ رش آورز میں لاہور اور اس کے مضافاتی علاقے، جیسا کہ مریدکے اور شیخوپورہ، جہاں حکمران طبقے کی کیمیکلز فیکٹریاں آبی، فضائی اور زمینی آلودگی کا باعث بنتی ہے ، یا ایک نظر کراچی پر ڈالیںتو لگتا ہے کہ آلودگی میں ''ہم کسی سے کم نہیں‘‘۔ وہ لوگ جو لاہور کے پوش علاقوں یا اسلام آباد میں رہتے ہیں، ان کی ایک اور دنیا ہے، عام پاکستانی کی دنیا دوسری ہے۔ صنعتی شہر، فیصل آباد میں فضائی آلودگی کی وجہ سے خطرناک بیماریاں عام ہیں۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے نوزائیدہ بچوںکی ہلاکت کے واقعات میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے۔ سڑکوں اور فیکٹریوں کی تعمیر اور توسیع کے لیے کٹنے والا ہر درخت ''قتل‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ جدید لاہور کی گلیاں اور سڑکیں پاکستان کے کسی بھی شہر سے زیادہ صاف ہیں ، لیکن جب باقی ملک کچرے کا ڈھیر ہو توایک شہر، اور وہ بھی کچھ مخصوص علاقے،صاف رکھنا بذاتِ خود بہت سے سوال اٹھاتا ہے۔ مسٹر کائوس جی وہ آخری صحافی تھے جو ان موضوعات پر تواتر سے لکھا کرتے تھے ۔ آج ہمارا میڈیا پھر کسی کائوس جی کا منتظر ہے!
رفعت حسین آج کل بھارت کے دورے پر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ کرنال سے آگے دہلی کی طرف بڑھیں تو ایک چھوٹا سا گائوں آتا ہے جہاں ٹرک ڈرائیور قیام کرتے ہیں۔ اس گائوں کا نام پونج پورہ(Poonj Pura) ہے۔ رفعت حسین نے نوٹ کیا کہ یہاںکے آدمی کام نہیں کرتے، بس بے کار بیٹھے رہتے ہیں یا چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرلیتے ہیں۔ ان کی عورتیں ہی کفالت کرتی ہیں۔ کیسے؟ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس قصبے میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں شاید ایسا کوئی قصبہ نہیں لیکن انفرادی سطح پر ایسے واقعات ناممکنات میں سے نہیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس قعر ِ مذلت میں گرنے کے لیے کیوں تیار ہیں؟ بے روزگاری، مہنگائی، اخلاقی قدروں کا زوال وہ ٹائم بم ہے جو ہمارے سماج کو بھسم سے کردے گا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کہنا حماقت ہوگی کہ پاکستان جسم فروشی کے حوالے سے بھارت بنتا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایک اسلامی معاشرہ رکھتے ہیں اور ہمارے ہاں ابھی مشرقی اقدار زندہ ہیں۔ اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہمارا حال بہت سے معاشروں سے اچھا ہے ۔۔۔ اور بھارت سے تو بہت ہی بہتر ہے۔ ان صاحب کی خوش فہمی اپنی جگہ پر لیکن زمینی حقائق بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ یہیں سے ہم معاشرے کی بہتری کا کام کر سکتے ہیں۔ اگر ہم مسئلے کی موجودگی سے ہی انکار کرتے رہیں گے تو معاملہ اندر ہی اندر سنگین ہوتا چلا جائے گا۔
رفعت حسین کے بقول پاکستان اور بھارت کو جس اہم ترین مسئلے کا سامنا ہے اور جس سے تمام مسائل جنم لیتے ہیں، وہ تیزی سے بلاروک ٹوک بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ مہنگائی ، جرائم اور آلودگی کی وجہ کثرت ِ آبادی ہی ہے۔ انتہا پسندی، جس نے ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے، کی وجہ بھی کثرت ِ ازدواج و اولاد ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کے دو یا تین بچے ہوں گے تو اُنہیں اچھی تعلیم دے کر ان کے مستقبل کا سوچے گا۔ وہ اُنہیں انتہا پسندوں کے پاس نہیں بھیجے گا۔ تاہم آبادی پر کنٹرول نہ تو ہمارے میڈیا کے موضوعات میں سے ہے اور نہ ہی ملا کی تبلیغ لوگوں کو اپنا کنبہ چھوٹا رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔ اس کی بجائے بعض حلقے اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ ''غیر مسلموں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اپنی تعداد کو خوب بڑھائو۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ ان بچوں کی تعلیم ، صحت اور دیگر انسانی سہولیات کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ انہیں ملازمت ، بجلی، گیس، پانی اور تفریح کیسے فراہم کی جائے گی۔ ان کے رہنے کے لیے مکانات اور ان کے دفن ہونے کے لیے قبرستان کہاں سے آئیںگے۔۔۔۔ موخرالذکر پاکستان کا مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنا سمجھا جاتا ہے یا جتنی اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ 
آج جب پاکستان انتہا پسندی کا شکار ہے اور بہت سے گروہ اس معاشرے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔۔۔ اس دوران سیاسی جماعتیں اور حکمران دھرنوں اور جلسوں اور مصروف ہیں۔ ان انتہا پسندوں کو بچوں کی کھیپ چاہیے تاکہ وہ انہیں اپنی جہادی سرگرمیوں میں جھونک سکیں۔ یقینا پاکستان میں قومی درد اور دین کے حقیقی تقاضوں کو سمجھنے والے علما کی بھی کمی نہیںلیکن ایسا لگتا ہے کہ توازن ان کے ہاتھ سے نکل کر انتہا پسندی کی تبلیغ کرنے والوں کے ہاتھ چلا گیا ہے۔ ریاستِ پاکستان بھی غفلت کی مرتکب ہے کیونکہ وہ نہ تو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کرسکی ہے اور نہ ہی ان تمام بچوں کے لیے لبرل اور جدید تعلیم کا اہتمام کرنے کے قابل ہے۔ لامحالہ یہ بچے انتہا پسندوں کے مدرسوں میںجائیں گے جو انہیں نہ صرف مفت تعلیم دیتے ہیں بلکہ ان قیام و طعام کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔ ان کے پاس فنڈز کی بھی کمی نہیں۔ یہ بچے یہاں مستقل طور پر مقیم ہو جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا‘ رہائش‘ صحت تمام اخراجات مدارس کے ذمہ ہوتے ہیں۔ وہ یہاں دینی تعلیم تو حاصل کرتے ہیں لیکن اکثر مدارس میں دنیاوی اور جدید تعلیم کا انتظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ بچے سسٹم کا حصہ نہیں بن پاتے۔ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ٹھیک طور پر ایڈجسٹ نہیں ہوتے۔ ایسے میں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام طبقات کا خیال رکھے اور مدارس کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔سابق صدر مشرف نے ایسا کرنے کی کوشش کی لیکن بوجوہ وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے بہت کام کیا لیکن مدارس کو جدید سہولتوں سے اپ ڈیٹ کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
بھارت کی ریاست ہریانہ میں بھی لال مسجد جیسے حالات پیدا ہوگئے جب ایک انتہا پسند سادھو نے اپنے ارد گرد جنگجو ڈنڈا بردار اکٹھے کرلیے اور ''بھگوان ‘‘ کا حکم نافذ کرنے کا نعرہ لگا دیا۔ بھارتی حکومت کے کان کھڑے ہوگئے۔ کارروائی کرتے ہوئے سادھوکو گرفتار کرلیا گیا اور اس کے مسلح محافظوں کو گولی ماردی گئی۔انتہا پسنددنیاکے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ پاکستان اور بھارت میں اتنی آسانی سے لوگوں کو اپنے گروہ میں کیسے شامل کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان ممالک میں مذہبی طبقہ طاقتور ہے۔ وہ اس کو سیاسی طاقت کے لیے استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ سرحد کے دونوں طرف زیادہ تر لوگ جذباتی اور توہم پرست ہیں۔ وہ کسی مسائل کے لیے فوری حل کے لیے ان انتہا پسندوں پر اعتماد کربیٹھتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا۔۔۔''بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ، لیکن عیار طبع خریداردیکھ کر۔‘‘ ہمارے ہاں ایسے عیار طبع خریداروں کی کمی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں