محبت اور نفرت کی داستان

''برائی ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ نفرت اور برانگیختگی بھی نمایاں ہے۔ چیخم دھاڑ خاموشی پر غالب ہے، تباہیاں اور المیے اچھائی کے نظاروں کو روک رہے ہیں، لیکن ان سب باتوں کے باوجود ایک بہتر مستقبل کی جانب بڑھنے کی علامات ہمیشہ موجود رہتی ہیں‘‘۔ یہ اقتباس نیویارک ٹائمزکے اداریے سے لیا گیا ہے جو کرسمس کے روز چھپا تھا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر جگہوں پر بھی محبت کم اور نفرت و برگشتگی کی شرح زیادہ ہے۔ آنے والے دنوں میں جب صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے شروع ہوں گے تو ٹی وی مذاکروں اور اخباری مضامین میں اسلام کے خلاف نفرت، خوف اور بیگانگی کی بہتات نظر آئے گی۔ یہ سلسلہ اس سال نومبر کی آٹھ تاریخ یعنی اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکی ''آزاد دنیا ‘‘ کے پینتالیسویں لیڈر کا چنائو نہیں کر لیتے۔ صدارتی دوڑ میں ری پبلکن پارٹی کے متوقع امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیں گے۔ بقول ان کے ''جن شامی پناہ گزینوں کو اوباما نے ملک میں داخلے کی اجازت دی ہے، ہم انہیں واپس بھیج دیں گے۔ داعش پر بمباری کر کے ہم اس کا بھرکس نکال دیں گے۔ ان کے خاندان والوں کو مار ڈالیں گے۔ امریکہ بھر کی مسجدوں میں داخل ہو کر چھان بین کریں گے کہ وہاں کس چیز کی تعلیم دی جا رہی ہے‘‘۔ یہ باتیں ان صاحب کی رسمی سیاسی تقریر کا حصہ ہوتی ہیں۔ وہ جس قدر ایسی باتیں کرتے ہیں، اسی قدر انہیں اپنے حامیوں سے محبت ملتی ہے۔ کرسمس کی شب چاند کی چودھویں تھی۔ نئے سال کا آغاز ہوتا ہے تو گھر، شاپنگ مالز اور دکانیں برقی آرائش سے جگمگانے لگتی ہیں۔ گھنٹیوں کی آوازوں میں ایک نئے آغاز کی نوید سنائی دیتی ہے۔ پیار و محبت بھلے لوٹ آئے لیکن نفرت و تعصب کی واپسی بھی ہو گئی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شامل تیرہ کے تیرہ افراد (سینیٹر لِنڈسے گراہم کے استثنیٰ کے ساتھ جو اس دوڑ سے الگ ہو چکے ہیں) اسلام کو دیگر مذاہب سے ''مختلف‘‘ ظاہر کرنے کے لیے بے تکان بولتے رہتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو صاف صاف کہہ دیں کہ اسلا م دہشت کو ترویج دیتا ہے۔ فی الحال جاہلوںکا یہ جتھا یہ کہنے پہ اکتفا کر رہا ہے کہ اسلام کے ماننے والے دہشت گردی پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ رِک سینٹورم کا کہنا ہے کہ ''دوسروں کے مقابلے میں مسلمانوں کے دہشت گرد بننے کا امکان زیادہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان جہادی نہیں ہوتے لیکن تمام جہادی مسلمان ہیں‘‘۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک سیاسی نظام کا ڈھانچہ بھی ہے یعنی ''یہ شرعی قانون بھی ہے، ایک سِول حکومت بھی اور ایک نظام حکومت بھی ہے‘‘۔
ایک جانب ایسے لوگ ہیں تو دوسری جانب چاقو لہراتے وہ فلسطینی نوجوان جو اسرائیلی مقبوضہ علاقوں خاص طور پر یروشلم میں زیادہ سے زیادہ یہودیوںکو جان سے مار دینا چاہتے ہیں۔ ان فلسطینیوں کو گولی مار کے ہلاک کر دیا جاتا ہے لیکن ان کی جگہ مزید فلسطینی آ جاتے ہیں۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے اس مقاتلے کے باعث مغربی کنارے میں فلسطین کے زیر انتظام بیت اللحم میںعیسائی کرسمس نہیں منا سکے۔ ماضی میں کرسمس کے دوران یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین پُرامن تعلقات کی بدولت دنیا بھر سے ہزاروں سیاحوں کا بیت اللحم میں جوق در جوق آنا زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہ سیاح کنیسۃ المہد کی گہری اور پُرپیچ سیڑھیوں کے ذریعے ایک غار میں پہنچتے‘ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقامِ پیدائش پر بطورِ علامت چاندی کا ایک تارہ آویزاں ہے۔ یہاں پہنچ کر سبھی کے لبوں پہ دعائیں مچلتی ہیں۔ پچھلے موسمِ گرما میں ہم بیت اللحم میں تھے۔ ہمارے فلسطینی گائیڈ جاسم نے ہمیں عظیم الشان ساحۃالمہد بھی دکھایا تھا جہاں عیسائی کرسمس کے موقع پرکیرولز گانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہیں سفید میناروں والی ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جو حضرت عمرؓ کے نام سے موسوم ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ یروشلم کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ بیت اللحم بھی آئے تھے اور یہاں انہوں نے کنیسۃ المہد کی تکریم کے لیے ایک ''قانون‘‘ جاری کیا تھا۔ کہتے ہیں اس مسجد میں انہوں نے نماز بھی پڑھی تھی۔ حضرت عمرؓ نہایت بارسوخ اور مقتدر مسلمان خلیفہ تھے اور ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو یکساں عزت دی۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام اپنی بنیاد، عقائد اور مقدس کتابوں کے لحاظ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں نظریات کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی اقدار بھی یکساں ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود آج ان مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ ایونجلیکل کالج میں خاتون پروفیسر نے مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر سر ڈھانپا تو ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی گئی۔ ان خاتون کا کہنا تھا کہ ہماری طرح مسلمان بھی اہلِ کتاب ہیں اور ویسے بھی پوپ فرانسس کہہ چکے ہیں کہ ہم سب ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن کالج کی انتظامیہ کو ان سے اتفاق نہ تھا۔ دلیل یہ تھی کہ اسلام اور عیسائیت کے باہمی تعلق کے بارے میں پروفیسر صاحبہ کے تبصرے سے مذہبی مضمرات کے حامل اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی اسلام مخالف ہرزہ سرائیوں نے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان کی ہرزہ سرائیاںصرف ماہرینِ تعلیم کو ہی نہیں بلکہ ان افراد کو بھی پُرکشش معلوم ہوتی ہیں‘ جو ناخوش کارکن طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر احساسِ برتری میں مبتلا سفید فام لوگ یا وہ عمر رسیدہ قوم پرست جو اس امید پر ڈونالڈ ٹرمپ کے گرد جمع ہو رہے ہیں کہ شاید وہ امریکہ کو مسلمانوں، میکسیکنز اور سیاہ فاموں سے بچا لیں گے یا پھر وہ لوگ بھی جو صدر اوباما اور ان کے خاندان سے نفرت کرتے ہیں۔ صدر اوباما‘ جو دنیا کے طاقت ور ترین انسان ہیں اور یہ امریکی صدارت کا ان کا آخری سال ہے‘ یہ تسلیم کرتے ہیںکہ ان کی ذات پر جوکیچڑ اچھالا جاتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ وائٹ ہائوس میں متمکن ہونے والے پہلے افریقی نژاد امریکی ہیں۔ بقول ان کے وہ لوگ جو ''یہ کہتے ہیں کہ میں کسی طور سے مختلف ہوں، مسلمان ہوں اور ملک کا وفادار نہیں وغیرہ وغیرہ، تو یہ باتیں میرے بارے میں، خاص طور پر جو میں ہوں اور جو میرا پس منظر ہے، اس کی وجہ سے ہوتی ہیں‘‘۔ نیو جرسی کی ایک سپر مارکیٹ میں 44 سالہ 
حبامقصود سر ڈھانپ کر خریداری کرنے گئی تھیں۔ یہ خاتون ایک یونیورسٹی کو سوشل میڈیا کی خدمات فراہم کرنے والے ادارے کی ڈائریکٹر ہیں۔ خریداری کے دوران انہیں درمیانی عمر کے چند سفید فام مردوں کی باتیں سنائی دیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ''ان میں سے ایک تو خاص طور پر اپنے فربہ پیٹ، بازوئوں پر گودے ہوئے نقش اور بڑی سنہری صلیب کی وجہ سے ان کی نظروں میں آیا۔ وہ ان کے قریب ہوئی تو انہوں نے سنا ''بائبل‘‘ اور پھر اس آدمی نے بہ آوازِ بلند کہا ''قرآن کی طرح نہیں جو یہ مسلمان پڑھتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد حبا مقصود اور دیگر 1.6 بلین مسلمانوں کے بارے میں اس نے ایک گالی بکی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ بھی محبت، برداشت اور عدم احساس کی مثال ہے۔ حبا مقصود نے سٹور کے منیجر مارک ایگن کو بتایا کہ میری خریداری ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن یہاں مجھے اپنا آپ محفوظ محسوس نہیں ہو رہا۔ مارک ایگن نے ان کی حفاظت کا ذمہ خود لینے کا وعدہ کیا اور جب تک وہ خریداری کرتی رہیں وہ ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اگلے دن حبا مقصود نے یہ واقعہ فیس بک پہ لکھا اور آناً فاناً جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ انہیں تقریباً تین سو جواب ملے جن میں سے چند ایک دیگر امریکی مسلمانوں کی جانب سے تھے‘ جنہوں نے اس طرح کے تعصب پر مبنی اپنے تجربات لکھے تھے کہ کیسے انہیں ''سر ڈھانپنے والا‘‘ پکار کر طعنے دیے گئے، ''عیسائیوں کا قاتل‘‘ کہا گیا، اپنے گھر واپس جانے کا بولا گیا! شیرل اولٹزکی ایک راہب کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے اپنی دوست عطیہ آفتاب کے ساتھ مل کر ''سسٹر ہڈ آف سلام شالوم‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔ حبا مقصود کی حمایت اور مارک ایگن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس تنظیم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ سو اس سارے قصے میں ہیرو اس سٹور کے عیسائی منیجر مارک ایگن رہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں