یادوں کے تانے بانے

ہمارے پرانے ای میل باکس میں ہمیں ایک پیغام موصول ہوا تھا۔ لکھنے والے نے ہم سے پہلی ملاقات میں وعدہ کیا تھا کہ اگلی ملاقات میں وہ ہمیں کچھ ''حساس‘‘ معلومات فراہم کریں گے۔ ہماری یہ اگلی ملاقات کبھی نہیں ہو پائی۔ کئی برس بیت گئے اور ہم ان صاحب کو تقریباً بھول چکے تھے۔ ایک دن ہم نے ان کا نام گوگل پہ تلاش کیا، لکھا تھا: ''ڈاکٹر تھامس مینٹن‘جو انسانی حقوق کے رپورٹر اور خلیج میں امریکی حکومت کی کارروائی کے ناقد رہے، بطورِ ہدف سیاسی قیدی بنائے گئے پھر قتل کر دیے گئے۔ فلوریڈا میں برسٹل کی لبرٹی کریکشنل فیسلٹی میں ان پر حملہ ہوا‘ اور 19جنوری2011ء کو ان کا انتقال ہو گیا‘‘۔ ہماری ان سے ملاقات چھ سال پہلے نہایت پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ 27 دسمبر 2009ء کو ہم نے ہم عصر انگریزی روزنامے میں بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کالم لکھا تھا۔ وہ کالم پڑھنے کے بعد ڈاکٹر مینٹن نے ہمیں ای میل بھیجی‘ جس میں انہوں نے لکھا تھا: ''ذوالفقار علی بھٹو ان کے بہترین دوست تھے‘اور وہ ان کی سوانحِ حیات بھی لکھنے والے تھے۔ بھٹو کی بہادر بیٹی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی جان قربان کی۔ کراچی میں ان کی آمد پر جو حملہ ہوا اس میں ان کے ساتھ مجھے بھی قتل کرنا مقصود تھا۔ نیویارک میں جب ہماری آخری ملاقات ہوئی تو ہم نے ایک دوسرے کو بہن بھائی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن خیر، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اسے کس نے قتل کیا‘‘۔ ڈاکٹر مینٹن ہم سے ملنا چاہ رہے تھے۔ اب اسے ایک غیر معمولی اتفاق کہیے کہ اس وقت ہم دونوں ایک ہی علاقے میں تھے؛ چنانچہ اگلی شام ہم دونوں ایک پیزا جوائنٹ میں ملے اور بہت ہی جلد ہماری دوستی ہو گئی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں انہیں ٹام کہہ کر پکارنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ان کے بیٹے اور ان کی بیٹی کے بارے میں ہمارے یہ نئے شناسا بے شمار ایسی باتیں بتاتے جا رہے تھے جو پہلے کہیں سنی تھیں‘ نہ پڑھی تھیں۔ ان باتوں میں گھنٹوں بیت گئے۔ ہمارے لیے یہ نہایت عجیب تجربہ تھا کہ پاکستان سے ہزاروں میل دور اچانک نمودار ہونے والا یہ اجنبی بھٹو کی یادیں تازہ کر رہا تھا‘ اور آج انٹرنیٹ پر ان کے پُرتشدد قتل کی بات پڑھ کر ہم کنفیوز ہوگئے ہیں۔ لکھا تھا، ان کے قتل کا سبب یہ ہے کہ وہ ''اپریل 2010ء میں خلیج میکسیکو میں بی پی آئل پلیٹ فارم کے دھماکے میں تیل کی تباہی کی بارے میں حقیقت کو بڑی بہادری سے سامنے لانے کی کوشش کر رہے تھے‘‘۔ چھ سال قبل جب ہم امریکہ میں ملے تھے تو ہمیں علم تھا کہ ڈاکٹر مینٹن کو پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے‘ اور اس وقت وہ پیرول پر تھے۔ اس وقت بھی انہیں اس لیے ہدف بنایا گیا کہ حکام کو ڈر تھا‘ وہ ان کی حقیقت آشکارکر دیںگے۔ ''فی الحال میں ٹھیک ہوں‘‘ انہوں نے اپنے ٹخنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا۔ وہاں ایک مانیٹر بندھا ہوا تھا‘ جس کے ذریعے ان کے جیلرز جان سکتے تھے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ وہ بات چیت کے دوران بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ وہ بولتے جا رہے تھے اور ہم نوٹس لے رہے تھے (وہ باتیں اتنی خوفناک ہیں کہ بیان نہیں کی جا سکتیں!) رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے آخری الفاظ یہ کہے: ''ہوشیار رہیے، ہو سکتا ہے آپ کا پیچھا کیا جائے‘‘۔
بھٹو خاندان کے ایک پرانے دوست بشیر ریاض بھی ہیں۔ ہم نے انہیں ای میل کرکے پوچھا کہ آیا وہ آنجہانی ڈاکٹر تھامس مینٹن سے واقف ہیں؟ ہم نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ''امریکہ میں وہ ہم سے ملنے آئے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور آصف زرداری کو جانتے ہیں۔ جب آصف زرداری صدر تھے تو وہ ان سے ملنا چاہ رہے تھے اور ہم سے ملاقات کے دوران انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ ہم رخسانہ بنگش سے کہیں کہ وہ آصف زرداری کے ساتھ ان کی ملاقات کا انتظام کروائے۔ ہم ممنون ہوں گے اگر آپ نے اس بات کی تصدیق کر لی‘‘۔ اگلے دن ہمیں جواب موصول ہوا جس میں ٹام کی باتوں کی تصدیق کی گئی تھی۔ ''جی ہاں، وہ ذوالفقارعلی بھٹو کے دوست تھے، بے نظیر بھٹو کو بھی جانتے تھے اور پاکستان میں ان سے ملے بھی تھے۔ بی بی نے انہیں دبئی آنے اور ان کے ساتھ 18 اکتوبر2007ء کو پاکستان جانے کا بھی کہا تھا۔ نیویارک میں رخسانہ بنگش نے آصف زرداری کے ساتھ ان کی ملاقات بھی کروائی تھی اور آصف زرداری کے ساتھ انہوں نے لنچ بھی کیا تھا‘‘۔ جس روز ہمیں گوگل کے ذریعے ٹام کی موت کا علم ہوا، اسی روز ہمیں پاکستان سے بشیر ریاض کی جانب سے ان کی کتاب ''یادوں کا سفر‘‘ ملی۔ سرورق پر بی بی کا پورٹریٹ سکیچ بنا ہوا ہے اور اس کتاب کا انتساب بلاول بھٹو زرداری کے نام ہے۔ بشیر ریاض ''بھٹو لیگیسی فائونڈیشن‘‘ کے چیئرمین ہیں جو بی بی کے قتل کے بعد آصف زرداری نے قائم کی تھی۔ یہ کتاب بشیر ریاض کے پرانے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ہمارا ایک کالم بھی شامل ہے جو "Part of BB's Trousseau" (یعنی بی بی کے جہیز کا ایک حصہ) کے نام سے ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہوا تھا۔ اس عنوان سے ہی قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ بشیر ریاض (جنہیں عموماً Bash کہہ کر پکارا جاتا ہے( اور بھٹو خاندان کے روابط کس قدر قریبی ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں ہدایت کر رکھی تھی کہ جب وہ کمرے میں داخل ہوں گی تو وہ تعظیماً کھڑے نہیں ہوا کریں گے۔ شاید وہ واحد شخص تھے‘ جنہیں یہ کہا گیا تھا۔ اپنی مرحومہ بیوی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے بھی بشیر ریاض کے بارے میں یہی ہدایات دیں۔ آصف زرداری نے انہیں کہا تھا کہ ''آپ بی بی کے جہیز کا ایک حصہ ہیں، آپ کے لیے میرے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ آپ واحد فرد ہیں جنہیں یہ رسائی حاصل ہو گی‘‘۔ بی بی کے انتقال کے بعد جب ہماری بشیر ریاض سے ملاقات ہوئی‘ تو وہ انتہائی صدمے کی حالت میں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے: ''میں نے بی بی کو کھو دیا ہے، اب میرے پاس کھونے کے لیے اور کیا بچا ہے؟ مجھے یہی لگتا ہے کہ وہ کمرے میں داخل ہوں گی اور مجھے کہیں گی کہ آئیں چہل قدمی کرنے چلتے ہیں۔ میں جہاں بھی جائوں، ہر مقام مجھے انہی کی یاد دلاتا ہے‘‘۔ اسلام آباد کے ساتھ ان کی کئی اداس یادیں وابستہ ہیں۔ وہ اس قدر صدمے کا شکار تھے کہ 2008ء میں جب پی پی پی اقتدار میں آئی تو پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں بھی وہ نہیں گئے۔ بقول ان کے ''میں دور رہ کر بس روتا ہی رہا‘‘۔ بشیر ریاض صاحب بڑی بہادری سے بی بی کی یادوں کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ مسکراتے ہوئے مگر آنکھوں میں آنسو لیے وہ کہتے ہیں کہ بی بی اس جہان سے بھی ان کا خیال رکھ رہی ہیں... ''وہ مجھے اپنا سایہ کہتی تھیں، وہ فرشتہ نہیں ایک درویش تھیں۔ وہ لوگوں کو معاف کرنے کی استعداد رکھتی تھیں‘‘۔
بشیر ریاض صاحب کہتے ہیں کہ آصف زرداری اور ان کے بچے بی بی کی امانت ہیں اور ان کے لیے وہ بی بی کی آخری نشانیاں ہیں... ''میں ان کی ویسی خدمت کروں گا جیسی بھٹو صاحب اور ان کی بیٹی کی خدمت کی تھی‘‘۔ خاندانی رازوں کے امین کے طور پر وہ کبھی ان سے دغا نہیں کریں گے۔ نصف صدی سے وہ بھٹو خاندان میں جو کچھ دیکھ چکے ہیں اور جو کچھ جانتے ہیں وہ انہی کے ساتھ دفن ہو جائے گا۔ فی الحال جو کچھ انہوں نے کھویا ہے‘ اس سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس موجود یادیں ہی کافی ہیں۔ مقتول قائد کی تصاویر ان کے ارد گرد موجود ہیں۔ ان تصویروں پہ ہاتھ سے لکھے پیغامات وہ بآواز بلند پڑھ کر سنا رہے ہیں... ''Bash کے نام جو دکھ، درد، تکلیف، خوشی، کامیابی اور فتح کے ادوار میں ہمارے ساتھ رہے، خدا کرے کہ ہماری دوستی دائمی رہے... بے نظیر بھٹو، 11/4/1989) 
بی بی کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں بشیر ریاض بھی ایک سازش کا نشانہ بنے‘ جس سے تنگ آکر انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور لندن میں رہائش اختیار کرلی۔ اپنی کتاب Bhutto Family's Ongoing Struggle میں انہوں نے بی بی کے ساتھ اپنے اختلافِ رائے کا ذکر بھی کیا ہے۔ دبئی میں وہ اکثر بی بی کے گھر میں بطورِ مہمان موجود ہوا کرتے تھے۔ بی بی کے ایک گھریلو ملازم نے ایک بار انہیں کہا تھا: ''آپ واحد شخص ہیں جن سے بی بی حرفِ معذرت کہہ دیا کرتی ہیں‘‘۔ اپنی موت سے سترہ روز قبل بی بی نے بشیر ریاض صاحب کو ایک ای میل کی تھی جس میں انہوں نے لکھا تھا: ''آپ بہت خاص ہیں اور آپ کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کے لیے کئی بار میں نے کال کی۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ آپ کا فون ہر وقت بند ہی رہتا ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں ہمارے راستے میں جتنے چیلنجز اور جتنے غم آئے ہیں اگر ان کا بوجھ اٹھانے میں آپ ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو میں سوچتی ہوں کہ زندگی اور بھی کس قدر دشوار ہوتی۔ آپ مسلسل ساتھ دینے والے وہ دوست ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی زندگی نہیں ہوتی۔ جیسے آپ ہیں اس کے لیے آپ کا بہت شکریہ! خدا آپ کو سبھی انسانوں، شیطانوں اور جنات سے بچائے رکھے! بی بی، 10دسمبر2007ء‘‘۔
ہمارے پراسرار سے ٹام مینٹن کو بھی بھٹو خاندان سے بڑی محبت تھی۔ ان کا مزید ذکر پھر کبھی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں