افشائے راز

دو سینئر آرمی افسران ، جن میں سے ایک ر یٹائرڈ ہونے کے بعد راولپنڈی میں اوردوسرا واشنگٹن ڈی سی میں رہائش پذیر ہے، آج کل سیمور ہرش کی شائع ہونے والی رپورٹ کی وجہ سے خبروں کی زد میں ہیں۔ ان میں سے ایک آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درّانی ہیں جنہیں ملکی اور عالمی معاملات پر پریس سے بات کرنے کا بہت شوق ہے‘ دوسرے افسرایک بریگیڈیئر ہیں جنھوں نے پریس رپورٹس کے مطابق امریکی مخبر کاکردار ادا کیا ۔ آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے وہ افسرایک روشن دن اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں جاتے ہیں اور سی آئی اے کو بن لادن کی پناہ گاہ کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں۔ ا س سے یہ تاثرا بھرتا ہے کہ بن لادن کی موجودگی اور ٹھکانے کا پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو علم تھا۔ ان بریگیڈیئر صاحب نے مبینہ طور پر پچیس ملین ڈالر کی انعام کی رقم ،جو امریکہ نے بن لادن کے بارے میں اطلاع دینے والے کے لیے رکھی ہوئی تھی، کے عوض وہ معلومات فراہم کیں جن کا امریکہ کوشدت سے انتظار تھا۔ اس کے بعد وہ افسرا ور ان کے اہل ِخانہ امریکی افسران کی مدد سے واشنگٹن چلے گئے، غالباً ہمیشہ کے لیے۔ شنید ہے کہ آج کل وہ سی آئی اے کے لیے ایک ''مشیر‘‘ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ 
جنرل اسد درّانی، جن کا مہران بینک سکینڈل میں بھی نام آچکا ہے، ایک مشہور شخصیت ہیں۔ بطور آئی ایس آئی چیف، اُنھوں نے نوے کی دہائی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے کچھ من پسند سیاست دانوں میں رقم تقسیم کی ۔ جب محترمہ 1993ء میں دوسری مدت کے لیے وزیر ِ اعظم بنیں، تو جنرل درّانی نے اُنہیں ذاتی حیثیت میں خط لکھتے ہوئے معافی مانگی اور اپنے سابق باس، جنرل اسلم بیگ پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے ان کی پہلی مدت کی حکومت ختم کرانے میں کردار ادا کیا تھا۔ اس خط نے جنرل درّانی کو محترمہ کی نگاہوں میں بلند کردیا اور وہ جرمنی میں پاکستان کے سفیر بن گئے۔ اس طرح جنرل صاحب خط وغیرہ لکھنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور ان کے فوائد سے بھی آگاہ ہیں۔آج کل درّانی صاحب پھر خبروںمیں ہیں۔ وہ ایک ایسے فوجی افسرہیں جو اپنے ادارے، جس کے ساتھ وہ 34 سال کی وابستگی رکھتے ہیں اور جس میں تھری سٹار جنرل کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں، کے متعلق باتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گزشتہ ماہ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوں نے الزام لگایا کہ آئی ایس آئی نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کے احاطے میں پناہ دی ہوئی تھی۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ زبان کھولتے یا خط لکھتے وقت اپنے ادارے کی بجائے اپنے مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ 
اب اس منظر میں امریکی تحقیقاتی صحافی سیمور ہرش دندناتا ہواداخل ہوتا ہے۔ اپنے طویل مضمون میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی ''اچانک‘‘ نہیں تھی بلکہ اس کے لیے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ ہلاکت سے پہلے اسامہ ایبٹ آباد میں آئی ایس آئی کی تحویل میں تھا۔ وہ اپنے مضمون میں الزام لگاتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے بن لادن کوہلاک کرنے والی کارروائی اورحالات کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا۔ ہرش کے مطابق جنرل کیانی اور جنرل شجاع پاشا اس آپریشن سے آگاہ تھے۔ 
بظاہر ہر ش کی کہانی جنرل درّانی کے الجریزہ کودیے گئے انٹرویو سے ماخوذ دکھائی دیتی ہے۔ وائٹ ہائوس نے ہرش کی کہانی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس میں پیش کیے جانے والے مندرجات کی سختی سے تردید کی ہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کے مطابق۔۔۔ ''جیسا کہ ہم نے اُس وقت کہا تھا، اُس کارروائی سے بہت کم لوگ آگاہ تھے۔ صرف چند ایک سینئر امریکی افسران ہی جانتے تھے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ صدر کا فیصلہ تھا کہ کارروائی سے قبل کسی حکومت ، بشمول پاکستان، کو اطلاع نہ دی جائے۔ ‘‘جب رپورٹ شائع ہونے کے بعد سی این این نے سیمور ہرش کو گھیرلیا تو اُس نے جنرل درّانی کی طرف اشارہ کیا کہ اُنھوںنے اُسے اسامہ کے حوالے سے یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ جب سی این این کے سکیورٹی تجزیہ کار پیٹر برجن (Peter Bergen) نے درّانی کو ای میل کی تو درّانی نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی وہ جانتا ہے کہ بن لادن کو آئی ایس آئی نے پناہ دی ہوئی تھی۔ اُنھو ں نے کہا کہ ان کے پاس معلومات نہیں ، بس اُن کا خیال ہے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ جنرل درّانی نے مسٹر برجن کو یہ بھی بتایا کہ ''بن لادن کو ہلاک کرنے والا آپریشن ہمارے (آئی ایس آئی) تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک جنرل درّانی کے پاس ٹھوس ثبوت موجود نہ ہوں، کیا اُنہیں دنیا بھر میں گھوم کر ایسے دعوے کرنا زیب دیتا ہے؟برجن کا تبصرہ تھا کہ صحافت ہو یا تاریخ، دونوں میں اندازہ نہیں ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ فی الحال جنرل درّانی کے تصورات نے پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ تاہم یہاں ایک اورخبر ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹر کارلوٹا گال(Carlotta Gall) کا کہنا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کارروائی کے وقت پاکستان میں تھیں اور اُنہیں پاکستان کی انٹیلی جنس سروس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا تھا کہ ''اسامہ آئی ایس آئی کی تحویل میں تھا اور یہ کہ اس معاملے کے لیے ایک مخصوص ڈیسک بھی بنایا گیا تھا۔‘‘ مس گال کا کہنا ہے کہ معلومات کا وہ ''ذریعہ‘‘ قابل ِ اعتماد تھا۔ گال کا کہنا ہے کہ ہرش نے پاکستانی اور امریکی ، دونوں ذرائع کو یک جان کرکے رپورٹ تیار کی ہے۔ تاہم ہرش نے اپنے ذرائع کو افشا نہیں کیا ہے۔ 
میں سیمور ہرش سے کئی سال پہلے نیویارک میں ملی تھی۔ اُس وقت اُس کی عمر 68 برس تھی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ امریکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کیا عزائم رکھتا ہے تو اُنھو ں نے جواب دیا۔۔۔''اگر میں کوئی پاکستانی ہوتا تو مجھے پیش آنے والے حالات پر بہت افسوس ہوتا۔ درحقیقت آنے والے دن بہت خوفناک دکھائی دیتے ہیں۔‘‘سیمور ہرش نے خبردار کرتے ہوئے کہا۔۔۔'' آپ کی ایران کے بعد باری آسکتی ہے۔‘‘جب میں اُن سے ملی تو اُس وقت پاکستان میں مشرف حکومت تھی۔ مسٹر ہرش نے کہا۔۔۔''اگر مشرف کو اقتدارسے الگ کردیا گیا، تو سمجھو آپ کے ملک میں آنے والوں کا اتنا تانتا بندھ جائے گا کہ ٹریفک جیم ہوجائے گی۔ سی آئی اے، موساد، را وغیرہ تمہاری ایٹمی تنصیبات پر جھپٹ پڑیں گے۔اس پر آئی ایس آئی کو بہت فکر ہے۔‘‘یہاں ایک مقام ِ فکر ہے کہ سات سال گزر گئے ہیں لیکن ہرش کا کوئی خدشہ درست ثابت نہیں ہوا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پاکستانی افسران کو میڈیا سے دور کیسے رکھا جائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں