چھوٹا پن اورانتقام

کہتے ہیں مرے ہوئے کی برائی نہیں کرنی چاہیے، لیکن جب ایک سرکاری افسر کے پچیس سالہ شاندار کیریئر کوتقریباً تباہ کر دیا گیا ہو، صرف اس لیے کہ اس نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا تھا تو کیا اس کے بعد سچ بولنے میں کوئی مضائقہ ہے؟ سید منیر حسین نے اپنی سوانح کو بجا طور پر Surviving the Wreck کا عنوان دیا ہے۔ ان کے ساتھی بیوروکریٹس عموماً اپنی یادداشتوں میںخوش باش جنگجوئوں کی مانند نظر آتے ہیں جو بڑے فخر سے اپنے''کارناموں‘‘ سے دنیا کو آگاہ کرتے ہیں۔ منیر حسین ان کے مقابلے میں ایک الگ صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے اپنی ان شدید تکالیف کا ذکر کیا ہے جو انہیں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں اٹھانی پڑیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ستمبر1977ء میں بھٹو کی گرفتاری کے بعد جنرل ضیا کے چیلے ان پہ دبائو ڈال رہے تھے کہ انہیں اگر اپنی جان بچانی ہے تو بھٹو کے غیر قانونی اقدامات سے پردہ اٹھانا ہوگا۔ منیر حسین این ڈبلیو ایف پی کے چیف سیکرٹری تھے۔ انہوں نے صاف صاف بتایا کہ وزیر اعظم بھٹو نے مارچ کے انتخابات میں دھاندلی کرنے کے لیے ان پر ہرگز دبائو نہیں ڈالا۔ ضیا کے مارشل لا کو جائز ٹھہرانے کے لئے افسروں پردبائو ڈالا جا رہا تھا۔ منیر حسین لکھتے ہیں:''بے بس سرکاری افسروں سیاپنے سابق سربراہوں کے خلاف بیانات لینے کی یہ قابلِ نفرت کارروائی ان کے حوصلے اور کردار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی۔‘‘ شادی کی ایک تقریب میں منیر حسین اور جنرل ضیا کا آمنا سامنا بھی ہوا تھا، جنرل کے چہرے پر مخالفانہ خشمگین تاثرات نمایاں تھے۔ منیر حسین لکھتے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ وہی ضیا تھا جس نے بلوچستان میں وزیر اعظم بھٹو کی زیرِ صدارت ایک اجلاس میں آرمی چیف کی حیثیت میں مجھے ایک پرچی پہ یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ وہ میرا تابع فرمان رہے گا۔ تمام آمروں کی طرح ضیا نے بھی کافی چالاکی سے کام لیا۔ سب سے پہلے اس نے حریفوں کا پتا صاف کیا، پھر اپنے ممکنہ دشمنوں کو بے دست و پا کیا اور بعد ازاں خوش آمدیوں کا ایک ٹولہ بنا ڈالا۔ اپنے اقتدار کے خلاف کسی بھی سویلین خطرے سے بچنے کے لیے اسلامک کارڈ بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ اپنا کیریئر بچانے کے لیے بعض افسروں نے بھٹو کے خلاف جھوٹی گواہیاں بھی دیں۔ جنرل ضیا، منیر حسین کے حرف انکار کو کبھی فراموش نہ کر پائے۔ ان کے بہترین سروس ریکارڈ کی بدولت وہ انہیں ملازمت سے برطر ف تو نہ کر سکے؛ تاہم ان کی ملازمت کے باقی دس برسوں کو برباد کرنے کے لیے انہوں نے ان کی تعیناتی ایسے ''کھڈے لائن‘‘ عہدوں پہ کروائی جہاں ان کے اپنے لوگ انہیں مزید عذاب میں مبتلا رکھ سکیں۔1981ء میں منیر صاحب مردم شماری سے متعلقہ اعداد و شمار جمع کروانے کے ذمہ دار تھے۔ اس وقت کے گورنر سندھ جنرل عباسی نے ان کی ہتک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہ وہی جنرل عباسی تھے جو مارشل لا سے پہلے منیر صاحب کی منتیں کرتے تھے کہ سبی میں ان کے مکان کے لیے دو ایئر کنڈیشنر الاٹ کر دیے جائیں۔ منیر صاحب ان دنوں بلوچستان کے چیف سیکرٹری تھے۔ مارشل لا کے باعث اربابِ اختیار کے رویے میں جو تبدیلی آئی اس کے لیے ثبوتوں کی کوئی کمی نہیں۔ جنرل ضیا نے منیر حسین کی جاسوسی پر انٹیلی جنس اہلکار مقرر کیے، ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی۔ وہ لکھتے ہیں، ایک اتوار کو میں مری گیا جہاں ایک سینئر ساتھی ماجد مفتی مجھ سے ملنے آئے۔ تین دن بعد صدرکے چیف آف سٹاف جنرل وحید مجھ سے جاننا چاہ رہے تھے کہ آخرکیوں متعدد وفاقی سیکرٹری مری میں مجھ سے ملنے آ رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا صرف ماجد مفتی آئے تھے۔جنرل ضیا کی کینہ پروری خاص طور پر اس وقت ابھر کر سامنے آئی جب اقوامِ متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل ڈیاگو کارڈو ویز نے پنڈی میں جنرل ضیا کے عشائیے کے دوران افغان مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے منیر حسین کی خدمات کو بے حد سراہا۔ جنرل ضیا نے انہیں چپ کرا دیا۔ صدرِ مملکت کے اس رویے پر سبھی ششدر رہ گئے۔ عشائیہ بھی یکدم ہی اختتام پذیر ہوگیا۔ 1988ء میں جنرل ضیا کے طیارے کے حادثے کے دو ماہ بعد مہاجرین کے لیے اپنی خدمات کی بنیاد پر منیر حسین کو اقوامِ متحدہ کے نیلسن منڈیلا میڈل سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز ہر سال دیا جاتا ہے۔ سابق امریکی خاتونِ اول لیڈی روز ویلٹ، تنزانیہ کے صدرجولیس نیاریری اور فرانس کے صدر ژیشکاخ ڈیسٹان بھی یہی اعزاز پانے والوں میں شامل ہیں۔ پچاس ہزار ڈالرز کی جو انعامی رقم دی گئی تھی وہ منیر حسین نے سوڈان کے مہاجرین کے لیے عطیہ کر دی۔کیا آپ کسی سرکاری افسر یا سیاستدان کا نام بتا سکتے ہیں جس نے نیکی کا ایسا کام کیا ہو؟
Surviving the Wreck کے آخر میں چٹخارے دار باتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ وزیر اعظم جونیجو نے انفارمیشن سیکرٹری کے طور پر خو د منیر حسین کا انتخاب کیا تو اس پر صدر ضیا کا خون کھول اٹھا۔ جنرل ضیا شہرت کے بھوکے تھے۔ وہ آدھی رات کو منیر حسین کو کال کرتے اور ان پر الزام لگاتے کہ اُن(منیر حسین) کے احکامات کے تحت میڈیا جان بوجھ کر انہیں نظر اندازکر رہا ہے۔ منیر حسین لکھتے ہیں، ایک بار معمول کے مطابق ضیا نے مجھے آدھی رات کو فون پرکہا: ''میرا خیال ہے تمہاری نظروں میں اب میںصدرِ پاکستان نہیں رہا۔‘‘ انہیں گلہ تھا کہ ٹی وی پر انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے، زیادہ تشہیر وزیر اعظم جونیجو کی ہو رہی ہے۔ اگلی صبح ضیا نے اپنے پریس سیکرٹری صدیق سالک کے ہاتھ یہ ہدایات بھیجیںکہ ان کے اقوالِ زریں پر مبنی ایک ''کتابِ اخضر‘‘(Green Book) 
تیار کی جائے تاکہ ان کے یہ خیالات تا قیامت محفوظ ہو جائیں۔ وہ مائو زے تنگ کی مشہور ''کتابِ احمر‘‘ (Red Book) جیسی پاکٹ بک اپنے نام منسوب کرنا چاہتے تھے۔ اس تجویز کو وزیر اعظم جونیجو نے مسترد کردیا لیکن صدر ضیا کا عتاب سیکرٹری اطلاعات کے طور پر منیر حسین کو جھیلنا پڑا۔ 
صدارتی کیمپ وزیر اعظم جونیجو کو بے دخل کرنے پر تلا ہوا تھا۔ وزیر اعظم کو بدنام کرنے کے لیے انہوں نے میڈیا میں اپنے ہوا خواہوںکی خدمات حاصل کر لیں۔ غیر ملکی صحافیوں کے سامنے جنرل ضیا مضحکہ خیز حد تک بچھ جاتے تھے۔ ایک فرانسیسی ریڈیو کی جونیئر خاتون صحافی جو ان سے ملنا بھی نہیں چاہتی تھی، جنرل ضیا ان کے پیچھے پڑگئے اور اسے بادل ناخواستہ صدر سے ملنے کے لیے جانا پڑا۔ ڈائریکٹر انفارمیشن بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ رخصت ہو رہی تھی تو جنرل ضیا خود انہیں باہر تک چھوڑنے آئے اور ان کی آمد پر جھک کر ان کا شکریہ ادا کیا، اسے کئی قیمتی تحائف بھی انہیں دیے۔ جنرل ضیا نے اسے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں اپنے قیام کا عرصہ وہ سرکاری مہمان کے طور پر گزاریں گی۔
29 مئی 1988ء کو وزیر اعظم جونیجو اپنے نہایت کامیاب بیرونی دورے کے بعد برطرف کر دیے گئے۔ اس کے دو ماہ بعد طیارے کے حادثے میں صدر ضیا بھی جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں بے نظیر بھٹو کی آمد ہوئی۔ بھٹو کی وفاداری کے دعویدار افسروں کو بڑے بڑے عہدے ملنے لگے۔ منیر حسین سب سے زیادہ مستحق ہونے کے باوجود نظر انداز کر دیے گئے۔ اپنی ملازمت کی بقیہ مدت انہوں نے غیر اہم عہدوں پہ گزاری۔ سب سے زیادہ بے رحمانہ رویہ بی بی کے ایک کا وزیر رہا جو ایک زمانے میں پنجاب کے محکمہ صنعت میں منیر حسین کے ڈپٹی سیکرٹری رہے تھے۔ ان کے دورِ وزارت میں منیر حسین زرعی بینک کے سربراہ تھے۔ وزیر موصوف ان کے ایک سینئر وائس پریزیڈنٹ کو نکالنا چاہتے تھے۔ منیر صاحب کے انکار پر وزیرنے چلا کر ان سے کہا: ''میں اب آپ کاڈپٹی سیکرٹری نہیں رہا۔ ایک دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد جیل جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ جہاں تک پی پی پی کے پوشیدہ مفادات کا تعلق ہے، بے نظیر کی کرپٹ سیاست کسی طرح ضیا سے مختلف نہیں تھی۔ منیر حسین کی کتاب ایک ایسے بہادر افسر کی داستان ہے جس نے جنرل ضیا کی جی حضوری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں