معنا او ضدنا؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد اور اس جماعت کے کارکنوں کو بتا دیا جائے کہ گزشتہ کئی عشروں سے جن جرائم پیشہ عناصر نے کراچی کو یرغمال بنا رکھا ہے، ان کے خلاف لڑائی میں اگر وہ ہمارے ساتھ نہیں تو پھر یقیناً ہمارے خلاف سمجھے جائیں گے۔ کیا آپ اتفاق نہیں کریں گے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اگر ایم کیو ایم کے سامنے یہی ''معنا او ضدنا‘‘ کا سوال پیش کر دیا جائے تو یہ بالکل باجواز ہوگا؟
یہاں ہم قارئین کو یاد دلا دیں کہ 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کئے گئے حملے کے بعد امریکی صدر جارج بش نے یہی سوال ہمارے سامنے رکھا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی جنگ میں جنرل مشرف نے امریکہ کی مدد نہ کی تو امریکہ پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ نائب امریکی وزیر خارجہ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگر پاکستان نے ہماری مدد نہ کی تو امریکہ اس پر بم برسا برسا کر اسے پتھر کے دور میں واپس پہنچا دے گا۔ اس وقت امریکہ گھائل تھا اور اسے دوسرے ملکوں سے مدد درکار تھی۔
یہ بات بالکل صاف ہے کہ کسی بھی قوم کی سلامتی اور دفاع کو برقرار رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کی بالادستی اور خود مختاری دو ایسی چیزیں ہیں‘ جن پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ ان کے خلاف جانے والا غدار ہوتا ہے، جس کی سزا موت ہے۔ اس ضمن میں سمجھوتے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں۔ الطاف حسین صاحب پہلے ہی سے مفرور ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں کہہ دیا جائے کہ بہتر ہو گا‘ ریاست کے خلاف اپنی شعلہ بیانیوں کو وہ دھیما کر دیں! ماضی میں بھی وہ کھلم کھلا اپنی جماعت کو ریاست کے خلاف اکساتے رہے ہیں، لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے حالیہ جھگڑے میں تو انہوں نے تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ ایم کیو ایم کے سالانہ کنونشن میں شرکت کی غرض سے امریکی شہر ڈیلاس میں جمع ہونے والے پاکستانیوں سے بذریعہ ٹیلی فون لندن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ''عظیم تر بلوچستان‘‘ اور ''عظیم تر پختونستان‘‘ کے قیام کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ کراچی ''عظیم تر پنجاب‘‘ کا ہیڈکوارٹر بنے گا۔ اگر یہ بغاوت نہیں ہے تو از راہِ کرم کوئی ہمیں بتا دے کہ ایم کیو ایم کے قائد آخر اور کیا فرما رہے تھے؟ اگر تو اس سے ان کا مقصد اپنے کارکنوں کو بغاوت پر اکسانا نہیں تھا‘ تو کوئی زحمت کر کے وضاحت کر دے کہ کراچی کے ''عظیم تر پنجاب‘‘ کے ہیڈکوارٹر بننے کا مطلب کیا ہے؟
محدود آئی کیو کا حامل کوئی شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ متحدہ کے قائد کا اشارہ دراصل فوج کی جانب تھا‘ جو آج کل کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ کراچی کی صفائی ستھرائی میں مصروف رینجرز کے سامنے دست تعاون دراز کرتے، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی بندوق تان لی اور فرمایا: ''اسٹیبلشمنٹ کے متعصّب عناصر نے مہاجر نوجوانوں کو مٹا ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ جو اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہی متعصّب لوگوں نے مہاجروں کو غلام بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہوا ہے‘‘۔ امریکہ میں اپنے عقیدت مندوں کو مزید جوش دلانے کے لئے انہوں نے یہ حکم تک دے ڈالا کہ انہیں نیٹو اور اقوام متحدہ سے رابطہ کر کے ''مہاجر کمیونٹی کے خلاف ہونے والی جارحانہ کارروائیوں سے آگاہ کرنا ہو گا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ اور نیٹو کو ''اپنی فوجیں بھیج کر یہ تحقیق کرنی چاہئے کہ کراچی میں ہلاکتوں اور مقاتلوں کے اصل حقائق کیا ہیں؟‘‘ یہاں ہم یہ سب کچھ ایم کیو ایم کی آفیشل ویب سائٹ پر دی گئی تفاصیل سے نقل کر کے پیش کر رہے ہیں۔
غیرملکی افواج کو بلاوا دے کر ریاستی بالادستی اور خود مختاری کو پامال کرنے والے کو آپ کیا کہیں گے؟ پاکستانی وزیر داخلہ تو بے بس ہیں۔ الطاف حسین کی زبان کو لگام دینے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ راولپنڈی میں میڈیا والوں کے سامنے انہوں نے یہ کہا: ''الطاف حسین جب بھی اپنی تقریروں میں ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں، کراچی کی صورت حال ابتر ہو جاتی ہے‘‘۔ نجانے ایسی باتیں ان کے منہ سے کراچی میں آ کر بھی نکل سکیں گی یا نہیں؟ وہی شہر جو ایم کیو ایم کا گڑھ ہے...! ایم کیو ایم کے قائد بلاشبہ کسی ایسی بھگوڑی ٹرین کے جنونی ڈرائیور کی مانند ہیں جس کی بوگیاں ریاست مخالف لایعنی باتوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ باتیں ہم ایک عرصے سے لندن میں مقیم اس شخص کی زبان سے سن رہے ہیں جو جب بھی محسوس کرے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسے گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے‘ تو جھٹ سے ''کراچی کو بند کر دینے‘‘ کی د ھمکی دے دیتا ہے۔ الطاف حسین امریکی گلوکار اور ڈانسر چبی چیکر سے صورت کی مشابہت تو رکھتے ہی ہیں‘ ان کی تقریر سنتے ہوئے بھی چبی چیکر کی یاد آتی ہے۔ یہ وہی گلوکار اور ڈانسر ہیں‘ جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں ٹوِسٹ ناچ کو مقبول عام کیا تھا۔ بذریعہ فون دیے جانے والے الطاف حسین صاحب کے طویل بھاشنوں میں سنجیدہ باتوں سے زیادہ تفریح کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے یہ طوالت زدہ خطابات نہایت ڈرامائی طرز کے ہوتے ہیں۔ اکثر ہم ان میں ربط ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں؛ تاہم تابعداری اور صبر کے ساتھ بیٹھے لوگ اپنے قائد کے منہ سے جھڑتے عقل و دانش کے موتی سمیٹنے میں مصروف رہتے اور اس اژدحام سے باہر نکلنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ اگر آپ ایک ہجوم کے ہاتھوں مرنا چاہتے ہیں تو اور بات ہے‘ ورنہ بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ وہیں بیٹھ کر قائد تحریک کی خودکلامیاں سنیں اور سارا وقت دعا کرتے رہیں کہ یا تو وہ خود بس کر دیں یا فون لائن ڈیڈ ہو جائے! 
وزیر داخلہ صاحب کی یہ بات ان کی احتیاط پسندی کی غماز ہے کہ ''الطاف حسین کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ عدالتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں‘‘۔ اسی لئے وہ دوسروں کو بھی الطاف حسین کے ساتھ احتیاط برتنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں: ''میں نے ذاتی طور پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی صاحب کو یہ کہا ہے کہ اس معاملے کو ایم کیو ایم بمقابلہ پی ٹی آئی نہ بنائیں، لہٰذا ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے دیگر اراکین قومی اسمبلی نے اس بات سے اتفاق کیا ہے‘‘۔ دوسری جانب آصف زرداری اپنا ایک الگ تگڑا کھیل رچائے ہوئے ہیں۔ ان کا جھکاؤ الطاف حسین کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل زرداری صاحب نے خود بھی فوج کے خلاف باتیں کہی تھیں‘ لیکن بعد میں مکر گئے تھے۔ شیری رحمان نے بھی فوراً وضاحت کر ڈالی تھی کہ ان کے لیڈر فوجیوں کا احترام کرتے ہیں؛ تاہم یہ کم از کم اس وقت تو ظاہر نہیں ہو رہا تھا‘ جب زرداری صاحب فوج کے کرپٹ جرنیلوں کو بے نقاب کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ زرداری صاحب کے ترجمان فرحت اللہ بابر صاحب نے بھی خبردار کیا ہے کہ '' فوج کا کوئی ایک غلط قدم بھی اگر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جنگ کی بجائے سیاسی رنگ کا حامل معلوم ہوا تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے‘‘۔ یعنی بالفاظ دیگر ایم کیو ایم کے مبینہ مجرموں پر ''ہاتھ ہولا‘‘ رکھنا چاہئے۔ سیاسی لیڈر بھی ہمت جوڑ کر رینجرز پر کرپشن کے الزامات لگانے کی بنیاد پر ایم کیو ایم کے قائد کو دھرنے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج پر کیچڑ اچھالنے کے الزام میں سو سے زائد شکایات ان کے خلاف درج ہو چکی ہیں۔ مسلح افواج اور رینجرز کے خلاف نازیبا زبان کے استعمال کے الزام کے تحت گلگت میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جا ری کر چکی ہے (لیکن گلگت میں ہی کیوں؟ کیا اس لئے کہ یہ کراچی سے بہت دور واقع ہے؟) گلگت کی اس عدالت کا اعزاز یہ ہے کہ یہ اس جرأت والی ملک کی پہلی عدالت ہے۔ اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھی قاتلانہ حملے کے ایک مقدمے میں ایم کیو ایم کے قائد کو مفرور قرار دے دیا ہے۔ یہ مقدمہ ان کے خلاف رینجرز کے کرنل طاہر کی جانب سے تھانہ سول لائن میں درج کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی الطاف حسین کے خلاف غداری کے الزامات کے تحت کارروائی کے لئے دائر کی گئی پٹیشن کی سماعت کی غرض سے تین رکنی فل بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
اس سے آگے اب کیا ہو گا؟ اس بارے میں فی الحال صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں