فرسٹ فیملیز کا تعلق اُس مخلوق سے ہے جنہیں دنیا سے ناپید ہونے کا مطلق خطرہ درپیش نہیں ۔ جب تک والدین ملک پر حکومت کررہے ہیں، ان کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور دیگر عزیز و اقارب نہ صرف اُس ملک میںاستحقاق زدہ( معاف کیجئے ، یافتہ) زندگی بسر کریں گے بلکہ اُن میں سے ہی کچھ صدر، وزیر ِ اعظم اور وزراء وغیر ہ بن کر ملک و قوم کی خدمت جاری رکھیں گے اور یونہی گلشن ِ جمہور مہکتا رہے گا۔ بنک بمع بھاری قرضہ جات ان کے حضور دست بستہ، انصاف ان کے ابروئے خم کے دار کے اشارے کا منتظر، حکمرانی، سیادت، قیادت، لیاقت، دیانت، شرافت ان کی باجگزار، عوام ان کی خدمات بجالانے پر نازاں اورآئین و قانون کی کیا مجال، اخلاقیات اور انسانی قدریں بھی مزاج ِ گرامی پر ناروا بوجھ نہیں ڈال پاتیں۔
تاہم فرسٹ فیملیز کے چونچلوں میں صرف پاکستان کو ہی امتیاز حاصل نہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی صورتِ حال پائی جاتی ہے۔ صدر اوباما کی دو بیٹیوں، مالیا(Malia) اور ساشا اوباما(Sasha Obama)، جن کی عمر بالترتیب سولہ اور تیرہ سال ہے، پر کانگرس کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون الزبتھ لیوٹن (Elizabeth Lauten) نے اپنے فیس بک پیج پر تنقید کی۔ ان کے تبصرے نے اس ہفتے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ایک طوفان سا کھڑا کر دیا۔ اس نے لکھا۔۔۔''ڈیر ساشا اور مالیا، میں جانتی ہوں کہ آپ دونوں اپنی اوائل جوانی میں ہیں اور یہ بہت خطرناک عمر ہے۔ تاہم آپ کو خیال رکھنا ہے کہ آپ عام لڑکیاں نہیں بلکہ آپ کا تعلق فرسٹ فیملی سے ہے۔ آپ کو اس منصب کا خیال رکھنا ہے۔‘‘ صدر اوباما اور ا ن کی مسز پر بھی تنقید دیکھنے میں آئی۔مس لیوٹن نے کہا،'' آپ کے والد اوروالدہ اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ میراخیال ہے کہ آ پ کے سامنے کوئی ر ول ماڈل نہیں جس کی پیروی کر سکیں۔ آپ کو ایسا لباس پہننے کی ضرورت ہے جو دوسرے افراد کی نگاہوں میں آپ کے لیے احترام کے جذبات پیدا کرے۔وہ لباس ایسا ہر گزنہیں ہونا چاہیے جو کوئی لااُبالی نوجوان لڑکی بار روم جاتے ہوئے زیب تن کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے بھی آپ کو نت نئے انداز دکھانے کی ضرورت نہیں‘‘۔
تاہم یہ امریکی فرسٹ فیملی کے لباس و آداب کا معاملہ ہے لیکن ہمارے ہاںپائی جانے والی فرسٹ فیملیز کے نوجوان افراد کے مشاغل بہت مختلف ہیں۔ ہمارے ملک میں صدر اور وزیر ِ اعظم کے بچے سوچتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مالک ہیں اور اس کا خزانہ ان کی ملکیت ہے، جیسے چاہیں استعمال کریں۔ ویسے کیا آپ کسی غریب آدمی کا نام بتا سکتے ہیں جو پاکستان میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہوا ہو؟ پھر خیال آتا ہے کہ اس اسلامی رپبلک کی آفاقی ذمہ داریاں ایک غریب آدمی کی فہم و فراست سے ماوراء ہیں۔ یہاں ''پدرم سلطان بود‘‘ ہی حکمرانی کی پہلی اور آخری شرط ہے اور ان کے بچے ہی حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔
آج کے پاکستان کا ''پرنس ولیم ‘‘ کون ہے؟ یقینا یہ منصب چھبیس سالہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس ہے۔ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد وہ نہایت آسودگی سے اگلی حکومت بنائیں گے۔ آنے والے وقتوں میں عزیزہ مریم پاکستان کی حکمران ہوںگی۔ ہمارے ملک میں حکومت کی زیادہ تر کارکردگی فیس بک پر ہی دکھائی دیتی ہے۔ وہاں لامتناہی میگاواٹ بجلی، ان گنت تعلیمی اور صحت ِ عامہ کے منصوبے، ملک میں سڑکوں، پلوں، سرنگوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھا ہے۔ ملازمت کے مواقع امیدواروں کو پکار رہے ہیں کہ ہے کوئی جسے کام کی ضرورت ہو۔ یہاںانتہائی سستی اشیائے ضروریات بھی دستیاب ہیں۔ پرویز رشید کا اصل کام رات دن عمران خان پر طنزیہ جملے بازی کرنا ہے۔ یہ ایسا بارِ گراں ہے کہ ایک آدمی کے بس کا نہیں، چنانچہ اس کار ِ خیر میں پوری کابینہ ہاتھ بٹاتی ہے تو ایک دن گزرتا ہے۔ شام ہوتے ہی کنٹینر کی سرگرمی یا کوئی جلسہ اُنہیں اگلے دن کی مصروفیت عطاکر دیتا ہے۔ اس دوران ملک میں یہی کچھ مل ملا کے ایک سو اسّی ملین افراد بھی عرصۂ زیست کے پابند ہیں۔ ان کا کیا ہے جیسے تیسے زندگی بسر کرلیں گے۔اور یہ تو سب کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ ہے، چنانچہ حکمران ایمان کی پختگی کے سبب ان کی فکر سے آزاد ہیں۔ ایسے درویش صفت اور راضی برضا حکمرانوں کو دیکھ کر ایمان تازہ رہتا ہے تو زندگی بسر ہوتی ہے۔ برا ہو عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کا، جنھوں نے اقرباپروری کے خلاف اتنی مہم چلائی کہ حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ سچ ہے کہ دنیا والے کسی کی صلاحیتوں کا اظہار نہیں دیکھ سکتے۔ تاہم حکمرانوں کے بچوں نے ہمت ہارنے کی بجائے اپنا سیاسی مستقبل بنانا شروع کردیا ہے۔ یقینا اُنہیں اس میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ ہے کوئی دنیا کا اور ملک جو سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی کی ایسی مثال پیش کرسکتا ہو؟
ایوب خان کے بیٹوں اور داماد نے جائیداد بنائی، لائسنس حاصل کیے اور خوب اننگز کھیلی لیکن وہاں شک کا فائدہ دیا جاسکتا ہے کہ ایوب خان بڑی حد تک اُن کے افعال سے بے خبر تھے۔ اس کے بعد ضیا کے صاحبزادے، اعجازالحق، کبھی کبھار منتخب ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے یہی کافی ہے۔ دراصل پاکستان حکمرانوں کے ''بچگانہ دور‘‘ میں اس کے بعد داخل ہوا۔ اب ہمارے ہاں ایک پرانی نسل سیاسی جماعتیں اور منصب سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ، بقول اقبال، ''پل رہی ہے ایک قوم ِ تازہ اس آغوش میں‘‘۔۔۔ حکمرانوں کی ایک نئی نسل ان کے زیرِ سایہ پروان چڑھتے ہوئے امور ِ ریاست سیکھ رہی ہے ۔ یقینا یہ امور کسی ہماشما کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے خاندانی ہونا ضروری ہے۔
بھٹو بچوں کی کہانی بار بار سنائی جانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ قذافی کی طرف سے ملنے والے تحائف پر حکمرانوں کے بچوں کی فرانس میں چپقلش کی کہانیاں ان کے واقف کاروں کی زبان سے سنیںتو پاکستانی سیاست کا ایک منظر آپ پر عیاں ہوگا جو بہت سے بظاہر واقعات کا پسِ منظر تھا۔ میرا خیال ہے کہ اب وہ کہانیاں سنانے کا وقت آگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ جیالے بلاول بھٹو کے سر پر تا ج رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستانی عوام کو بھی بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔ اگلے کالم کا انتظار کیجئے۔