سیاسی بیگمات پر کوئی پابندی ہے؟

اس وقت جبکہ یہ امکان موجود ہے کہ آئندہ امریکی انتخابات میں ایک خاتون صدر منتخب ہو جائے گی، یعنی وہ خاتون جوایک سابق امریکی صدر کی اہلیہ بھی ہیں ، تو ایسے میں ہمارے لئے اس پاکستانی طرز فکر کو تسلیم کرنا ذرا دشوار ہے کہ عورت کا اصل ٹھکانہ اس کا گھر ہوتا ہے، ایوان وزیر اعظم نہیں! بے نظیر بھٹو البتہ اس ضمن میں استثنائی حیثیت رکھتی تھیں۔گو ہمیں تو یقین نہیں کہ پاکستان میں پھر کبھی کوئی عورت حکمران بن سکے گی لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ عورتیں مردوں سے بہرحال بہترقائدانہ صلاحیتیں رکھتی ہیں۔ بہرکیف اس موضوع پر کسی بحث کا آغاز ہمارا مقصد نہیں۔ زیر بحث موضوع اس وقت یہ ہے کہ ریحام خان کس طرح پاکستان تحریک انصاف کی ایک نئی پہچان بن رہی ہیں اور وہ کیوں نہ بنیں؟ صرف اس لئے کہ وہ جوان بھی ہیں اور خوش شکل بھی؟ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ سیاسی اور معاشرتی زندگی میں عورتیں جب مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی کوشش کرتی ہیں تو خاص طور پر قدامت پسند پختون اس بارے میں کافی لعن اور طعن کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ امر قطعی تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا کہ کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ہمارے چند دوست جو امریکہ میںمقیم ہیں،انہوں نے اپنی بیگم کو سیاسی اکھاڑے میں اترنے کی اجازت دینے پر عمران خان کو سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک الزام اس ضمن میں یہ بھی سامنے آیا کہ ریحام خان سرکاری خرچ پر ہری پور گئیں۔اگر یہ بات غلط ہے تو بہتر ہوگا کہ نعیم الحق صاحب اس کی تردید کر دیں۔پی ٹی آئی میں موصوف کی حیثیت عمران خان کے نائب کی سی ہے۔دوسرا الزام عمران خان پر یہ ہے کہ انہوں نے متعدد بار یہ کہا کہ ان کی اہلیہ پی ٹی آئی کی سیاست میں کوئی سیاسی کردار نہیں رکھتیں، تو کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سرجن نے ہمیں بتایا کہ انہیں وطن سے جو فیڈ بیک ملتی ہے اس میں عمران خان کے لئے کوئی اچھی خبرنہیں۔ ان کی بیوی کی سیاست میں آمد ان کی جماعت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اداکاریاں اوردکھاوا ٹی وی چینلوں کے پہلے سے طے کردہ پروگراموں میں تو چل سکتے ہیں لیکن سیاست میں اور پھر خاص طور پر پاکستانی سیاست میں یہ چیزیں نہیں چل سکتیں۔ ان صاحب کو ہم ''ڈاکٹر نو‘‘ پکارتے ہیں۔ڈاکٹر نو ریحام خان کے ماضی کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹی سکرین کے اس سابق ستارے کی جیت کاکوئی امکان نہیں ۔ٹی وی پرریحام خان اور بے نظیر بھٹو کے موازنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ریحام کا بینظیر بننا ممکن نہیں۔ایک اور پختون کی رائے ملاحظہ کیجئے، وہ کہتے ہیں ''المیہ یہ ہے کہ عمران خان خود اپنے بد ترین دشمن بن بیٹھے ہیں،اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ ہر گھنٹہ گزرنے کے ساتھ ان کی ساکھ گرتی جا رہی ہے۔‘‘ بد قسمتی سے ان کی اس بات کی تصدیق ممکن نہیں کیونکہ رائے عامہ کے باقاعدہ حصول کا پاکستان میں کوئی رواج نہیں۔سو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے یا گھٹ گئی ہے۔ نعیم الحق صاحب ہمارے پرانے دوست ہیں، نہایت مہذب اور شریف انسان ہیں، اپنے لیڈر کی مقبولیت کے گراف پر وہی کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔ہماری تو امید یہی ہے کہ وہ عمران خان کے مخالفین کو چپ کروا دیںگے۔ڈاکٹر نو مزید کہتے ہیں کہ اگر آنے والے برسوں میں پاکستان کے اقتصاد ی حالات بہتر ہوئے تو ٹی وی کے نام نہاد پنڈت بھلے کچھ کہتے رہیں لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی اپنا موقع گنوا چکے ہوںگے۔ ان کے خیال کے مطابق اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ریحا م خان ہوںگی۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ کے پی کے ایک نہایت قدامت پسند صوبہ ہے اور اگلے انتخابات میں عمران خان کی اہلیہ کا ماضی سوشل میڈیا اور ٹی وی پر جس قدر انہیں ستائے گا، اس کا سوچ کر ہی ہمیں جھر جھری آجاتی ہے۔ اگر آپ کہیں کہ ہم بلا وجہ پریشان ہو رہے ہیں تو ہم کہیں گے کہ جو امر وقوع پذیر ہونا ہو، ہمیں اس کا اندازہ قبل از وقت ہو جاتاہے۔''ڈاکٹر نو‘‘ شاید کچھ زیادہ ہی پڑھ رہے ہیں؟ یا ایسا نہیں ہے؟
قارئین کو بتاتے چلیں کہ مئی 2009ء میں ہم نے اسلام آباد کے مضافات میں واقع عمران خان کے خوبصورت مکان میں ان سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ہمارا پہلا سوال ان سے یہ تھا کہ 1997ء کے انتخابات میں وہ کافی مقبول تھے، لیکن پھر انتخابات سے ایک دن قبل پی ٹی وی نے عمران خان اور سیتا وائٹ کے افیئر اور ان کی مبینہ ناجائز بیٹی کے ذکر پر مبنی رپورٹ چلا دی تھی۔ اس کے بعد سیتا وائٹ کا نام ہر زبان پر تھا۔ جواباً عمران خان نے اپنے ہونٹ بھینچ کر کہا کہ ''سیتا وائٹ کے ساتھ افیئر سے زیادہ نقصان مجھے یہودی لابی کے اس پروپیگنڈے سے پہنچا کہ میرے سابق سسر جمی گولڈ سمتھ نے میری انتخابی مہم کے لئے چالیس ملین ڈالربھیجے تھے۔ جہاں تک سیتا وائٹ کا تعلق ہے، میں نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔اپنی ذاتی زندگی کے نقائص کو چھپانے کی کوشش میں نے کبھی نہیںکی۔ میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں، تاہم اب اندرونی طور پر میری کافی اصلاح ہوچکی ہے۔ روحانیت نے مجھے ایک بہتر انسان بنا دیا ہے‘‘۔ سوالوں کے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ''ایم کیو ایم بھی ان کے میڈیا ٹرائل کے حوالے سے کافی سرگرم رہی ہے اورآپ پر زنا کاری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ سرفراز نواز بھی اس ضمن میں آگے آئے اور لندن میں انہوں نے الطاف حسین سے ملاقات بھی کی۔ جواباً آپ نے ایم کیو ایم کے خلاف(دہشت گردی کے حوالے سے) اپنے الزامات ثابت کرنے کے لئے یکساں سرگرمی نہیں دکھائی، کیوں؟‘‘ عمران خان کا جواب تھا کہ ''میرے پاس ثبوت موجود ہیں لیکن میرے گواہ سامنے آنے سے خوفزدہ ہیں۔ میں نے سکاٹ لینڈ یارڈ والوں سے کہا کہ وہ پاکستان آکر گواہوں سے بیانات لیں، لیکن چونکہ ایم کیو ایم حکومت میں تھی اس لئے سکاٹ لینڈیارڈ والوں کو ویزے نہیں دئیے گئے‘‘۔ پھر موضوع بدلتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا کہ '' ستاو ن برس کی عمر میں بھی آپ بہت چست اور پر کشش ہیں، کیا کوئی خاتون آپ کی زندگی میں موجود ہے؟‘‘اس پر عمران خان ہنسنے لگے تھے۔انہوں نے کہا: ''سیاست ہی میری زندگی ہے۔کسی اور چیزکے لئے میرے پاس وقت نہیں۔ میرے لئے میرے بچے سب سے بڑی خوشی ہیں۔وہ مجھے ایک تکمیل کا احساس دیتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں سے دوری مجھے اداس کرتی ہے۔ ان کی خاطرمیںکبھی دوبارہ شادی نہیں کروں گا‘‘۔ دوسری شادی میں حرج ہی کیا تھا؟شاید چھ برس قبل وہ ایسے کسی بندھن کے لئے تیار نہیں تھے۔ تاہم اب وہ ایک بندھن میں بندھ چکے ہیں۔بیوی کے طور پر انہوں نے جس کا بھی انتخاب کیا، اس پہ نکتہ چینی کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اگر ریحام خان کپتان کی زندگی کے خلا کو پر کر کے ان کی زندگی میںخوشی اور رونق اور ان کے گھر میں رنگ لا رہی ہیں، اور ہم واقعی عمران خان کے خیر خواہ ہیں تو ہمیں اس پہ خوش ہونا چاہیے۔
جہاں تک ان تنگ ذہن پختونو ںکا تعلق ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنی بیوی کو کہیں بند کر کے رکھ دیں اور انہیںاپنا چہرہ سر عام دکھانے کی اجازت نہ دیں تو انہیں ہم فقط یہی کہیںگے کہ خدارا ! ہم اب اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں!! اور ہم پھر سے یہ بتا دیں کہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک میںبھی صدارت اس بار شاید ایک عورت کو ملنے والی ہے، ایک ایسی عورت کو جس کا شوہر بھی دو باراس ملک کا صدر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگر کسی سیاستدان کی بیوی عوامی خدمت کے لئے آگے بڑھتی ہے تو پاکستانی مرد اس پر ناک بھوں چڑھانا بند کردیں! ہمار ے بھی دہرے معیار ہیں۔ اگر ایک سیاستدان کی بیوی کا سیاست سے دوررہنا مناسب ہے توکیا پھر ایک خاتون سیاستدان کے شوہر پر بھی اسی بات کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے؟آصف زرداری صاحب تو پانچ برس تک عہدہ صدارت پر بھی متمکن رہے! اور یہ کس قدر تباہ کن دور تھا جس میں ملک اقربا پروری، یار نوازی اورکرپشن جیسے سہ سری عفریت کے شکنجے میں گرفتار رہا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں