من دیگر م، تو دیگری!

وہ موسمِ بہار کی ایک حسین صبح تھی، یکایک سائرن بجنے لگے، تیز روشنیاں دکھائی دیں اور پولیس اہلکار تیزی سے گاڑیوں سے اترتے نظر آئے۔ ہم سب گھروں سے نکل کر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا ہے؟ جہاں ہم کھڑے تھے وہاں گیسولین کی بو محسوس ہو رہی تھی۔ کسی نے چلا کرکہا: ''آگ لگی ہوئی ہے‘‘۔ ایک دوسری آواز آئی: ''دھواں نہیں ہے‘‘۔ گیسولین کی تیز بو ہمارے پڑوس میں ایک مکان کے گیراج سے آ رہی تھی۔گیراج کے آہنی گیٹ سے اندر جانے میں ناکام ہونے کے بعد دوجسیم پولیس اہلکاروں نے شیشے کی کھڑکی توڑی اور اس گھر میں داخل ہو گئے۔ ہر لمحہ بوجھل محسوس ہو رہا تھا۔ اس گھر میں ایک ضعیف جوڑا مقیم تھا، لیکن اس وقت دونوں میں سے کوئی بھی اندر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جلد ہی ہم نے گیراج کا دروازہ کھلتے دیکھا۔ صاحبِ خانہ کی گاڑی وہیں کھڑی تھی۔ اتنے میں پولیس کی مزید گاڑیاں بھی پہنچ چکی تھیں؛ تاہم کوئی نہیں بتا رہا تھا کہ آخر وہاں ہو کیا رہا ہے؟ آخر ایک پولیس اہلکار ہمارے قریب آیا اور وہاں کھڑے ہم سب لوگوں سے پوچھا، کیا کوئی جانتا ہے مسز ولیمز اس وقت کہاں ہوں گی؟ بیشتر نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔ ولیمزگھرانے کے قریب ترین پڑوسی نے البتہ قریب واقع گالف کورس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا: ''ہو سکتا ہے وہاں گالف کھیل رہی ہوں، یا ممکن ہے وہ اپنی بیٹی کے پاس گئی ہوں جو اپنے کتے کے ساتھ الگ رہتی ہے، لیکن اس کا فون نمبر میرے پاس نہیں ہے‘‘۔ یہ بے یقینی کی سی کیفیت تھی۔ ڈیانا ولیمز غائب تھی، اس کے شوہر ہروے کا بھی کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ کئی گھنٹے گزر گئے۔ ہم وہیں اِدھر اُدھر ٹہلتے رہے۔ جائے وقوعہ کے گرد تانی گئی زرد رنگ کی ٹیپ ہمیں وہاں جانے سے روک رہی تھی۔ پھر اچانک ایک سٹریچر گیراج کی جانب لایا جانے لگا۔کچھ دیر بعد سفید کپڑے میں لپٹی ایک لاش اس پہ رکھ کے باہرکھڑی ایمبولنس میں منتقل کر دی گئی۔ ہم سوچ رہے تھے، کیا ہروے اب اس دنیا میں نہیں رہا؟ گیراج میں کھڑی اس کی کارکو ایک پولیس اہلکار لے جا چکا تھا۔ اس شام ہم نے بڑی بے قراری سے باہر جھانک کر دیکھا کہ ولیمزگھرانے کے مکان میں بتیاں روشن ہیں یا نہیں۔ لیکن ہمیں وہاں مہیب سائے ہی دکھائی دیے۔ اگلی صبح البتہ ڈیانا ہمیں کچن میں چلتی پھرتی نظر آئیں۔ وہ ایک غمزدہ بیوہ دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ 
یہاں سے ہم ایک کہانی شروع کرنا چاہیں گے، ایسے جوڑوں کی کہانی جن کی شادی کا دائمی بندھن در اصل ایک دائمی دکھ ہوتا ہے۔ چند گھنٹے پیشتر ہروے نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اس کا انجن سٹارٹ کیا تھا،گیراج کا دروازہ بند تھا۔ ہمیں میاں بیوی کے جھگڑے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے کوئی بحث کر رہے تھے، ایک دوسرے پر چلا رہے تھے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کی ایسی لڑائیاں معمول بن چکی تھیں۔ ڈیانا کے ساتھ اس کا رویہ بہت ہی برا ہوا کرتا تھا۔ اس رات یقیناً ڈیانا نے پھر اپنی بیٹی کے گھر جا کر پناہ لی ہوگی۔ آج ایک بیوہ کی حیثیت میں وہ بہت خوش ہے۔ اسے خوشی ہے کہ اس شوہر سے جان چھوٹ گئی جس نے شادی شدہ زندگی کے چالیس برسوں میں اسے دکھ اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں دیا تھا۔ ہروے کی خودکشی کے بعد ہمارے پڑوس ہی میں ایک اورکہانی سامنے آئی۔ اس علاقے میں ایک اور بوڑھا آدمی رہا کرتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی اور ہر کسی کو دیکھ کر خیر مقدمی انداز میں ہاتھ لہرایا کرتا۔ اس کے پاس لگژری گاڑیاں تھیں۔ اس کی بیوی اس سے عمر میں کم، نہایت حسین لیکن بڑی ہی خرانٹ تھی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ یہ صاحب کبھی ایک مافیا میں ہوا کرتے تھے اور ان کا شمار بہت بڑے بھتہ خوروں میں ہوتا تھا۔ اب موصوف جیل میں بند ہیں اور ان کی خوبرو بیوی اپنے گھرکی از سرنو تزئین و آرائش میں مصروف ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اپنے پرانے (بوڑھے) شوہر کی ''بحفاظت‘‘ اسیری کے بعد اب موصوفہ ایک نئے (جوان) شوہرکے خیر مقدم کے لیے گھر سجا رہی ہیں۔ اس کی ایک سہیلی نے ہمیں بتایا کہ وہ دولت کی حریص تھی اور اس بوڑھے سے اس نے شادی دولت ہی کی حرص میں کی تھی۔ وہ اس سے پیار نہیں کرتی تھی اور اسے نہ ہی اس کی کوئی پروا تھی۔ اس کی سہیلی کہتی ہے، اسے اپنی پسند کے جیون ساتھی کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھانے کا اختیار حاصل ہے۔ چلیں، اچھی بات ہے۔ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ سو، جلد ہی ہم ایک نیا اور جوان شوہر اس کے سنگ دیکھیں گے۔
ہمارے عمران خان کی قسمت اس سلسلے میں بے حد خراب رہی۔ ان سے محبت کی دعویدار دو حسین ترین خواتین سے انہوں نے شادی کی اور یہ دونوں شادیاں ناکام رہیں۔ جمائمہ خان پاکستان میں تھیں تو کبھی خوش نہیں تھیں۔یہاں وہ ایڈجسٹ ہی نہیں کر پائیں۔ ان کے دو بیٹے ہوئے۔ پھر دونوں نے دوستانہ انداز میں ازدواجی تعلق کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی اپنی الگ راہیں اختیار کرلیں۔ اس کے بعد جمائمہ خان کا کئی مردوں کے ساتھ تعلق رہا جن میں معروف فلمی اداکار ہیو گرانٹ بھی شامل ہیں، لیکن آج تک شادی انہوں نے نہیں کی۔ شاید انہیں آج بھی عمران خان سے پیار ہے۔ ریحام خان نے طلاق کے بعد نجانے کیوں کالے جادو کی طرف اشارہ کیا۔ ان کی عمران خان کے ساتھ شادی محض دس ماہ چل سکی۔ طلاق کے بعد کئی سکینڈل بلکہ میگا سکینڈل سامنے آئے، جیسے زہر دینے کی کوششیں،گھریلو تشدد (جس کا شکار مبینہ طور پر عمران خان بنے) خاندانی جھگڑے، عمران کے بیٹوں کے ساتھ سوتیلی ماںکا سا سلوک، یہاں تک کہ بیڈ روم میں عمران خان کے کتوں کے داخلے پر پابندی کی باتیں بھی سننے میں آئیں۔ یہ سب باتیں اب پرانی ہو گئی ہیں؛ تاہم ریحام خان بیتی باتوں کو بھلانے پہ آمادہ نظر نہیں آ رہیں۔ شاید جلد ہی وہ انکشاف کر دیں گی کہ وہ کون (مرد یا عورت) تھا جو ان کی شادی شدہ زندگی کے خاتمے کے لیے کالا جادو کرنے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں یہ تک کہا کہ قرآن میں صا ف لکھا ہے کہ ابلیس نے لوگوں کو میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کے لیے کالا جادو سکھایا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جلد ہی سننے میں آئے کہ ریحام خان عمران خان کے ساتھ اپنی شادی شدہ زندگی کی تفصیلات پر مبنی کتاب لکھنے والی ہیں۔
یہاں ہم اپنے قارئین کو ایک اور پاکستانی لڑکی کا قصہ بھی سنانا چاہیںگے۔ اسے بھی کم عمری میں طلاق کا داغ سہنا پڑا۔ ہماری ایک دوست نے امریکہ کے ایک شہر میں اس کا انٹرویوکیا تھا۔ اس کی کہانی کا انجام المناک ہے۔ اس کی شادی ایک ڈاکٹر سے ہوئی تھی۔ آنکھوں میں کئی سپنے سجائے اپنے خوابوں کے شہزادے کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کی امید یں لے کر وہ امریکہ پہنچی تھی۔ جب اس کی زندگی میں بچے کی آمد کی آہٹ ہوئی تو اس کے یہ سارے خواب تار عنکبوت بن گئے۔ اس کی شادی شدہ زندگی گالی گلوچ اور چیخم دھاڑ سے بھر گئی۔ وہ کہتی ہے: '' جب ہماری زندگی میں بچے کی آمدکی امید ہوئی تو ملن کا ابتدائی سحر ٹوٹ گیا اورمیرے شوہر کا رویہ بدلنے لگا۔ مجھے یہ احساس دلوایا جانے لگا کہ جیسے میں ایک بوجھ ہوں۔ اسے مجھ پہ بے وفائی کا شک ہونے لگا اور اس نے مجھے حکم دیا کہ میں گھر میں محصور ہوکر رہوں‘‘۔ اس دوران لڑکی کی ماں بیٹی سے ملنے امریکہ آئی۔ ایک رات اسے کہا گیا کہ وہ گھر سے نکل جائے۔ جب بیٹی نے اس پر احتجاج کیا تو شوہر نے ماں اور چھوٹی بچی سمیت اسے بھی گھر سے نکال دیا۔ اس کے بعد اسے طلاق بھی دے دی۔ آج وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی رہ رہی ہے۔ بقول اس کے'' اب میں ایک بے کار اور نکمی شے کی طرح ہوں۔ مجھ سے کوئی بھی شادی نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جوڑے ہمیشہ آسمانوں پہ نہیں بنتے، نہ ہی شادی اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ شادی شدہ جوڑے ہر حالت ِرنج و راحت اور زمانۂ صحت و علالت میں ایک دوسرے کے ہوکر رہیں گے، اور نہ ہی شادی شدہ لوگ یہ وعدہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا ہر دن ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی عزت اور اطاعت میں گزاریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں