موت کا ایک دن معیّن ہے

اپنے آبائی علاقے اٹک کا یہ آخری دورہ ان کے لئے موت کا بلاوا ثابت ہوا۔آنکھوں پر رے بین کا چشمہ سجائے، چوکور ٹھوڑی اور ترشے نقوش کا حامل وہ خوبصورت چہرہ اب ہمارے بیچ نہیں رہا۔ پنجاب میں جب بھی کوئی ہلاکت خیز واقعہ رونما ہوتا تو کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ ہمیں اکثر ٹی وی سکرین پر نظر آتے۔ وہ ایک نرم گفتاراور منکسر المزاج انسان تھے، حسِ مزاح بھی رکھتے تھے ؛ حالانکہ عموماً ہمارے وی آئی پیز اس سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان ان کے پاس تھا۔ ہر قسم کے خطرے کے خلاف وہ عوام اور اپنی حکومت کے ایک محافظ کے طور پر کھڑے نظر آتے؛ تاہم قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ بالآخر وہ خود دہشت گردی ہی کا شکار بن گئے۔انیس دیگر معصوم انسانوں کے ساتھ انہیں بھی شہادت کی موت نصیب ہوئی۔
دن دہاڑے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی بدولت ایک خطرناک علاقہ بننے سے قبل کھلی بانہوں سے ہر ایک کا خیر مقدم کرنے والا ایک محفوظ اورخوب صورت علاقہ ہوا کرتا تھا۔ ہمیں اس زمانے والا اٹک کا قلعہ یاد ہے جب اسے ابھی ہمارے معزول حکمرانوں کا مکروہ زندان اور عقوبت خانہ نہیں بنایا گیا تھا۔اسلام آباد سے پشاور ہم جی ٹی روڈ کے ذریعے جاتے تھے۔ یہ موٹر وے کی تعمیر سے بہت پہلے کی بات ہے۔ یہ سفر بذات خودکسی چترمالا سے کم نہیں ہوا کرتا تھا۔تاحد نظرپھیلا ہوا لہلہاتا سبزہ اگلے ہی لمحے وادیوں اور میدانوں میں بکھرے ہرے ٹیلوں کے منظر میں بدل جاتا تھا۔ رنگوںسے بھرے بدلتے منظروں کی یہ ایک پر افسوں تصویر ہوتی تھی۔اپنے کیڈٹ کالج کے لئے مشہور،حسن ابدال بھی راستے میں ہی پڑتا تھا۔ وہاں کی سنگلاخ پہاڑیوں میں سے ایک پر ایک درگاہ ہوا کرتی تھی، جہاں لوگ عقیدت کے نذرانے پیش کرنے پہاڑیوں کو پھلانگ کر پہنچ جاتے تھے۔ سکھوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک گوردوارہ پنجہ صاحب بھی وہاں ہے۔ حسن ابدال گزرنے کے بعد چٹیل میدانوں میںپہاڑ قدرے فاصلوں پہ کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ان کی چوٹیاں سردیوں میں برف آلود ہوا کرتی تھیں۔ سب سے شاندار نظارہ اٹک پل اور اٹک قلعے کا ہوتا تھا۔اٹک پل پارکر کے جب ہم پختونخوا میں داخل ہوتے تو سامنے ایک ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا جس کی سیڑھیاں نیچے دریائے کابل اور دریائے سندھ کے سنگم کے پانیوں میں اترتی تھیں۔ یہ جگہ کنڈ کہلاتی تھی۔ ہم اکثر سڑک کنارے رک کر نیچے دریا کے ریتلے کنارے جا کر مچھلیاں پکڑتے۔اکوڑہ خٹک میں اپنے گھر سے ہم اکثر مہمانوں کو لے کر پکنک منانے یہاں آیا کرتے تھے۔کبھی ایک لحظے کو بھی ہمارے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا تھاکہ یہاں ان بڑے بڑے سایہ دار درختوں کی اوٹ میں یا دریا کنارے کہیں کوئی خطرہ منڈلا سکتا ہے۔ہم محفوظ تھے، تفکرات سے آزاد اور خوش!
تیس برس بعد آج کنڈ، چور اچکوں، اغواکاروں اور دہشت گردوں کی جائے پناہ بن چکا ہے۔اس سے چند میل پرے پنجاب کے وزیر داخلہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ وہ یقیناً یہاں اپنی سکیورٹی سمیت بڑی شان سے ساتھ آئے ہوںگے،آخر اپنے گھر آرہے تھے۔آئے تو وہ ایک جرگے کی سربراہی کے لئے تھے، لیکن قدرت کا منصوبہ کچھ اور تھا۔ پنجاب پولیس اپنی پوری طاقت سمیت انہیں خود کش حملہ آور سے بچا نہ پائی۔سکیورٹی کی بات چلی ہے تو شریف برادران اور ان کے وزرا کی فوج ظفر موج اور دیگر دم چھلے اس وقت یقینا کافی اعصابی تناؤ کا شکار ہوں گے۔ انہیںاپنے عدم تحفظ کی فکر ہونی بھی چاہیے۔ ہم بھی انہیں یاد دلانا چاہیں گے کہ اگر آپ پولیس کی ساری طاقت بھی جبراً اپنی خدمت میں لگا لیں اور خود آرام سے گھوم پھرکرعام لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا تے رہیں، تب بھی وقت پورا ہونے پرموت کا فرشتہ پکارے گا توکوئی زمینی طاقت آپ کو بچا نہیں پائے گی۔کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی افسوسناک مثال آپ سب کے سامنے ہے۔
کچھ ہی عرصہ پہلے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کو اس وقت خوف کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ایک سفید پراڈو وزیر اعظم کی سکیورٹی گاڑیوں کے قافلے میں شامل ہو کر ان کی لیموزین سے آٹکرائی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کے اہلِ خانہ مری سے واپس اسلام آباد آرہے تھے۔اس خبرکی پوری تفصیل شاید ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔ ہوسکتا ہے وزیر اعظم کے دفتر والوں یا ان کی سکیورٹی پر مامور لوگوں کو منظور نہ ہو کہ اس راز سے پردہ اٹھے۔ ہمیں بس یہی بتایا گیا کہ حملہ آور کو روک کر حراست میں لے لیا گیا۔ ذرا سوچ کر بتایئے کہ یہ حملہ آورکون تھا؟ جی ہاں، پاک فضائیہ کا ایک ریٹائرڈ افسر ! اپنی ملازمت کے دوران ان صاحب نے کم از کم یہ تو سیکھا ہوگا کہ وی وی آئی پیز کا قافلہ جب گزرتا ہے تو وہ ان کی گاڑیوں کے قافلے کا راستہ کاٹنے کے بالکل مجازنہیں ہوتے۔ یقیناً وہ اندھے یا پھر احمق بھی نہیں تھے کہ اس ملک کے با اختیار ترین شخص کی حفاظت پر مامورگاڑیوں کی قطارکا فرق نہ جان پاتے۔ آئی جی پولیس کے دفترکے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ یہ وزیراعظم پر حملے کی کوشش نہیں تھی۔ پی اے ایف کے یہ سابق افسر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ انجانے میں وہ وزیر اعظم کی حفاظت پر مامورگاڑیوں کے قافلے میں داخل ہو گئے تھے۔ مری کے عاشق ہمارے وزیر اعظم صاحب کو ہم ایک مفت مشورہ دینا چاہیں گے۔ یا تو انہیں اپنے دل کی رانی مری کے دورے کچھ کم کردینے چاہئیں یا پھر بہتر ہوگا کہ وہ سفر کے دوران پوری ہائی وے کو ہی بندکر دیاکریں۔اس طرح وہ سفید پراڈو والوںکو تو اپنی سکیورٹی کے بخیے ادھیڑنے سے روک لیں گے، لیکن ساتھ ہی ویک اینڈ مری میں گزارنے کے لئے بذریعہ گاڑی جانے والوں کی ملامتیں بھی انہیں سننا پڑیںگی۔
پاکستان کے سماجی و سیاسی مسائل پر اکثر بلاگ لکھنے والے نعیم صادق صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے لیڈر اہم انتظامی امور پر بات چیت کے لئے ریاستی اہلکاروں کے اجلاس بیرون ملک طلب کرتے ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے بھی شاید دنیاکا واحد ملک ہے کہ یہاں ایسی حرکتیں حلال سمجھی جاتی ہیں اور ایسی شاہ خرچیوں کے بارے میں سوال اٹھانے کی جرأت کوئی نہیںکرتا۔کراچی کے دو شہریوں نے البتہ ہمت کر کے آئین کے آرٹیکل 19(A)اور 2006ء کے سندھ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت سندھ کے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سے تحریری طور پر کچھ پوچھا ہے۔ اپنی مشترکہ درخواست میں انہوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی سرکاری اہلکار سے معلومات تک رسائی طلب کرنا ہر شہری کا حق ہے، خاص طور پر جب معاملہ سرکاری فنڈزکے استعمال کا ہو۔ان کی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ یکم جنوری2010ء سے لے کر اب تک صوبہ سندھ کے سرکاری امور کے بارے میں یا جماعتی اجلاسوںکے لئے یا انفرادی اوراجتماعی طور پر جماعت کے قائدین سے ملاقات کے لئے صوبے کے وزیر اعلیٰ، کابینہ کے اراکین، اراکین پارلیمان اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے متحدہ عرب امارات کے جتنے دورے کئے ان کی تفصیلات اور حقائق انہیں مہیا کی جائیں۔کیا سائیں قائم علی شاہ اور ان کے چیف سیکرٹری کھڑے ہوکر عوام کو جواب دے سکتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی طاقت اور تفاخر کے نشے میں چور ہو کر یہ مت سوچئے کہ ہم پر آپ کی حکمرانی ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں