سازشی نظریات اور سوالاتِ بے جواب

مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی میں ڈونالڈ ٹرمپ سے کوئی بھی آگے نہیں۔ پچھلے دنوں موصوف نے اعلان فرمایا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مقیم ساٹھ لاکھ امریکی مسلمانوں کی کھوج لگانے میں سہولت کے لیے ایک ڈیٹابیس بنوائیں گے۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک کالم اس امر پر اظہارِ افسوس کے لیے لکھا تھا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں لیکن مغرب نے اس جانب کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔ اس وقت ہمیں اس بات نے حیرت زدہ کر رکھا ہے کہ انتیس سالہ پاکستانی نژاد خاتون تاشفین ملک نے اپنے اٹھائیس سالہ شوہر سید فاروق کے ساتھ مل کر کیلی فورنیا میں چودہ بے گناہ افراد کی جان لے لی۔ ایک ایسا ملک‘ جس نے تاشفین کے لیے اپنے دروازے کھولے‘ جسے اس نے اپنی مرضی سے رہنے کے لیے چنا، جہاں اس کے شوہر نے جنم لیا اور جس کے پرچم سے اس نے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا، اسی ملک کے شہر میں تاشفین ملک اور سید فاروق نے چودہ انسانوں سے جینے کا حق چھین لیا۔ ان کے ہاتھوں مرنے والوں میں ایک سید فاروق کا ایسا ساتھی بھی تھا‘ جس نے چند روز پہلے ہی فاروق اور تاشفین کے زندگی میں بچے کی آمد پر جشن منعقد کروایا تھا۔ فاروق کے ساتھ ایک ہی کیوبیکل میں کام کرنے والے اس کے ایک ساتھی نے بتایا کہ بظاہر یہ جوڑا ''امریکی خواب‘‘ دیکھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ فاروق کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون کے مطابق فاروق نہایت مذہبی انسان تھا لیکن وہ اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ اس خاتون کا کہنا تھا کہ فاروق اسے کبھی انتہا پسند یا کسی بھی لحاظ مشکوک نہیں لگا تھا۔ 
تاشفین ملک کے خوبصورت چہرے سے ہماری نظر نہیں ہٹتی، وہ کتنی شفیق اور مہربان معلوم ہوتی تھی۔ اس کے گھر سے بھی ہماری نظرنہیں ہٹتی، وہی گھر جہاں سے اس بدقسمت روز یہ جوڑا بندوقوں اور ہینڈ گرنیڈوں سے لیس ہوکر، نقاب پہنے، کرائے کی سیاہ ایس یو وی میں اس مقام کے لیے روانہ ہوا‘ جہاں فاروق کے دفتر کے ساتھیوں نے کرسمس پارٹی کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس گھر کے کچن کائونٹر پر ایک اَدھ کھایا پراٹھا پڑا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی چھ ماہ کی بیٹی کا کمرہ کھلونوں سے سجا ہوا ہے۔ اس کے باتھ رو م میں آتشی گلابی رنگ کا ایک ٹب ہے‘ جس میں تاشفین اپنی بیٹی کو نہلایا کرتی تھی۔ اس بچی کو یہی جوڑا اس دنیا میں لایا تھا۔ اسے تنہا چھوڑنے کا فیصلہ انہوں نے کیسے کر لیا؟ ایک ماں کیسے اپنی آنکھ کا تارا یوں تنہا چھوڑ سکتی ہے؟ ہم بار بار انہی سوالوں پہ سوچتے ہیں اور ہر بار ان کے جواب میں ذہن خالی ملتا ہے۔ ماضی قریب کی یہ ایک مہلک ترین خونریزی بتائی جا رہی ہے۔ ایک دوسری وجہ سے بھی یہ قتل عام ایک الگ نوعیت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ایسی وارداتوں میں قاتل عموماً ایک ہوتا ہے اور عورتوںکی قاتلوںکے طور پر شمولیت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ عورتیں کسی کو ایسے قتل نہیں کرتیں جیسے تاشفین نے کیا۔ امریکی مبصرین حیران ہیں کہ ایک پردہ نشین عورت میں کس طرح اتنی طاقت آئی کہ اس نے پارٹی میں شامل افراد کو ایک ایک کر کے مار گرایا۔ فاروق کے خاندان والے کہتے ہیں کہ مرد رشتہ داروں کو تاشفین کا چہرہ دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ تو پھر اتنی پردہ نشین عورت نے کس طرح نشانہ بازی کی اور لوگوںکو بلا سبب چن چن کر مارنے کی تربیت حاصل کی؟ یہ میاں بیوی تو امریکی خواب جی رہے تھے اور فاروق اچھی خاصی تنخواہ پر کام کر رہا تھا۔ کیا اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو قتل کر دیں جو ملازمتیں دے کر ہمارے اور ہمارے اہلِ خانہ کے لیے رزق کی فراہمی کا وسیلہ بنتے ہیں؟ بے گناہ لوگوں کے قتل کے منصوبے بنانے والا کیسے ایک اچھا مسلمان ہو سکتا ہے؟ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ میاں بیوی بڑے مذہبی تھے اور یہ بھی کہ دونوں اپنے گیراج میں بم تیار کر رہے تھے۔ یہ لوگ اپنا وقت کیسے گزارتے تھے؟ کیا فاروق دن بھر دفتر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ (وہی ساتھی جو اس کے ہاتھوں مارے بھی گئے) کام کرنے کے بعد گھر لوٹ کر شام کی نماز پڑھتا، قرآن کی تلاوت کرتا اور اس کے بعد گیراج میں بیٹھ کر بم بنایا کرتا تھا؟ کیا تاشفین دن بھر اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلنے، اسے کھلانے پلانے، اس کا خیال رکھنے، گھر کی صفائی کرنے اور شوہر کے لیے کھانا پکانے، نماز پڑھنے اور تلاوت کرنے کے بعد راتیں اپنے شوہرکے ساتھ نشانہ بازی کی تربیت لینے اور لوگوں کو ہلاک کرنے والے بم بنانے میں گزارا کرتی تھی؟ فاروق کی بڑی بہن نے ٹی وی چینلوں کو بتایا کہ یہ ایک خوش باش جوڑا تھا۔ جو کچھ ہوا ان کا خاندان بھی یکساں طور پر سکتے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے، وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ فاروق اور تاشفین ایسی سنگین حرکت کے مرتکب ہوں گے۔ کیا یہ لوگ ایک دہری زندگی جی رہے تھے؟ ظاہری طور پر پُرسکون اور مہذب لیکن درپردہ زیادہ سے زیادہ امریکیوں کی جان لینے کی منصوبہ بندی کرنے والے؟
اس نوجوان پاکستانی لڑکی کی دیدہ دلیری تو دیکھیے! چودہ بے گناہ معصوم افراد کا خون کرنے اور سترہ افراد کو شدید زخمی کرنے کے بعد وہ اطمینان سے وہاں سے چل پڑی اور اپنا سیل فون نکال کر فیس بک پر اپنی ایک الگ شناخت کے پروفائل پر داعش اور اس کے قائد البغدادی کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر دیا۔ پھر یہ جوڑا اسی کرائے کی سیاہ ایس یو وی میں گھر کے لیے روانہ ہوا، لیکن پولیس نے انہیں دھر لیا۔ سوال یہ ہے کہ جب پولیس ان کے تعاقب میں تھی اور فاروق نے ان پر سینکڑوں رائونڈ فائرکیے تو کیا اس وقت تاشفین گاڑی چلا رہی تھی؟ اگر ایسا ہے تو راستے میں انہوں نے اپنی نشستیں کیسے بدل لیں؟ کیسے فاروق ڈرائیور کی نشست پہ پہنچا اور کیسے تاشفین پچھلی نشست سے پولیس پر فائرنگ کرتی رہی؟ چند گھنٹوں بعد دونوں مردہ پڑے تھے۔ سید فاروق کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور اس کا بے جان جسم اوندھے منہ خون کے ایک تالاب میں سڑک پر پڑا ہوا تھا۔ تاشفین سیاہ ایس یو وی کی پچھلی نشست پہ مری پڑی تھی۔ شدید فائرنگ کی وجہ سے گاڑی کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔
چند غیر مصدقہ خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ پولیس ذرائع کے حوالے سے اخباری رپورٹیں یہ کہتی ہیں کہ فاروق کا النصرہ فرنٹ کے ساتھ تعلق تھا‘ جو شام میں القاعدہ کا حمایت یافتہ گروہ ہے۔ اس کے علاوہ صومالیہ کے شباب نامی گروہ کے ساتھ بھی اس کے رابطے تھے۔ تاشفین ملک کا تعلق اسلام آباد کی لال مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ تھا جو اپنی انتہا پسندی کے لیے مشہور ہے۔ دوسری طرف انٹرنیٹ پہ کئی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ ''امریکی حکومت ایک بے گناہ جوڑے کے قتل کی مرتکب ہوئی ہے۔ اسی نے ان کی گاڑی اور گھر میں اسلحہ رکھوایا اور کسی نے فیس بک پر ایک جعلی اکائونٹ بھی بنوایا‘ جسے اسی وقت اپ ڈیٹ بھی کیا جا رہا تھا جب یہ میاں بیوی مارے جا رہے تھے۔ موقع پہ موجود لوگوں نے تین سفید فاموں کو بھاگتے اور اس سیاہ ایس یو وی میں سوار ہوتے دیکھا تھا۔ تاشفین اور فاروق کو خدا بخشے۔ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے‘‘۔ ویٹرنز ٹوڈے کے مدیر کے وِن بیریٹ بھی ایسے سوالات اٹھا رہے ہیں جن کے پوچھنے سے مین سٹریم امریکی میڈیا کترا رہا ہے۔ اس سیاہ ایس یو وی کے شیشے چڑھے ہوئے تھے، اسی لیے سب ٹوٹ بھی گئے۔ سوال یہ ہے کہ چڑھے ہوئے شیشوں کے ساتھ کوئی کیسے پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کر سکتا ہے؟ منطقی طور پر تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی پولیس کے ہاتھوں بے گناہ مارے گئے ہیں۔ کوئی ''شوٹ آئوٹ‘‘ نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ میاں بیوی واقعتاً کسی دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ ہوتے تو کیا ایف بی آئی یوں وقوعے پر میڈیا کو جمگھٹے کی اجازت دیتی؟ کئی عینی شاہدین نے گولی مارنے والے ایک تیسرے آدمی کا بھی ذکرکیا ہے۔ وہ کون تھا؟ کیا محض پانچ فٹ قد کی اور ایک سو پچیس پائونڈ سے بھی کم وزن رکھنے والی تاشفین کے لیے یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اتنی بھاری بھرکم بندوقیں اٹھا کر چلائے اور اس خونریزی کے آغاز کے ایک منٹ بعد ہی انٹرنیٹ پر داعش کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان بھی کر دے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں