یاد ِ ماضی عذاب ہے یارب!

یہ معین خان کا بطور چیئرمین سی بی آر منصب سنبھالنے کا پہلا دن تھا جب اُنھوں نے لاہور سے اپنی بیوی کی ایک وحشت ناک فون کال ریسیوکی۔ وہ دیوانہ وار چلاتے ہوئے بتارہی تھی کہ اُن کے نوعمر بیٹے کو کسی نے ایچی سن کالج کے سامنے ، مال روڈ پر، گولی مار دی ہے۔ یہ خاندان لندن سے حال ہی میں لاہور منتقل ہوا تھا۔ مسٹر معین لندن میں ایک کامیاب بنکارتھے ، لیکن اُس وقت کے وزیر ِ اعظم ، نواز شریف( جو دوسری مدت کے لیے منصب پر تھے ) نے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی اور کہا وہ چیئرمین سی بی آر کے طور پر اپنے تجربے سے ملک کو مستفید کریں۔ معین خان اس پیش کش کو مسترد نہ کرسکے اور وطن کی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان آگئے۔
مجھ سے بات کرتے ہوئے جب ا ُنھوں نے یہ واقعہ دہرایا تو میں نے پوچھا کہ اُن کے بیٹے کو کس نے گولی کا نشانہ بنایا تھا؟وہ اپنے اسلام آباد کے دفتر میںتھے۔ اُنھوںنے مجھے بتایا کہ وہ ملزم صدیق کانجو، جو نواز شریف کابینہ میں خارجہ امور کے وزیر تھے، کا بیٹا تھا۔ اُنھوں نے مجھے تفصیل سے تو نہیں بتایا لیکن اشارۃً کہا کہ غالباً کسی لڑکی کا معاملہ تھا۔ وہ دونوں لڑکے اُسے پسند کرتے تھے۔ رقابت کی آگ میں جلتے اور حسد سے اندھے ہوتے ہوئے کانجو جونیئر نے اپنے حریف (معین خان کے ٹین ایجر بیٹے ) پر فائر کھول دیا۔غمزدہ والدین اپنے گھائل بیٹے کو فوراً لندن لے گئے جہاںاُس کا بہت مہنگا اور طویل علاج ہوا( جو یقینا مسٹر معین برداشت کرسکتے تھے) اور وہ خوش قسمتی سے صحت یاب ہوگیا۔۔۔ زین اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔
چونکہ اُس وقت نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے ، اس لیے اس واقعے کومیڈیا کی نظر سے اوجھل رکھا گیا۔ بیٹے کے صحت یاب ہونے کے باوجود معین کے خاندان کے لیے اس صدمے کو بھول جانا ممکن نہ تھا۔ اس کی بیوی نے زور دیا کہ وہ اپنے منصب سے استعفادے کر فوری طور پرلندن چلاجائے۔ یہ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے۔ ان کا خاندان لند ن چلا گیا۔ اُس وقت عمران خان نے اُنہیں اپنے کلارا اپارٹمنٹس (Clara Apartments) میں ٹھہرانے کی پیش کش کی۔ اہم بات یہ ہے نواز حکومت نے اُس واقعے کو بالکل نظر انداز کردیا اور اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔ کانجو فیملی سے کوئی باز پرس نہ کی گئی۔
تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اب سابق وزیر کے ایک اور بیٹے نے مبینہ طور پر ایک نوجوان کو لاہور میں گولی کا نشانہ بنایا۔ پریس رپورٹ کے مطابق مصطفی کانجو نے گاڑی چلاتے ہوئے قریب سے گزرنے والی ایک گاڑی پر فائرنگ کردی۔ کیولری گرائونڈ ، لاہور ، کے نزدیک پیش آنے والے اس سفاک واقعے میں پندرہ سالہ زین ہلاک ہوگیا جبکہ گولیوں کی زد میں آکر ایک راہ گیر زخمی بھی ہوا۔ چونکہ آج صدیق کانجو پی ایم ایل (ن) کی حکومت میں وزیر نہیں اور پھر 2001ء کے بعد سے پلوںکے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے، اس لیے پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ ، شہباز شریف، نے ملزم کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ اب مصطفی کانجو جیل میں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیس کیا رخ اختیار کرے گا اور نوجوان زین کو خون میں نہلانے والے قاتل کا کیا انجام ہوگا لیکن ایک سوچ دل کو کچوکے لگاتی ہے کہ اگر اٹھارہ سال پہلے قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا ہوتا اور مسٹر معین کے بیٹے پر فائرنگ کرنے والے کانجو کو سزا مل گئی ہوتی تو شاید مصطفی کانجو کواندھا دھند فائرنگ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ ممکن ہے اُن کے گھر میں آتشیں اسلحہ بھی نہ رکھا جاتا، لیکن اُس وقت قانون نے وی آئی پی کا خیال رکھا جس کی وجہ سے کم وبیش دوعشروں کے بعد ایک اورمعصوم نوجوان گولی کا نشانہ بنا۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا قانون صرف عام شہریوں کے لیے ہی ہے؟ کیا اس کے بازو طاقتور افراد کی گرد ن تک نہیں پہنچتے؟جب تک یہ صورت ِحال تبدیل نہیں ہوتی، ایسی اندوہناک کہانیاں جنم لیتی رہیں گی۔ نوجوان زین کی والدہ نے کہا...''میرے بیٹے کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے‘‘۔ اُنھوں نے وزیر ِاعظم سے استدعا کی اُن کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ اُنہیں کیس کی پیروی کرنے کی صورت میں موت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کا جاگیرداری نظام ہے جس میں طاقتور خاندان، جیسا کہ کانجو فیملی، خود کو قانون سے بالا تر گردانتے ہیں۔ اُن کے پاس خوفناک ، ہلاکت خیز اسلحے کے انبار ہوتے ہیں۔ اُنہیں انسانی جان کی حرمت ہوتی ہے نہ قانون کا ڈر، اس لیے وہ فائرنگ کرنے سے پہلے کسی خدشے کو ذہن میں نہیں لاتے۔ جو بھی ان کے راستے میں آئے ، مارا جاتا ہے۔
یہ کوئی غیر معمولی کہانیاں نہیں ہیں۔ دراصل یہ ہماری جاگیردار انہ طرز سوچ کا عملی اظہار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں جنگل کا قانون ہے ۔ ایک مرتبہ پھر معین خان کی بات کرلیتے ہیں۔ وہ ایک ایماندار بنکار تھے۔ بطور چیئرمین ایف بی آر، اُنھوں نے آتے تاجروں پر سیلز ٹیکس عائد کردیا۔اس کے خلاف لبرٹی مارکیٹ ، لاہور کے تاجروں کی ہڑتال بھی یادداشت کا حصہ ہے۔معین خان، جو اب اس دنیا میں موجود نہیں، نے مجھے بتایا تھا کہ وزیر ِ اعظم نواز شریف نے اُنہیں ٹیکس واپس لینے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد ان کے اپارٹمنٹ کے سامنے ایک پراسرار کار بھی پارک دکھائی دینے لگی۔ ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جارہی تھی۔ بہرحال کچھ دیر کے بعد معین خان انتقال کرگئے اور پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر خالق ِحقیقی سے جاملے۔ ہمارے ہاں ابھی ایسی بہت سی کہانیاں دہرائی جانی ہیں، جانے ہمارا تہذیب کا سفر کب شروع ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں