وزیر اعظم کی ہولی کھیلنے کی خواہش!

وزیر اعظم نواز شریف کو کراچی میں ہندوئوں کے مذہبی تہوار دیوالی میں شرکت کی تحریک کیسے ملی؟ وہاں انہوں نے اعلان فرمایا کہ ''میں تمام برادریوں کا وزیر اعظم ہوں‘‘۔ تو کیا واقعتاً یہ بامعنی اعلان تھا؟ کیا انہوں نے یہ بات پوری سنجیدگی سے کہی کہ ہندو، مسلمان، پارسی سبھی ان کے اپنے ہیں؟ انہوں نے ہندو برادری کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ''آپ لوگوں کی مدد کرنا اور سہولت فراہم کرنا میرا فرض ہے۔ آپ کو کوئی تکلیف پہنچی تو میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔ اگرکوئی مسلمان آپ کے ساتھ ناانصافی کا مرتکب ہوا تو میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔ پاکستان میں وہ شخض جو مسلمان نہیں، اس بارے میں انتہائی مختلف نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک غیر مسلم کو یہاںکافر پکارا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف مسلمان ہی اللہ کو مانتے ہیں؛ بہرحال، ان سب باتوں کے باوجود انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ پھر بھی بہتر ہے۔ بھارت پر اس حوالے سے دنیا آج کل زیادہ تنقید کر رہی ہے اور یہ سب اس ملک کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی وجہ سے ہے۔ اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے سبھی کے لئے اچھے دنوں کی آمد کو اپنا نعرہ بنایا تھا لیکن وزارتِ عظمیٰ پر متمکن ہونے کے بعد انہوں نے اپنا وعدہ توڑ ڈالا۔ انہوں نے واضح طور پر اپنے پارٹی کے ارکان اور وزراء کو فرقہ وارانہ تنائوکو ہوا دینے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ پچھلے دنوں بھارت کے تیسرے بڑے صوبے بہار میں انتخابات ہوئے جن میں ووٹروں نے بی جے پی کے امیدواروں کو مسترد کرکے وزیر اعظم مودی کو 
کھلا پیغام دیا ہے کہ ''نفرت انگیزی بندکیجیے‘‘۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں بھارت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ ''ایک ایسے وقت میں جب بھارت کو جنوبی ایشیا اور دنیا میں وسیع تر اور زیادہ تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے، سیاست کو یوں مذہبی منافرت سے زہر آلود کرنا اس ملک کے معاشی امکانات کو لازماً محدود ترکر دے گا۔ بھارت کی تاریخ مذہب اور ذات پات پر مبنی پرتشدد واقعات سے بھری پڑی ہے، جو اس ملک کی ترقی میں سست روی کا سبب رہے ہیں۔ بھارت میں تیز رفتار ترقی کے دور میں ایسی منافرت پر مبنی تنازعات ماند پڑ گئے تھے۔ کئی بھارتیوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ یہ تنازعات ایک بار پھر ابھر کر سامنے آجائیں گے‘‘۔ پچھلے برس بھارت میں مودی سرکار کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکیوں کی جانب سے نریندر مودی پر تنقیدکی جا رہی ہے۔ اس سے قبل امریکی دورے میں ہر جگہ بھارتی وزیر اعظم کا شاندار استقبال ہوا تھا؛ حالانکہ یہ وہی مودی ہیں جن کے امریکہ میں داخلے پر کسی زمانے میں پابندی ہوا کرتی تھی، گجرات میں ان کی وزارتِ علیا کے دوران جب وہاں مسلمانوں کے خلاف ہولناک فسادات ہوئے تھے۔ یہ تیرہ برس پہلے کی بات ہے۔ انہی دنوں ہماری ملاقات ایک نہایت بہادر خاتون سے ہوئی تھی جن کا نام شبنم ہاشمی تھا۔ وہ مودی کے ساتھ اپنی جنگ امریکہ تک لائی تھیں اور انہیں کافی شہرت ملی تھی۔ خوش قسمتی سے ہم ان سے مل چکے ہیں۔ گجرات میں فروری 2002ء میں ہونے والے فسادات کے دوران عورتوں کی جس طرح عصمت دری کی گئی اور جس طرح انہیں زندہ جلایا گیا، ان کی ہولناک تفاصیل ہمیں شبنم ہاشمی نے بتائیں۔ آر ایس ایس (راشٹریہ سوایم سیوک سَنگھ) اور شیو سینا جیسے ہندوتوا کے حامی فسطائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کُشی کے جو واقعات انہوں نے سنائے، امریکیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ دی نیویارک ٹائمز نے اپنی متعدد اشاعتوں میں صفحوں کے صفحے ان تفصیلات سے بھر ڈالے تھے کہ کس طرح ہندوئوں نے منظم طریقے سے تین ہزار مسلمانوں کو قتل کیا، چھ سو عورتوں کی عصمت دری کر کے انہیں زندہ جلایا اور گجرات بھر میں کس طرح مسلمانوں کے کاروبار اور مکانوںکو منظم انداز میں تباہ کیا گیا۔ شبنم ہاشمی کے مطابق تین سو ساٹھ درگاہیں اور مساجد بھی شہید کی گئی تھیں۔گجرات فسادات کے پانچ ماہ بعد آخر کس چیز نے نیویارک ٹائمز کے ضمیر کو اس قدر جھنجھوڑا کہ انہوں نے اس بارے میں اس قدر چھاپا؟ شبنم ہاشمی صاحبہ سے بات چیت کرنے کے بعد ہمیں اس کی وجہ سمجھ آئی۔ سترہ جولائی 2002ء کو اس اخبار کی نمائندہ باربرا کراسیٹ نے شبنم ہاشمی کی باتیں سنیں اور وہ اس بات پر نہایت کرب کا شکار نظر آئیں کہ ان فسادات کو کیوں اتنی کوریج نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی؟ عورتوں کی جلی ہوئی لاشوں اور ان سے اجتماعی زیادتی کی تصاویر دیکھ کر نیویارک ٹائمز حرکت میں آ گیا تھا۔ اجتماعی زیادتی کے بعد عورتوں کو زندہ جلانے سے قبل انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں۔کوثر بانو بھی زندہ جلائی گئی انہی عورتوں میں سے ایک تھی۔ وہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ تصویر میں اس کا نامولود بچہ اس کی لاش کی باقیات کے ساتھ چپکا نظر آ رہا تھا۔ شبنم ہاشمی نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے خود ساٹھ ایسی عورتوں کے بیانات قلمبند کیے ہیں جنہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان عورتوں نے تفصیلاً بتایا تھا کہ کس طرح انہیں بے لباس کر کے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے کوکہا گیا تھا اور جب وہ بھاگنے لگیں تو ایک ہجوم ان کے پیچھے دوڑ پڑا۔ جو عورتیں اس ہجوم کے ہاتھوں پکڑی جاتیں انہیں زندہ جلا دیا جاتا۔ 
گجرات کے وزیر اعلی کوکٹہرے میں لانے کے لئے عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے بھارتی اور بین الاقوامی این جی اوز کے نمائندوں پر مبنی ایک عالمی ٹربیونل بھی قائم کیا گیا تھا۔ شبنم ہاشمی اپنے شوہر کے ہمراہ دہلی میں رہتی ہیں۔ انسانی حقوق کے شعبے میں کام کرتے ہوئے انہیں تیس برس کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ان کا تعلق بائیں بازو کے نظریات کے حامل ایک خاندان سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد حنیف ہاشمی جنگِ آزادی کے ایک سپاہی تھے جنہیں انگریزوں نے چار سال تک قید رکھا تھا۔ بقول ان کے، وہ گاندھی اور نہرو کے قصے سنتے بڑی ہوئی ہیں۔ ایک خاص واقعہ جس کے بعد انہوں نے انسانی حقوق کی خاطر اپنی مہم کو تیز ترکرنے میں اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی، 1989ء میں وقوع پذیر ہوا۔ ان کے بھائی صفدر ہاشمی سٹریٹ تھیٔٹر میں اپنی ایک پرفارمنس کے دوران بپھرے ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے۔ دہلی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں اس وقت ایک بڑی صنعتی ہڑتال جاری تھی۔ صفدر تین ساتھی خواتین کے ہمراہ ہڑتالیوں کی حمایت میں پرفارم کر رہا تھا کہ سیاسی طور پر اکسائے گئے ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔ اپنی ساتھی خواتین کو بچانے میںصفدرکامیاب رہا لیکن خود اسے اس ہجوم نے لاٹھیوں کے وارکر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ شبنم ہاشمی نے بتایا کہ کس طرح ہندو فسطائیوں نے مودی کی قیادت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ مہینوں پہلے تیار کیا تھا اور کس طرح گیس سلنڈر ذخیرہ کیے گئے تھے۔ فساد ات کے آغاز سے پندرہ د ن پہلے گیس سلنڈر بازار سے غائب ہو گئے تھے۔ فساد کرنے والوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی تھی کہ وہ پہلے اپنا ہدف بننے والے مکان یا دکان پر گیس سلنڈر پھینکیں گے اور جب گیس لیک ہو جائے تو پھر اس جگہ کو مکمل تباہ کرنے کے لیے پٹرول بم پھینکا جائے گا۔ شبنم ہاشمی بتاتی ہیں کہ ان فسادات میں آر ایس ایس کے 'دُرگا واہِنی‘ نامی خواتین وِنگ نے بھی حصہ لیا تھا۔ متعدد عینی شاہدین نے گواہی دی کہ کس طرح متوسط طبقے کی ان عورتوں نے کاروں میں آکر لوٹ مار کی کارروائیوں اور بعض جگہوں پر دوسری عورتوں کو جلانے میں حصہ لیا تھا۔ شبنم ہاشمی اس لیے امریکہ آئی تھیں کہ مالدار بھارتی نژاد امریکیوں کو یہ بتائیں کہ انہیں آر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی تنظیموں کو امدادی رقوم نہیں دینی چاہئیں۔ 2002ء میں یہ تنظیم تیس ہزار ایسے سکول چلا رہی تھی جن میں بچوں کے ذہنوں کو مسلمانوں کے خلاف زہر سے آلودہ کیا جا رہا تھا۔ انہیں امریکی حکومت سے سرکاری سطح کے رد عمل کی کوئی امید نہیں تھی کیونکہ امریکی وزارتِ خارجہ نے اس خون خرابے میں بی جے پی کے ملوث ہونے کے دستیاب ثبوتوں کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ ان فسادات میں جب مودی کا کردار ناقابلِ تردید ثابت ہوگیا تو امریکہ نے اپنی سرزمین پر اس کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا۔ 
مودی اب بھی کچھ زیادہ بدلے نہیں اور بین الاقوامی دارالحکومتوں میں ان کے خلاف غصے اور احتجاج کی صدائیں بلند تر ہوتی جا رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں