نیب ہے یا نوٹنکی!

اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ نیب میںکام کیسے ہوتاہے تو اس کے لئے آپ کو بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ نیب کے سربراہ کے بارے میں‘ جنہیں چیئرمین کہا جاتا ہے، تحقیقات کر کے دیکھ لیں۔ہم خود برسوں تک ان جیسے کرداروں کے افسوں میں گرفتار رہے ہیں ، یعنی یہ لوگ جو بڑے بڑے دفتروں میں بیٹھے فائلیں ادھر ادھر کرتے محض سیاست سیاست کھیلتے ہیں، لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں اورسپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔مختصر یہ کہ قوم کو بے وقوف بنانے کے سوا ان کا او رکوئی کام ہے ہی نہیں!سسٹم کو کرپٹ کرنے والے یہ خود ہیں۔ جن لوگوں کے بارے میں یہ تحقیقات کرتے ہیں، ان سے زیادہ خود انہوں نے احتساب کو ایک مذاق بنا رکھا ہے!اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم کچھ غلط کہہ رہے ہیں تو ہمیں نیب کے کسی ایک ایسے چیئرمین کا نام بتا دیجئے جس کے کارنامے یادگار رہے ہوں۔یہ لوگ تو کمزوریوں او ر خطاؤں کے مہا پتلے ہیں! قوم کی قیمت پر اپنی جیبیں بھرنے والوں کے ساتھ اپنے ''ناجائز تعلقات‘‘ کی بدولت یہ لوگ خود اس قابل ہیں کہ انہیں کٹہرے میںلا کھڑا کیا جائے۔
پندرہ سال پہلے اس ادارے کی تخلیق ہوئی اور تب سے اب تک اس سے بڑا مذاق سامنے نہیں آیا۔کیا کبھی کسی نے یہ حساب کرنے کی زحمت کی ہے کہ نیب کرپٹ افراد اور بینک نادہندگان سے جتنی رقوم واپس لینے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے مقابلے میں یہ کرپٹ ادارہ قومی خزانے پر خود کس قدر بوجھ ڈالے ہوئے ہے؟بڑی بڑی رقوم کے واپس لینے کے جو اس کے دعوے ہیں ان پر بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو ان کو چاہئے کہ پہلے ہمیں حساب دیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں روپے گئے کہاں؟ نیب پر صرف وقت او ر وسائل ضائع کئے گئے ہیں۔یہ نیب نہیں نوٹنکی ہے!
اوراب صورتحال کو مزید گمبھیر کرنے کے لئے اچانک ہی کہیں سے ڈاکٹر ایم شفیق الرحمن نامی صاحب نمودار ہوگئے ہیں۔سنا ہے کہ اگلے ہفتے سپریم کورٹ میں ان صاحب کی درخواست کی سماعت شروع ہو جائے گی۔ اپنی درخواست میں انہوں نے نیب پر الزام لگایا ہے کہ ''ڈیڑھ سو بڑے سکینڈلوں کی ایک مبہم فہرست پیش کر کے اس ادارے نے عدالت کو گمراہ کیا ہے‘‘۔فاضل ڈاکٹر صاحب کے مطابق عدالت میں پیش کی گئی مذکورہ فہرست میںدیگر بد معاشوں کے ساتھ سرزمین پاک کے مشاہیر کے ناموں کا جو اندراج کیا گیا ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ نیب کے موجود ہ چیئرمین میجر (ر)چودھری قمر زمان نے عدالت عظمیٰ میں یہ ناقص فہرست پیش ہی کیوں کی؟ ایک ممکنہ جواب اس کا یہ ہے اورہمیں اپنے جواب کی صحت پر قوی یقین بھی ہے کہ نیب کا ادارہ سرتاپا نا اہلی اور پیشہ ورانہ قابلیت سے محرومی کا نمونہ ہے۔یقینا کسی ''بابو‘‘ نے ''کٹ اینڈ پیسٹ‘‘کر کے یہ فہرست تیار کی ہو گی جو معزز جج صاحبان کو تھما دی گئی؛ تاہم کچھ لوگ ہیں جن کا خیال اس سے مختلف ہے۔انٹرنیٹ پر جو خبریں گردش کر رہی ہیں، ان کے مطابق آسٹریلیا کی حکومت نے کسی کمپنی کے بارے میں تحقیقات شروع کی ہیں جو ایک پاکستانی ڈونالڈ ٹرمپ کی قائم کردہ ہے۔ اس کاروبا ر میں ایک ریٹائرڈ فوجی کے اہل خانہ بھی ان کے شراکت دار ہیں۔ یہ کمپنی وہاں بڑی بڑی زمینیں خرید رہی تھی۔ آسٹریلوی حکومت کو تشویش اس لئے لاحق ہوئی کہ اس کمپنی کے لین دین کے کچھ بھی ثبوت اسے نظر نہیں آرہے تھے؛چنانچہ انہوں نے ہمارے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا۔یہ فوجیوں کو شرمسار کرنے کا ایک بہترین موقع سمجھا گیا ۔ اسی لئے نیب کے سربراہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ پنڈی جا کرفوجیوں کو ان کے اس سابق ساتھی کے کرتوتوں کے بارے میں بریفنگ دیں۔موجودہ حکمرانوں نے بھی در اصل وہی چال آزمانے کی کوشش کی جو زرداری اپنے فوجی مہمانوں کے ساتھ آزماتے رہے تھے۔ زرداری صاحب ان کے ساتھ ہر ملاقات کا آغاز ان جملوں سے کرتے تھے '' اور سنائیں جنرل صاحب، بھائی ٹھیک ہیں؟ کام ٹھیک چل رہا ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی ہاتھ باندھے بیٹھے ان کے فوجی مہمان اپنے خول میں سمٹ کر رہ جاتے۔ ظاہر ہے کہ زرداری صاحب کے ان الفاظ میں یہ مخفی سی دھمکی ہوتی تھی کہ جنرل مشرف کے سب کرتوتوں کی تفصیل ان کے پاس موجود ہے اور اگر ان سے پردہ اٹھا لیا گیا تو فوجیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ موجودہ حکمرانوں نے سوچا کہ یہ چال حالیہ فوجی سیٹ پر بھی آزما لی جائے۔ تاہم پنڈی کے بڑے آدمی کے سامنے جب وہ فائل پیش کی گئی تو انہوں نے نیب کے سربراہ کو کہہ دیا کہ ان کا وقت ضائع کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ وہ اکاؤنٹنٹ جنرل سے مل لیں۔اکاؤنٹنٹ جنرل صاحب سے جب رابطہ ہوا تو انہوں نے نیب کے سربراہ کو خود ان کی اپنی سرگرمیوں اور متعدد وفاقی وزراء، بیوروکریٹس او ر پولیس افسران کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے فرائض کی ایمانداری سے بجا آوری کی اہمیت کے بارے میں پورا لیکچر دے ڈالا۔ جب نیب کے سربراہ نے حکمران اعظم کو آگاہ کیا کہ ان کے ایلچی کے طور پر ان سے کیا سلوک کیا گیا ہے تو انہیں فوری ہدایت دے دی گئی کہ ان کے اور ان کے بھائی یعنی پنجاب کے حکمران اعلیٰ کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں وہ نمٹا دئیے جائیں۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے ڈیڑھ سو سابق اور حالیہ وی وی آئی پیز کے ناموںپر مشتمل جو ناقص فہرست پیش کی گئی ان میں زیادہ مقدمات پر یاتو کام جاری تھا یا وہ نمٹا کر ختم کئے جا چکے تھے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نیب کی جانب سے اس ناقص فہرست کے پیش کئے جانے پر قطعی خو ش نہیں ہوا؛ چنانچہ بعد میں یہ فہرست ترامیم کے ساتھ دوبارہ پیش کر دی گئی ۔یہ سب کچھ سپریم کورٹ کو کنفیوز کرنے کے لئے جان بوجھ کر کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق ان ڈیڑھ سو میں سے پچاس مقدمات مالی بدعنوانیوں، اراضیوں کی خرید و فروخت میں بے قاعدگیوں اور اختیارا ت کے ناجائز استعمال سے متعلق تھے جبکہ اکہتر ایسے معاملات تھے جن کے حوالے سے تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس فہرست میں ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹوں او ر بزنس مینوں کے نام شامل ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام بھی اس فہرست میں درج ہیں۔ڈاکٹر ایم شفیق الرحمن (جو کوئی بھی ہیں) نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں نیب پر جوابی الزامات لگائے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ احتساب سے بچنے کے لئے نیب نے اصل مجرموں کے نام عمداً چھپائے ہیں۔''اس قسم کااخفاء ہمیشہ بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے اور اسے آسانی سے انصاف کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘ سو وہ کون سے اصل چور ہیں جن کو بچانے کی نیب کوشش کر رہا ہے؟یہاں اپنے قارئین کو ہم یہ بھی یاد دلا دیں کہ میاں نواز شریف جب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ہی میجر(ر) چودھری قمر زمان کو اس وقت ملک کے اعلیٰ ترین احتسابی ادارے کا سربراہ مقرر کیا تب سپریم کورٹ نے اس ادارے کے سابق سربراہ کو برطرف کر دیا تھا۔ یہ سابق سربراہ یعنی فصیح بخاری‘ زرداری صاحب کے منتخب کردہ تھے۔ 
اب ذرا لُبِّ لباب (نچوڑ) ملاحظہ فرمائیے: جب وزیراعظم نے قمر زمان کو نیب کا چیئرمین نامزد کیا تو سپریم کورٹ نے حقیقت سامنے لانے کے لئے بھرپور کوشش کی۔ اب ذرا یہ مذاق ملاحظہ فرمائیے جو حکومت نے سپریم کورٹ کے ساتھ کیا۔ حکومت نے نیب کو اندرونی طور پراز خود تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس ادارے کے سربراہ تمام غلط کاریوں سے مبرا قرار دے دئیے گئے۔
اس بار نجانے کیا ہونے والا ہے؟اگر تو ثابت ہو گیا کہ قمر زمان بھی اپنے پیش رو فصیح بخاری کی طرح اپنے محسنوں کو بچانے کے لئے عدالت عظمیٰ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں توکیا ان کا انجام بھی فصیح بخاری جیسا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ انہیں بھی برطرف کر دے گی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں