القدس انتفاضہ

یروشلم میں واقع مسجدِ اقصیٰ مذہبی لحاظ سے مسلمانوں کے لئے تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یروشلم اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے۔کچھ عرصے سے وہاں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ اس نئے سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب یہودیوں نے یروشلم کے شہرِِ قدیم میں واقع مسلمانوں کی آبادی پر قبضے کی کوشش کی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ بھی واقع ہیں۔ قبل ازیں مسلمانوں کی اس آبادی میں کسی یہودی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ اسرائیلوں کی جارحیت کے نتیجے میں یروشلم میں رہنے والے فلسطینی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جن پر تشدد کی لہر مسلسل جاری ہے۔ اسی سے نمٹنے کے لئے اسرائیل نے مزید فوجی بھی بلوا لئے ہیں۔ اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں شہرِ قدیم کے0.9 مربع کلومیٹر علاقے کو مسلمان القدس اور بیت المقدس پکارتے ہیں جبکہ اسرائیلی اسے جبل الہیکل کہتے ہیں۔ فی الوقت القدس کا انتظام اردن کی زیرِ سرپرستی ایک اسلامک ٹرسٹ کے ہاتھ میں ہے۔ انتہا پسند یہودیوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کے پہلے دو ہیکل وہاں تھے، جہاں آج قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصیٰ ہیں، اس لئے تیسرا ہیکل یعنی الہیکل الثالث تعمیر کرنے کے لئے وہ یہی جگہ لے کر رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس سال موسمِ گرما میں ہمیں یروشلم جانے کا موقع نصیب ہوا تھا۔ اس وقت وہاں سکون تھا۔ ہم شہر بھر میں آزادی کے ساتھ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہوئے بغیر پھرتے رہے تھے۔ ہم وہاں کی گلیوں میں اور سڑکوں پر پیدل گھومتے رہے۔ وہاں کا ہر ایک پتھر گواہی دیتا ہے کہ اس مقدس سرزمین پر ہزاروں سالوں سے لاکھوں مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے یہاں رہتے آئے ہیں۔ وہاں کے رہنے والے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں سے ہم نے یہ سوال کیا کہ آخر خدا نے0.9 مربع کلومیٹرکے اس علاقے کوان تینوں مذاہب کے ملاپ کی یادگار کیوں بنایا ہے جبکہ ان مذاہب کے ماننے والے آج تک ایک دوسرے سے مفاہمت استوار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس جگہ روحانیت کا احساس ہوتا ہے۔ شہرِ قدیم میںداخل ہونا ایک منفرد احساس بخشتا ہے۔ شہر کے اندر جانے کے سات دروازے ہیں۔ مسلمانوں کی آباد ی والے علاقے میں تنگ گلیاں ہیں جن کے دونوں اطراف واقع دکانوں میںکھجور، روایتی عربی مٹھائی، جائے نماز، تسبیح، عربی کافی، پھلوں کے جوس اورکھانے پینے کی دیگر چیزیں فروخت کے لئے سجی ہوتی ہیں۔ دو طرفہ دکانوں کا یہ سلسلہ ان طویل، ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں آخر تک پھیلا نظر آتا ہے۔ یہاں کے گھروں اور کوارٹروں میں مسلمان آباد ہیں۔
القدس سے باہر نکلتے ہی ہمیں اسرائیلی پولیس دکھائی دی جو بھاری اسلحے کے ساتھ سڑکوں پر گشت کر رہی تھی۔ مشرقی یروشلم میں عرب کوارٹرز کے باسی فلسطینی یہاں معمول کے مطابق اپنے کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ فلافل ریستورانوں میں کھانا کھا رہے تھے جبکہ کئی دوسرے، دن کے اختتام پر اپنے گھروں کی جانب رواں دواں تھے۔ اس وقت تک درجہ حرارت قدرے نیچے جا چکا تھا اور ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی مگر پھر بھی سب کچھ بہت خوبصورت تھا۔ ایک مسجد سے عشا کی اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ امن و امان کی منظر کشی جو ہم نے کی ہے، یہ اب وہاں باقی نہیں رہی۔ اب وہاں موت کا رقص جاری ہے۔ فلسطینی نوجوان اسرائیل کے خلاف نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل یروشلم، الخلیل اور بیت اللحم خالی کر دے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس فساد کی سزا فلسطینیوںکو دے کر رہیںگے۔ لیکن یہ توکوئی حل نہیں۔ اسرائیل کو امن مذاکرات میں بھی کوئی دل چسپی نہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین اسرائیل اور فلسطین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنی کوشش کر چکے ہیں لیکن اسرائیل نے انہیں بھی اپنے تیور دکھادیے ہیں۔ ایک اسرائیلی کالم نگار نے ''دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ میں لکھا کہ مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات نے فسادات کے شعلے بھڑکائے ہیں اور یہ کہنا اب بہت مشکل ہے کہ ان شعلوں کو کیسے بجھایا جائے گا۔ اسی کالم نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ پچھلے اڑتالیس سالوں سے اسرائیلی حکومت مشرقی یروشلم میں آباد فلسطینیوں کو نظر انداز کرتی چلی آئی ہے۔ موجودہ حالات کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ یہاں رہنے والوں کے معاشی حالات ابتر ہیں، لاقانونیت پھیلی ہوئی ہے، پورے علاقے کے مکین نیلا شناختی کارڈ رکھتے ہیں یعنی اسرائیل کے شہری ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیلی حکومت اور فلسطینی انتظامیہ نے اس علاقے میں رہنے والوں پرکوئی توجہ نہیں دی۔ یہ نوجوانوں کا انتفاضہ ہے، یہ انٹرنیٹ کا انتفاضہ ہے، لیکن سب سے بڑھ کر یہ یروشلم کا انتفاضہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی کنارے کی مسلم آبادیوں میں ہر روز احتجاجی جلوس نکالے جا رہے ہیں؛ تاہم ان میں شرکا کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے۔ فلسطینی عوام کا احتجاج کمزور اور محدود ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مشرقی یروشلم کے نوجوان زیادہ تعداد میں احتجاج اور تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔یہ لوگ کوئی منصوبہ بندی اورکوئی تنظیم نہیں رکھتے۔ بنیادی ذریعہ اور بنیادی محرک انہیں سوشل میڈیا سے فراہم ہوتا ہے۔ کئی لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جن اب بوتل سے باہر آچکا ہے اوریہ کہنا مشکل ہے کہ اسے واپس کس طرح بند کیا جا سکتا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس بھی صورت حال کوقابو کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ مشرقی یروشلم کے نوجوان ان کی بات نہیں سنتے۔ پچھلے دنوں دی نیویارک ٹائمز نے جرأت کر کے ایک ایسی بات چھاپی ہے، جس میں یہودیوں کے اس دعوے کا رد کیا گیا تھا کہ ان کے ہیکل اسی جگہ موجود تھے جہاں آج مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے لکھا تھا کہ ''یہ لوگ (یعنی یہودی) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دو ہزار سال قبل یہاں ان کا ہیکل تھا۔ میں ان کا یہ دعویٰ چیلنج کرتا ہوں‘‘۔ مسجد اقصیٰ کافی بڑی مسجد ہے ، اس میں گھومنے پھرنے کی کافی گنجائش ہے۔ ہمیں اذان کی آواز سنائی دی تو چند ہی لمحوں میں یہ مسجد ہر عمر اور ہر صنف کے نمازیوں سے بھرگئی۔ یہ سب لوگ وہاں عصرکی نماز پڑھنے آئے تھے۔ ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ جمعہ کی نماز میں یہاں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیںہوتی۔کعبے کی جانب تحویلِ قبلہ سے قبل مسجدِ اقصیٰ ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق نبی کریم ﷺ کی مدینے کو ہجرت کے سترہ ماہ بعد وحی الٰہی کے ذریعے تحویل قبلہ عمل میں آیا اور مسجد اقصیٰ کی بجائے کعبہ قبلہ ٹھہرا دیا گیا۔ فلسطینی یہ کہتے ہیں کہ وہ مر جائیں گے لیکن مسجدِ اقصیٰ پر یہودیوں کو قبضہ نہیں کرنے دیںگے۔حیرت اور صدمے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کوئی ایک مسلمان لیڈر بھی ایسا نہیں جو یروشلم کے فلسطینیوں کی حمایت میں بات کر سکے۔ سعودی عرب کو بولنا چاہئے تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کی امیر ریاستوں کی خاموشی حوصلہ شکن ہے۔ شاید ہمیشہ کی طرح صرف پاکستان ہی صہیونی قوتوں کی جارحیت کے خلاف اپنے مؤقف کا اظہار کر رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں ہمارے دیگر مسلمان بہن بھائی اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر کے اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ آج القدس کو یہودی تسلط کا شدید خطرہ درپیش ہے۔ اگر مسلمان دنیااتحاد کا مظاہرہ کرے توکوئی بھی یہودی القدس میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں