رابن رافیل ’جاسوس‘ نہیں

دنیا بھر سے امریکی سفارت کاروں کی جانب سے اپنی حکومت کو بھیجے گئے پیغامات جولین اسانج نے وکی لیکس پرشائع کر دئیے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں بھیجے گئے ان پیغامات تک اب ہر کوئی رسائی رکھتا ہے۔سب سے زیادہ خجالت کا سامنا ان کی بدولت امریکی وزارتِ خارجہ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے اہم ترین راز جو خفیہ طور پر سفیروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے، اب سبھی کو معلوم ہو چکے ہیں۔ان سفیروں میںپاکستان کے لئے امریکی سفیراین پیٹرسن بھی شامل ہیں۔چنانچہ اب دو خواتین ایسی ہیں جن کی بدولت امریکی وزارتِ خارجہ تقریباً عدالتی چارہ جوئی کی زد میں آنے والی تھی۔ایک تو ہلیری کلنٹن اور دوسری رابن رافیل۔ان دونوں خواتین کے بارے میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کی تحقیقات جاری ہیں۔وزارتِ خارجہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سب سے زیادہ طاقت ور وزارت ہے لیکن سب سے زیادہ گڑ بڑ بھی اسی میں ہے۔ہماری پاکستانی وزارتِ خارجہ سے یہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ، فرق بس اتنا ہے کہ اسے تعظیم بہت زیادہ ملتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ہماری وزارتِ خارجہ ماضی اور حال میں بھی کئی غلطیاں کر چکی ہے لیکن اس ضمن میں امریکی وزارتِ خارجہ کا ثانی کوئی نہیں۔پہلے ہلیری کلنٹن کی ای میلز منظرِ عام پر آئیں جو وہ اپنی وزارتِ خارجہ کے زمانے میں اپنے نیویارک والے مکان میں نصب الگ سرور کے ذریعے بھیج رہی تھیں، اور وصول بھی کر رہی تھیں اور اب ان کے بعد رابن رافیل کی ای میلزسامنے آئی ہیں۔رابن رافیل ایک ایسی خاتون ہیں جن کا نام کئی برسوں تک پاکستان میں زبان زدِ عام رہا ہے۔نوے کے عشرے میں وہ جنوب ایشیائی امور کے لئے معاون وزیر کے طور پر کام کرتی تھیں اسی لئے جب بھی پاکستان ان کی آمد ہوتی تو یہاں ان کی شاہانہ آئو بھگت کی جاتی تھی۔ہمارے ٹی وی اینکرز ان کے نام(Robin) میں ہمیشہ oکی بجائے aکا تلفظ ادا کرتے آئے ہیں۔بد قسمتی سے اس بارے میں وہ کچھ نہیں کر پائیں اور یہاں یہی aکے تلفظ والا نام ان کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پرویز مشرف تینوں ان کا خیر مقدم یوں کرتے تھے جیسے وہ کسی ریاست کی سربراہ ہوں۔اس طرح وی وی آئی پی سمجھا جانارابن رافیل کو بہت پسند تھا۔چنانچہ جلد ہی بھارت کی نسبت پاکستان پر وہ زیادہ مہربان ہو گئیں، اور آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو بھارتی کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔حسد اور جلن کے مارے انہوں نے رابن رافیل کو پھانسنے کی ٹھان لی۔کم از کم اوباما انتظامیہ کواس بارے میں قائل کرنے میں وہ کامیاب رہے کہ رابن رافیل ہمیشہ پاکستان کے لئے جاسوسی کرتی آئی ہیں۔وزارتِ خارجہ سے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سن 2009ء میں صدر اوباما نے انہیںپاکستان کے لئے غیر دفاعی امریکی امداد کی نگرانی سونپی تھی۔پاکستان اور افغانستان کے لئے SIPیعنی ''سٹرٹیجک امپلی منٹیشن پلان‘‘ ان کے اور این پیٹرسن کے سپرد کیا گیا تھا۔یہ پلان امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کا تیار کردہ تھا۔
مئی 2010ء میں ہم اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ایک ''سینئر‘‘ سفارت کار کا انٹرویو کرنے گئے تھے۔یہ انٹرویو اس سفارت کار کی شناخت کے اخفاء کے ساتھ مشروط تھا۔ تاہم اب ہم ان کی شناخت بتا سکتے ہیں۔ رابن رافیل ہی تھیں۔ہماری بات چیت کافی بے تکلفانہ رہی تھی۔سوالات کے طور پر ہم شکایات کی ایک فہرست ساتھ لے کر گئے تھے۔ہمارے ہر سوال کا جواب وہ کھل کر دے رہی تھیں۔ہم بہت کچھ جاننا چاہ رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دی گئی امدادی رقم کے بارے میں سوال سر فہرست تھا۔تاہم اس سے بھی زیادہ اہم سوال اس کی شفاف تقسیم اور حوالگی کا تھا، تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ رقم ساری غیر ملکی(یعنی امریکی) ماہرین پر تو خرچ نہیں کی جا رہی؟اور پھر کیا رابن رافیل نے درونِ پاکستان نفاذ کے لئے کوئی ایسا فول پروف طریقہ سوچا تھا جس کے ذریعے دی گئی رقم کو ہمیشہ کی طرح چند ایک افراد کی جیبوں میں جانے سے بچانا ممکن ہو سکتا تھا؟اگر آپ کو یاد ہو توکانگرس میں آنجہانی ہالبروک اور سینیٹرز کیری اور لوگر کے بیچ یادداشتوں کی ایک 
جنگ چھڑ گئی تھی۔ہالبروک یہ چاہتے تھے کہ امدادی رقم پاکستان کو براہِ راست ملے جبکہ مذکور ہ دونوں سنیٹرز صاحبان کا کہنا تھا کہ یہ رقم امریکی کنٹریکٹرز کے ذریعے پاکستان کو دی جائے جیسا کہ یوایس ایڈ والے کرتے آرہے تھے۔ واشنگٹن میں ترقیاتی شعبے کے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ ''ہالبروک چاہتے تھے کہ پاکستان اور افغانستان بھیجا جانے والا ہر ایک ڈالر ان کے زیرِ کنٹرول رہے۔ بات جب اربوں ڈالرز کی ہو تو ایسا ممکن نہیں ہوتا۔پاکستان کو جو رقم دی جاتی ہے ، اس کا جب سوچا جائے تو وہ ایسی رقم نہیں جو مسئلے کے حل کے لئے بے حساب خرچ کی جاتی ہے بلکہ وہ ایک ایسی رقم ہوتی ہے جسے گویا باہر پھینکا جا رہا ہو۔‘‘خیر جیت ہالبروک کی ہوئی اور اچھی بات یہ ہے کہ جو رقم کنٹریکٹرز کے ذریعے واپس امریکہ جا سکتی تھی وہ پاکستانیوں پہ خرچ ہونے کے لئے پاکستانی بینکوں میں ہی رہی۔اسلام آبادمیں رابن رافیل کی ٹیم نے 2009ء کے مالی سال کے لئے174ملین ڈالرز پہلے ہی سے پاکستانی بینک میں جمع کر دئیے تھے۔انٹرویو کے دوران انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ '' ہم شعبہ وار آگے بڑھیں گے اور صوبوں اور دیگر جگہوں پر بھی متعلقہ افراد سے ہماری بات چیت جاری ہے۔باریک سے باریک جزیات پر بات کرنے کے لئے تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنروں، وزیروں اور سیکرٹریوں سے بھی ہماری تفصیلی مشاورت ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ امریکی کنٹریکٹرز اور ماہرین کو پاکستان کے ترقیاتی کاموں میں ملوث کرنا غلطی تھی۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا 
کہ پاکستان کو یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ سال 2010 ء کے لئے ایک ارب تیس کروڑ کی امدادی رقم کا چیک اسے اس چھان بین کے بغیر دے دیا جائے گا کہ کیسے، کب، کہاں ، کیوں اور کون سے منصوبے پر اسے خرچ کیا جائے 
گا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بڑے فخر سے اس امر کا سہرہ اپنے سر لے رہے تھے کہ ان کی حکومت نے امریکیوں کو قائل کیا ہے کہ امدادی رقم براہِ راست پاکستان کے حوالے کی جائے۔اپنے امریکی دورے میں انہوں نے کہا تھا کہ '' ہم نے امریکی حکومت کو قائل کر لیا ہے کہ امدادی رقم براہِ راست پاکستانی اداروں کو دی جانی چاہئے۔اس ضمن میں شعبوں کی نشاندہی ہم پہلے ہی سے کر چکے ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج توانائی کے شعبے کا ہے۔‘‘ توانائی سے ہمیں یاد آیا کہ جب سن 2010ء میںا مریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن واشنگٹن میں منعقدہ'' سٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ میں شریک پاکستانی وفد سے خطاب کے لئے اٹھیں تو اس وقت بھی ہم نے ایک خواب بُنا تھا۔انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ توانائی کے بحران سے باہر نکلنے میں امریکہ پاکستان کی مدد کرے گا۔ اس وقت وہ ہمیں اپنی نجات دہندہ معلوم ہوئی تھیں۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہمیں قریب نظر آیا تھا۔اسلام آباد میں ایک تنگ و تاریک اور حبس زدہ کمرے میں بیٹھے بیٹھے ہم نے ہپ ہپ ہرے کے نعرے لگائے تھے۔ہمارا خیال تھا کہ ہمارے وزیر خارجہ اور آرمی چیف جنرل کیانی پاور پلانٹس لے کر لوٹیں گے اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔پاکستانیوں نے سوچا تھا کہ مختصر المیعاددرمانوں کے ساتھ ساتھ اس بار امریکی انہیں سویلین جوہری ٹیکنالوجی بھی دے دیں گے جیسا کہ انہوں نے بھارت کو دی ہے۔ تاہم افسوس یہ ہے کہ ہمارا وفد خالی ہاتھ لوٹا۔کوئی پاور پلانٹس یا پھر جوہری توانائی کی فراہمی کا کوئی وعدہ تک ان کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا۔ رابن رافیل نے ہمیں بتایا تھا کہ ''آپ کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ آپ کا توانائی کا مسئلہ راتوں رات حل نہیں ہو سکتا۔ گردشی قرضوں کے مسئلے سے آپ کو پہلے نمٹنا ہوگا۔‘‘ ہم بڑی سادگی سے ان سے یہ پوچھ بیٹھے کہ '' تو ہمارے اس گردشی قرض کو ختم کرنے کے لئے آپ کا ملک ہمیں پیسے کیوں نہیں دے دیتا؟‘‘ اس پر انہوں نے بڑی حیرت سے ہمیں دیکھا اور کہا'' یہ قرض تقریباً ایک ارب ڈالرز کا ہے، ہمارے ملک میں ٹیکس ادا کرنے والے کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ ہماری امداد تعمیری و پیداواری کاموں کے لئے ہوتی ہے۔‘‘ رابن رافیل کاخیال تھا کہ گردشی قرض پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے جو اسے از خود حل کرنا ہوگا۔''دیوالیہ پن کا شکار ہونے والوں کوچیک دیتے رہنا ہمارا کام بالکل بھی نہیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں