اچھی خبر کیا ہے؟

پاکستان اتنے مسائل کا شکار کیوں ہے؟ بہت آسان بات ہے، ان سب کا الزام بھارت پر لگادیں اور چین کی نیند سوجائیں ۔کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کی طرف سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں لیکن کیا اس کا ہوّا کھڑا کرکے ہم اپنی کوتاہیوں سے صرف ِ نظر کردیں؟ ایک فضائی سفر کے دوران فارن پالیسی میگزین میں نسجد ہجیری(Nisid Hajari)کا شائع ہونے والا یہ مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ درحقیقت ہر پاکستانی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہجیری، جوBloomberg View کے ایڈیٹوریل بورڈ کا ممبر ہے، بھارت کے بانی قائدین پر الزام لگاتا ہے کہ ان کی شروع سے ہی پوری کوشش تھی کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ثابت ہو۔ اگرچہ گاندھی کو عالمی سطح پر ایک امن پسند رہنما کیا جاتا تھا لیکن یہ محض دکھاوا ہی تھا ۔ دراصل وہ ایک انتہائی قوم پرست رہنما تھے جنہوں نے ان تصورات کی آبیاری کی جنہوں نے وہ خطرات پیدا کرنے میں مدد کی جن کا آج پاکستان کو سامنا ہے۔ ہجیری عظیم روسی ادیب لیوٹالسٹائی کا حوالہ دیتے ہیں۔ لیوٹالسٹائی نے گاندھی کے بارے میں کہا تھا۔۔۔''ان کی ہندو قومی پرستی ہر چیز کوتباہ کرکے رکھ دے گی‘‘۔ روسی مصنف کی بات یقینا ہمیں بہت بھائے گی۔
دنیا یہ کیوں سوچتی ہے کہ پاکستان ایک مسئلہ ہے؟ اگر ہمارے ہاں کوئی مسائل ہیں تو کیا ان کی ذمہ داری نہرو اور گاندھی پر عائد نہیں ہوتی جنھوں نے دونوں ریاستوں کے درمیان مستقل بنیادوں پر مخاصمت اور عدم اعتماد کی فضا قائم کردی؟دونوں ریاستوں کے چوبیس گھنٹے چلنے اور کبھی سکون کا سانس نہ لینے والے ٹی وی چینل کراس بارڈر حملوں اور ایک دوسرے کے بارے تنقید بھری نشریات کے گولے داغتے رہتے ہیں۔ ہجیری کے بقول اس سے حب الوطنی اور قوم پرستی کے جذبات زیادہ شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایٹمی طاقت کی حامل ریاستیں سرد جنگ لڑنے کا آپشن ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ اب ایسا نہیں کہ روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کے بعداسے فریز کردیا گیا ہے۔ نہیں ، ایسا ہرگز نہیں۔
بہرحال جنگی جنون ایک طرف، پاکستانی میڈیا اپنے درمیان بھی ایک کھولتی ہوئی سرد جنگ کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتا۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب ہمارے صحافتی قلزم میں کوئی نہ کوئی طوفان نہ کھڑا ہوتا ہو۔ ہمیں سکون سے کدورت ہے۔ اب پوری دنیا ہمارے ہاں لڑی جانے والے چومکھی لڑائی دیکھتی اور ہمارے بارے میں رائے قائم کرتی رہتی ہے۔ اس کے بعد ہمارے اہم افراد دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم ایک امن پسند اور باشعور قوم ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری بات پر یقین کیا جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس میں یقینا عالمی سطح پر یہود و ہنود کی سازش کارفرما ہوگی۔ سازش بھی خوب رہی، اس لفظ کو اردو ڈکشنری سے نکال دیں تو ہم میں سے بہت سے گھر جائیں گے۔ فی الحال اس کا کندھا موجود اور ہر الزام اس پر دھرا جاسکتا ہے۔
تاہم ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی مثبت پیش رفت نہیں یا یہاں صرف بری اور حوصلہ شکن خبریں ہی جنم لیتی ہیں۔ ایسا یقینا نہیں ہے، لیکن اگر وہ رپورٹ نہیں ہوپاتیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟ پاکستان کے وہ شہری جنہیں عالمی سفر اختیار کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ اپنے ملک کے بارے میں کیا تاثر رکھتے ہیں۔ امریکہ سے دوبئی کے درمیان اپنے حالیہ سفرکے دوران جب میں اپنے لیپ ٹاپ پر ہجیری کی رپورٹ پڑھ رہی تھی تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے کہا کہ کون کہتا ہے کہ پاکستان ایک مسئلہ ہے؟اس کے بعد اُس نے مجھے ایسے معاملات کے بارے میں بتایا جو عام طور پر پاکستانی میڈیاپسند نہیں کرتا۔ اس نے کہا کہ پاکستان کو صرف سیاسی تجزیہ کاروں کی نظرسے نہ دیکھیں کیونکہ ان بقراطوں کو صرف ایک رخ سے دیکھنے کی عادت ہے۔ ان کی عینک شک کے رنگدار شیشے رکھتی ہے، چنانچہ وہ صاف ستھرا منظر دیکھنے کے اہل نہیں۔ میں نے کہا کہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 379 ملین ڈالر بیرونی ممالک ، خاص طور پر دوبئی کی رئیل اسٹیٹ کی خرید، کی طرف پرواز کرگئے ہیں تو اُس نے کہا کہ یہ اعدادوشمار درست ہوں گے لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ دوسرے ممالک بھی ہمارے ہاں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔پاکستان ایک تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے۔ وہ دوبئی میں کام کرتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی اپنے ملک کے بارے میں بہت پُرامید ہیں۔ یہ د رست ہے کہ چند سال پہلے تک فضا میں مایوسی کے بادل بہت گہرے تھے لیکن اب فضا صاف ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت اور فوجی قیادت کو جاتا ہے کہ جو پیش رفت چند سال پہلے ممکن نہ تھی، اب ایک روشن حقیقت بن چکی ہے۔
فضائی سفر میں اپنے ساتھی مسافر کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ اپنے ملک کے بارے میں پاکستانیوں کی بدلتی ہوئی رائے کی ایک بڑی وجہ جمہوریت ہے۔ اس وقت مجموعی طورپر مسلم دنیا بہت سے مسائل کا شکار ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم اُن مسائل ، جیسا کہ داعش ، سے محفوظ ہیں۔ ہماری معیشت بھی توانا ہورہی ہے، اقتصادی راہ داری سے بہت سی توقعات ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر، سیاسی اتفاق ِ رائے معمولی پیش رفت نہیں۔ کیا ان خبروں پرہلکا پھلکا جشن بنتا ہے یا نہیں ؟ایک اور بات، کیا کرکٹ کی بحالی ایک خوش آئند پیش رفت نہیں۔ جس طرح لاہوریوں نے کرکٹ کا جشن منایا،یہ بذات ِخود ایک خوش آئند بات ہے۔ ویسے ، کیا ہم کبھی پاک بھارت کرکٹ بھی دیکھیں گے اور کیا یہ میچ بھی لاہور میں ہوپائیں گے؟کیا شیکردون (بھارتی اوپنر) اور وہاب ریاض کا ''تصادم‘‘ دیکھنے کے لائق نہیں ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں