روشن خیال اعتدال پسندی، مگر جعلی نہیں!

جنرل پرویز مشرف کو شاید کسی خود ساختہ سقراط نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اسلام کے ساتھ ''روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کی ترکیب استعمال کر کے مغرب کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے خود جنرل صاحب کے دورِ اقتدار ہی میں جہادی نرسریوں میں بے شمار خود کش بمبار جنم لینے لگے۔ چنانچہ ان کی یہ ترکیب (روشن خیال اعتدال پسندی) زیادہ چل نہیں پائی اور ترک کر دی گئی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ جعلی تھی۔ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کو اس ترکیب کے حقیقی معنوں کو زندگی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر علمائے کرام کو اپنے خطبوں کے حوالے سے سوچ بچار سے کام لینا چاہیے۔ ہمارے مولوی صاحبان اس امر کو بالکل فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ سان برنارڈینو میں پاکستانی نژاد مسلمان جوڑے کے ہاتھوں متعدد افراد کے قتل کے بعد مغرب میں اسلام کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے خطبے اب بھی جنت میں داخلے کے (آسان) طریقوں پر مرکوز ہیں۔ پچھلے جمعہ جب ہم نیو جرسی کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے گئے تو وہاں بھی امامِ صاحب چیخ چیخ کر سننے والوں کو یہی بتا رہے تھے کہ ''آپ لوگ جنت جا سکیں گے بشرطیکہ۔۔۔۔۔‘‘! یہی باتیں ہم ہر جمعہ کو مختلف اماموں سے سنتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو یہ لالچ دیں کہ اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر یں گے‘ تو جنت میں اپنی جگہ بنا سکیں گے۔ اس کے لیے ان کے پاس دو ہی طریقے ہیں یعنی ڈرانا اور دھمکانا! ہماری یہ حسرت ہی رہی کہ کبھی جا کر ان مولوی صاحبان کو کہیں کہ جنت کے بارے میں چیخنا چلانا بند کر کے اسلام کو ایک ترقی پسند مذہب کے طور پر پیش کریں اور روزمرہ زندگی قرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق خود بھی ڈھالیں اور سامعین کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ ذات اور مذہب کے امتیاز سے بالاتر ہو کر ہمیں انسان دوستی، مہربانی، فیاضی اور دوسروں کے لیے حساسیت رکھنے کی تعلیم دیں۔ یہ تعلیم بھی دیں کہ جس ملک کو انہوں نے اختیار کیا ہے یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، انہیں اس کے قوانین و قواعد کی پابندی کرنی چاہیے، ان کی اقدار اور رسوم و رواج سے ہمیں متصادم نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان سے نفرت کرنی چاہیے۔ جس اسلامک سنٹر میں ہم جاتے ہیں اس کے ڈائریکٹر کے سامنے بھی ہم نے یہ سوال رکھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ہماری بات سے پورا اتفاق ہے لیکن افسوس کہ لوگوں کی اکثریت عبادت صرف انعام کے لالچ یا سزا کے خوف کی وجہ سے ہی کرتی ہے‘ ان کے لیے یہ کوئی روحانی تجربہ نہیں بلکہ ایک سودے بازی ہوتی ہے۔ ایک سادہ سی عارضی بنیادوں پر تعمیر کی گئی مسجد ہمارے گھر کے خاصا قریب ہے۔ وہاں بھی ہم ایک بار جمعہ پڑھنے گئے۔ ہمارے سوا وہاں اور کوئی خاتون نہیں تھی۔ عورتوں کے سیکشن کو قناتیں لگا کے الگ کیا گیا تھا۔ پورا خطبہ عربی میں تھا۔ ہمیں امام صاحب کے کہے ہوئے ایک بھی لفظ کی سمجھ نہیں آئی۔ دیگر نمازیوں کا بھی یہی حال تھا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ لوگ بس خاموشی سے نماز شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں جنوبی فلوریڈا کے اپنے امام کی بڑی یاد آئی۔ ایسا کوئی جمعہ نہیں گزرتا تھا جب وہ ہمیں اپنی باتوں سے کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتے تھے۔ برادر بشیر نہایت خوش بیان مقرر تھے۔ ان کے خطبے انگریزی زبان میں ہوا کرتے تھے۔ ان کے خطبوں میں ہمیشہ روح کو جھنجھوڑنے والا پیغام ہوتا تھا۔ وہ شعلہ بیانی سے کام نہیں لیتے تھے اور نہ ہی نمازوں میں سستی دکھانے والوں کو جہنم اور خدا کے غضب کی بھڑکتی آگ کے ڈراوے دیتے تھے۔
انتہا پسندی میں مبتلا ہو کر چودہ افراد کی جان لینے والا قاتل جوڑا خود تو کہیں کسی بے نام قبر میں سویا پڑا ہے لیکن اس کے اقدام کی وجہ سے پورے امریکہ میں اسلام کو ایک متشدد اور نفرت انگیز مذہب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لوگ خائف ہیں۔ پاکستانی امریکی خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں میں ہیں۔ پاکستان سے آنے والے ایک خاص عمر سے زائد مردوں کو ''اضافی پوچھ گچھ ‘‘ کی خاطرایئر پورٹ پر چھ تا آٹھ گھنٹے رکنا پڑتا ہے اور ان سے متعلقہ معلومات کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اس قسم کی تفصیلی چھان بین اور اس سے ہونے والے زحمت کے لیے ہم امریکی امیگریشن حکام کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ کون چاہے گا کہ تاشفین ملک کی طرح داعش کا کوئی حمایتی ان کے ملک میں یوں چپکے سے آ جائے؟ مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی سے متعلق ڈونالڈ ٹرمپ کے نفرت انگیز بیانات حقیقت کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ جو مولوی صاحبان جنت کے موضوع سے ہٹ کر اور کچھ نہیں بولتے وہ اور ان کے زیرِ اثر لوگ داعش کی انتہا پسندی اور اس قاتل جوڑے کے اقدام کو غیر اسلامی نہیں سمجھتے ۔ یہ لوگ اکیسویں صدی کے خیالات اور انسانی آزادی کے حق سے متصادم انتہائی نوعیت کے سیاسی، سماجی اور مذہبی خیالات کا اظہار شاید نہیںکرتے لیکن یہ لوگ ان خیالات کی پُر زور تردید یا مذمت بھی نہیں کرتے۔ نیوجرسی کے ایک ایسے علاقے میں جہاں جنوبی ایشیا کے افراد بکثرت موجود ہیں، ہمیں جمعہ کے روز لمبی لمبی داڑھیوں اور عبا میں ملبوس مرد بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی عورتیں سر تا پا ایسے کالے برقعوں میں ملبوس ہوتی ہیں جن میں صرف آنکھوں کے لیے دو باریک چھید ہوتے ہیں۔ یہ خواتین ننجا ٹرٹلز کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ جو متعصب افراد پہلے ہی مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ مناظر مزید نفرت اور غصے کا سبب بنتے ہیں۔ آفتاب خان جو لاہور میں Surridge & Beecheno نامی لاء فرم میں پارٹنر ہیں اور ہر سال اپنے بچوں سے ملنے امریکہ آتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اپنے مذہبی خیالات کا یوں سر عام اظہار کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر مذہب کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے تو بہتر ہے انسان اسی ملک واپس چلا جا ئے جہاں سے آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں انہیں ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ ہجرت کر کے آئے ہوئے مسلمانوں خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے زندگی مزید دشوار ہو جائے گی۔ جزوی طور پر اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے کیونکہ ان کی اکثریت پاکستانیوں اور مسلمانوں کے سوا کسی سے زیادہ گھلتی ملتی نہیں ہے۔ آفتاب خان لکھتے ہیں کہ پچھلے دنوں پاکستانی میڈیا نے کراچی کی چند برقع پوش خواتین کے بارے میں خبر دی جو مخیر خاندانوں کی خواتین سے ایک ایسی اکیڈیمی کے لیے عطیات مانگ رہی تھیں جو اصل میں داعش کی ذیلی شاخ ہے۔ یہ خبر چلی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کر کے اس سرگرمی میں ملوث افراد کو گرفتار کر لیا، لیکن اس کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت پھر بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔ آفتاب خان کہتے ہیں کہ سان برنارڈینو سانحے کے بعد انہوں نے کہیں ایسا ذکر نہیں سنا کہ پاکستان کے کسی بڑے شہر میں اس قاتل جوڑے کے خونیں اقدام کے خلاف کوئی عوامی ریلی نکالی گئی ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں